جرمنی سے مکتوب

عرفان احمد

640px-Brandenburger_Tor_abends

برطانیہ کے نئے سفیر سر سیباستن نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جرمن کلچر سیاست اور عوام کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے عوام کو قریب کرنے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کے درمیان رابطے بڑھائے جائیں۔ سفیر نے کہ کہ اس وقت چار ہزار کے جرمن طلبا برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہین جبکہ برطانیہ سے جرمنی آکر تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعدا د اس کے نصف یعنی دو ہزار کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میرے چاروں بچے اب جرمن یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں گے۔

برطانوی سفیر جو چین میں بطور سفیر اپنی مدت پوری کرنے کے بعد جرمنی تشریف لائے ہیں نے کہا کہ برطانیہ اور جرمنی کو ایمگرنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا ہے۔برطانیہ کی آباد ی میں گذشتہ پانچ سال کے دوران 23 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ جرمنی کی آبادی کو کمی کا سامنا ہے۔ جرمن سفیر کا نام 54 سال قبل اس وقت کے مشہور جرمن موسیقار سیباستن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 150 سال میں پہلی بار برٹش میوزیم لند کا ڈائریکٹر ایک جرمن ہرٹوگ فشر کو لگایا گیا ہے۔

جرمن پارلیمنٹ نے قانون پاس کرکے ویسٹرن بلقان ممالک،البانیہ ، کوسوو، مونٹیگو کو محفوظ ملک قرار دے کر ان کے سیاسی پناہ حاصل کرنے پر پابندی لگادی ہے ۔ لہذا اب جرمنی میں موجود ہزاروں بلقانین کو واپس اپنے ملک بھجوانے کے لیے فوجی جہاز استعمال کیے جائیں گے۔جبکہ ملکی آئین صرف آفت کے دوران فوجی جہاز سول کاموں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بعض تنظیموں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ فوجی جہازوں میں ملک بدری کی گئی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے ۔ اس صورت میں حکومت فوج کے پاس موجود دو ائربسوں کو استعمال کرے گی جس میں صرف 200مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے۔

جرمنی میں 2014 میں 57.4 بلین کلوواٹ بجلی پیدا کی گئی ۔ 2015 میں کل پیداواری صلاحیت 59 بلین کلوواٹ کا اندازہ ہے۔ اس میں جنوری سے جولائی تک ونڈ انرجی کا حصہ 12.9 فیصد تھا جبکہ گذشتہ سال ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 8.9 فیصد تھی۔ ونڈ انرجی کے رحجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جرمنی میں 2022 تک بتدریج نیو کلییر انرجی کی پیداوار بند کرکے دوسرے ذرائع سے بجلی حاصل کی جائے گی ۔ 2050 تک ملکی ضرورت کی 80 فیصد بجلی کا انحصار ونڈ، سولر اور بائیو گیس پر ہوگا۔

جرمنی کے قومی بینک بندس بینک نے 2300 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق بنک دو لاکھ ستر ہزار تین سو سولہ سونے کی اینٹوں کا مالک ہے۔ ایک اینٹ کا وزن دس کلو گرام ہے۔ اس طرح امریکہ کے بعدجرمنی گولڈ ریزور کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جرمنی نے زیادہ تر گولڈ 1950 اور 1960 کے عشرے درمیاں جمع کیا تھا۔ اس وقت یہ گولڈ فرینکفرٹ کے علاوہ پیرس، لندناور نیویارک میں رکھا گیا ہے۔ فیڈرل ریزرو بنک آف نیویارک میں بہت سے ممالک نے اپنا سونے کا ذخیرہ محفوظ کروایا ہوا ہے۔ جرمنی پیرس میں موجود اپنا سونا 2020 تک جرمنی واپس لے آئے گا جس کے بعد کل ذخیرہ کا 50 فیصد جرمنی، 13 فیصد برطانیہ اور 37 فیصد نیویارت میں رکھا جائے گا۔

جرمنی کے ایک اور مشہور بینک ڈوئچے بینک جس کو مئی 2015 میں امریکی عدالت نے 2.5 ڈالر کا جرمانہ کیا تھا نے اعلان کیا ہے کہ ماہ ستمبر تک بینک 6.2 بلین یورو کا نقصان اٹھا چکا ہے۔اس ہفتہ اس نے ایک اور غلطی کر دی اور غلطی سے چھ ملین ڈالر یو ایس ہیج فنڈ میں ٹرانسفر کر دیئے گئے لیکن 24 گھنٹے کے اندرہی یہ غلطی پکڑی گئی ۔

جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہر پیر کو نئے ایمگرینٹس کی آمد کے خلاف مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔جو پیگیڈا نامی تنظیم ترتیب دیتی ہے۔ ہر پیر کو مظاہرین کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔ گذشتہ سوموار کے روز پہلی بار 20 ہزار مظاہرین ایمگرنٹ پالیسی کے خلاف جلوس میں شامل ہوئے۔جلوس میں ہونے والی تقریروں سے خدشہ ہے کہ مہاجر کیمپوں پر حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

شمالی افریقہ سے سمندری راستوں سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کو زیر استعمال ربر بوٹ کو برلن لایا گیا جس میں 120 ممبر پارلیمنٹ اور پریس نمائندگان نے برلن میں بہنے والے دریا ’’سپری‘‘ میں آدھ گھنٹہ سفر کیا۔ اس کامقصد مہاجرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا تھا۔خواتین ارکان پارلیمنٹ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حفاظتی جیکٹوں کے باوجود ہماری ٹانگیں سردی سے اکڑ گئیں اور پاؤں میں خون جما ہوا محسو س ہوا۔ان کشتیوں پر کئی دنوں کا سفر کرنے والی خواتین اور بچے نہ جانے کن مشکلات کے ساتھ یورپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

جرمنی کے سب سے کم آبادی والے صوبہ سارلینڈ نے اپنے جرمنی سے الحاق کے ساٹھ سال پورے ہونے پر خصوصی تقریب منعقد کی جس میں جرمن چانسلر اور فرانس کے صدر بطور خاص شریک ہوئے۔ 1792 میں انقلاب فرانس کے بعد سارلینڈ فرانس کا حصہ قرار پایا تھا۔ 1815میں نپولین کی شکست پر یہ علاقہ بائرن کی بادشاہت اور فرانس میں تقسیم ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کے کنٹرول میں چلا گیا۔ 1935 میں آزادی کے ریفرنڈم میں نوے فیصد لوگوں نے جرمنی کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں سارلینڈ کے علاقے پر ایک بار پھر فرانس قابض ہو گیا۔ 23اکتوبر 1955 کو دوبارہ عوامی رائے لی گئی تو 68 فیصد عوام نے جرمنی سے دوبارہ الحاق کے حق میں فیصلہ سنایا۔ چنانچہ 1955 سے سارلینڈ جرمنی کا ایک صوبہ قرار پایا جہاں فرنچ اور جرمن دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں اور جرمن بولنے میں اس علاقے کا لہجہ جرمنی کے دوسرے صوبوں سے مختلف ہے۔

جرمنی کے شہر کولون کی ایک عدالت میں 8مسلم نوجوانوں کو پیش کیا گیا جن پر سکولوں اور چرچز میں چوری کی کاروائیاں کرنے کا الزام ہے ان نوجوانوں نے اب تک 1900یورو چور ی کرکے داعش کی مدد کی ہے۔

Tags:

Comments are closed.