احمدی دوست سے ایک مکالمہ

سلمان احمد

Abdus_Salam

پچھلے دنوں دوستوں کی ایک محفل میں مسلمانوں کے زوال پر گفتگو ہورہی تھی ۔ اسی دوران بھارت کے نامور اداکار شاہ رخ خان کا ذکر چھڑ گیا جو اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کر چکے ہیں اورپچھلے 25 سالوں سے بھارتی فلم انڈسٹری پر راج کررہے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں ان کے فن وشخصیت پرمختلف پہلوؤں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ شاہ رخ خان نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے اداکار ہیں بلکہ ان کی شخصیت بھی اتنی ہی شاندار ہے جس کا اندازہ ان کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔پوری دنیا میں ان کے مداحوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔

محفل میں موجود احمدی دوست کہنے لگے کہ اگر شاہ رخ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہوتا تو آج دنیا کو پتہ چلتا کہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص کے کروڑوں مداح ہیں ۔

ایک غیر احمدی دوست نے جواباً کہا کہ جماعت احمدیہ ایک کٹرمذہبی تنظیم ہے جہاں فلم وگلوکاری جیسے شعبے حرام ہیں۔ اگر جماعت احمدیہ کا کوئی رکن اداکاری ، گلوکاری یا موسیقی کو اپنائے گا تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے گا۔ پاکستان میں نصرت فتح علی خان ہوں یا راحت فتح علی خان جنہوں نے فن کی دنیا میں نام پیدا کیا ہے اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے مگر کوئی مذہبی فرقہ یا تنظیم انہیں اپنانے کو تیار نہیں ہوگی ۔

ہاں اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کریں تو وہ اداکاری یا گلوکاری کی بجائے سائنس ، ٹیکنالوجی، معیشت، قانون میڈیسن وغیرہ کے شعبوں میں اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے سائنس کی دنیا میں جو مقام بنایا وہ ان کی ذاتی محنت ، لگن اور شوق کی بدولت ممکن ہوا اور سائنس کی دنیا میں ان کا نام زندہ رہے گا۔

احمدی دوست کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تو اب یہ ممکن نہیں رہا کہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد زندگی کے کسی شعبے میںآگے بڑھ سکیں۔ وہ عالمی معیار کا تعلیمی ادارہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہسپتال ۔ پاکستان میں تو احمدی کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔ اگر کسی کو پتہ چلے کہ یہ احمدی ہے تو پھر اس کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی کو بدنام کرنا ہے تو اس پر احمدی کا ٹھپہ لگادیں تو اس کی بقیہ عمر وضاحتیں دیتے گذر جاتی ہے۔ لوگ تو ڈر کے مارے احمدیوں پرہونے والی زیادتیوں تک کا ذکر نہیں کر سکتے کہیں توہین رسالت کا الزام نہ لگ جائے۔

ایک دہریے دوست نے کہا یہ درست ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے لیے اب زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور ان کا سماجی بائیکاٹ ہے بلکہ ان پر زندگی بھی تنگ کی جارہی ہے۔ مگر احمدیوں کی ایک بڑی تعداد یورپ ، کینیڈا اور امریکہ میں بس چکی ہے جہاں انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں لیکن یہاں بھی، دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح ،جماعت احمدیہ کا زور مساجد اور مدرسوں کی تعمیر پر ہے اور تبلیغی جماعت کی طرح انہیں ایک اچھا اور نیک مسلمان بنانے میں مصروف ہے۔

کیونکہ بحثیت عقیدہ احمدی بھی اپنے رویوں میں اتنے ہی انتہا پسند اور متشدد ہیں جتنے کے مسلمانوں کے دوسرے فرقے۔تمام فرقے اپنے عقیدے کو درست سمجھتے ہیں اور دوسرے کے عقیدے کو غلط۔ احمدی بھی اپنے علاوہ باقی مسلمان فرقوں کو کافر یا غیر مسلم اور اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر مسلمان سمجھتے ہیں۔

ا س کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں جماعت احمدیہ کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ دوسری مذہبی جماعتوں کا ۔مسلم لیگ اور قائداعظم کی سیاست ہی فرقہ وارانہ بنیاد پر تھی۔جب مسلمان(بشمول احمدی) اسلام کے نام پر سیاست کریں گے اور مسلم لیگ کا نعرہ ہوگا کہ’’ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ تو پھر اس کا لازمی نتیجہ قراردادِ مقاصد کی صورت میں نکلنا تھا۔

قراردادِ مقاصد کی حمایت اور پھر اس کی منظور ی میں جماعت احمدیہ کے سرکردہ رہنما ممتاز قانون دان و وزیر خارجہ سرظفراللہ خان بھی پیش پیش تھے۔سر ظفر اللہ اور پاکستان ٹائمزکے مالک میاں افتخار الدین نے اسمبلی میں اس قراردادکے حق میں مدلل تقریر کی تھی جبکہ دو غیر مسلموں چٹوپادھیائے اور جوگندر ناتھ منڈل نے اس کے خلاف تقریر یں کی تھیں۔ اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ویثر ن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اور جب قرارد داد مقاصد منظور ہوگئی اور ملک کو اسلامی قراردے دیا گیا تو پھر ریاست کو ایک نہ ایک دن یہ فیصلہ کرنا ہی تھا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم ؟کیونکہ اسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم سربراہ مملکت نہیں ہوسکتا ۔لہذا جس فرقے کا زور چلا اس نے اپنے آپ کو مسلمان اور دوسرے کو غیر مسلم قرار دلوالیا۔

آج جماعت احمدیہ کے اراکین اور مبلغین صلح حدیبیہ کا بڑا ذکر کرتے ہیں ۔ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں اور قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کا حوالہ بھی دیتے ہیں مگر کیا جماعت احمدیہ کے کسی بھی خلیفہ کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ ہوا ہے کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ ہر مذہبی جماعت، اسلامی ریاست کے قیام اور اپنی خلافت کا خواب دیکھ رہی ہے۔

اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کاا لمیہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک خلافت کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی مسلمان فرقہ (بشمول احمدی) اپنے عقائد یا تعلیمات میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے نہ صرف حتمی سچائی آچکی ہے بلکہ وہ دنیا کی سب سے اعلیٰ قوم ہیں ۔لہذا جب تک یہ اپنے نظریات میں لچک پیدا نہیں کریں گے صورتحال میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

’’اس سلسلے میں مسیحیوں سے رہنمائی لی جاسکتی ہے‘‘۔ ایک سر پھرے دوست نے لقمہ دیا۔

دنیا کی اعلیٰ ترین قوم مسلمان ، مسیحیوں سے رہنمائی حاصل کرے؟ کیا یہ اسلام کی توہین نہیں؟میں نے اپنے تئیں لقمہ دیا۔

قارئین اب گفتگو میں گر ما گرمی بڑھ رہی تھی ۔ اس سرپھرے دوست نے پوپ فرانسس کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ نوع انسانی کو درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے سائنس سے زیادہ بہتر اور کوئی آپشن نہیں ہے۔صرف سائنس ہی ان مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتی ہے۔

قارئین کیا یہ قیامت کی نشانیاں نہیں ہیں کہ اکیسویں صدی میں ایک بنیاد پرست مذہب کے پیشوا نو ع انسانی کو درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے سائنس سے مدد حاصل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔وگرنہ مذہبی پیشوا تو دنیاوی مسائل کا حل اللہ کے حضور گڑ گڑا کر معافی مانگنے اور رو رو کر گناہوں سے توبہ کی صورت میں بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانیت جن مسائل کا شکار ہے اس کی وجہ مذہب سے دوری اور مذہبی احکام پر عمل نہ کرنا ہیں۔

وہ کہنے لگا کہ مسلمان فرقوں کو کم ازکم ایک دوسرے کو کافر یا غیر مسلم کہنا بھی بند کرنا ہو گا۔ انہیں کم ازکم اتنی لچک پیدا کرنی ہوگی کہ اگر کوئی ان کے عقیدے کو تسلیم نہیں بھی کرتاتو اسے مرتد، کافر یا غیر مسلم نہ کہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو اعلیٰ ترین کہلوائیں۔ اس سلسلے میں ہمیں پھر پوپ فرانسس سے سیکھنا چاہیے جنہوں نے دہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تم خدا پر یقین نہیں بھی رکھتے تو پھر بھی تم جنت میں جاؤ گے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی خدا پر یقین رکھے یا نہ رکھے اگر وہ اپنے ضمیر کے خلاف کام کرتا ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔

سرپھرا دوست مزید کہنے لگا کہ ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مخالفین کو دوزخ میں بھیجنے کی بجائے انہیں جنت میں جانے کی نویددینے کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں ایک دوسرے کے پیچھے جنازہ بھی پڑھ لینا چاہیے۔ دنیا میں امن سے رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے جو مغربی ممالک نے اختیار کیا ہے یعنی سیکولر ازم اور جمہوریت۔مذہب کا ریاست کے امور میں عمل دخل مکمل طور پر بندہوناچاہیے اور مذہب فرد کا ذاتی مسئلہ ہونا چاہیے۔ مسلمان بے شک تبلیغ کریں مگر کسی دوسرے کو گھٹیا یا غیر مسلم نہ قراردیں۔

میں نے پھر لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خان نے بھی کوشش کی تھیں کہ مسلمان مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کی بجائے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائیں اور جدید علوم حاصل کریں۔ مگر ہم زمین جبند نہ جنبد گل محمد کے مصداق پچھلے سوا سو سال سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے۔دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں کسی مسلمان ملک کی یونیورسٹی کا نام نہیں ملتا۔ مسلمان بدستور عالی شان مساجد اور مدرسے ( اسلامک سنٹرز) تعمیر کر نے میں مصروف ہیں۔

گفتگو اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی ۔ دوستوں نے احمدی دوست کو ایک تجویز دی کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد نوبل انعام حاصل کریں تو اس کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ آپ کے خلیفہ یورپ میں مقیم اپنے لاکھوں اور افریقہ میں مقیم کروڑوں پیروکاروں کو کم ازکم یہ ہدایت جاری کردیں کہ ہرسال ایک ہزار افراد مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی کریں۔ معاشیات، قانون ، سائنس وٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے عالمی اداروں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو این او، یونیسکو اور عالمی تحقیقی اداروں میں کام کرکے اپنے ملک اور کمیونٹی کا نام روشن کر سکتے ہیں۔

قارئین! ایک اور دوست جو اس ساری گفتگو کو خاموشی سے سن رہے تھے اور شاید ہماری بونگیاں سن کر تنگ آ گئے تھے ، انتہا ئی بیزار ی سے بولے یہ ناممکن ہے۔۔۔

9 Comments