ڈاکٹر مبارک علی
اگر کوئی معاشرہ دنیا سے الگ تھلگ رہے تو وہ اپنی روایات اور اقدار کو جامد بنادیتا ہے۔ اگر اس کا رابطہ او رتعلق دنیا کے دوسرے معاشروں سے رہے اور وہ ان کی تہذیبی وثقافتی اقدار سے متاثر ہوتو اس میں ہمیشہ تغیر وتبدل رہتا ہے اور اس کی فکری ترقی کی راہیں کشادہ رہتی ہیں۔
دو معاشروں کے باہمی روابط میں ان کے نقطہ نظر اور رجحانات کا بھی اثر ہوتا ہے قدامت پرست معاشرہ کے اثرات ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں اور یہ تاریخی رفتار کو ٹھہرانے کی او رتبدیلی کے جذبات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ترقی شدہ معاشرے سے روابط جمود کو توڑتے ہیں اور ذہن کو فرسودگی ومردنی سے باہر نکال کر اس میں تازگی شگفتگی پیدا کرتے ہیں۔
ہندوستان نے تاریخ میں خود کو دنیا سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کی اگرچہ تنہائی میں رہ کر یہاں کے سماج نے اعلیٰ اور گہری فکری روایات کو جنم دیا مگر اس تنہائی نے اسے تاریخ کے دھارے سے جدا کر دیا۔ انہوں نے جو روایات تخلیق کیں اور انہیں پروان چڑھایا وہ تنہا ماحول میں خوب پھیلیں پھولیں مگر جب ان کی تروتازگی ختم ہوئی تو ان کو نئی زندگی دینے کے لئے نہ تو تازہ آب وہوا رہی اور نہ زرخیززمین۔ اس لئے یہ ایک جگہ جامد ہوکر رہ گئیں۔
جب مسلمان حملہ آور یہاں آئے تو ہندوستانی معاشرہ اپنے زنگ آلود اور فرسودہ روایات وعقائد سے ان کا مقابلہ نہ کرسکا۔ یہی عمل اس وقت دہرایا گیا جب مسلمان معاشرہ اپنے تنگ خول میں بند ہوگیا اور انگریزوں اور یورپی روایات ورجحانات سے شکست کھا گیا۔
ہندوستان کا مسلمان معاشرہ اپنے مذہبی تعلق اور لگاؤکی وجہ سے سرزمین عرب سے متاثر رہا خصوصیت سے مکہ اور مدینہ سے نہ صرف ان کا جذباتی تعلق رہا ہے بلکہ وہاں کے علماء اور ان کے خیالات وافکار سے بھی متاثر رہا ہے۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کا تعلق وسط ایشیا اور ایران سے بھی رہا۔ سیاسی وثقافتی اثرات انہوں نے وسط ایشیا اور ایران سے قبول کئے جب کہ مذہبی معاملات میں وہ حجاز کے علماء سے متاثر ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی وثقافتی لحاظ سے ان میں لچک تھی مگر مذہبی امور میں وہ قدامت پرست تھے۔
حجاز کی مذہبی درس گاہیں اسلام کی کلاسیکی تعلیمات کا مرکز تھیں اور زمانے کی تبدیلیوں سے دور اسلام کی تاویل وتفسیر قدیم رحجانات کے ساتھ کرتی تھیں۔ ہندوستان کے جو علماء ان درسگاہوں میں تربیت پاتے تھے وہ واپس ہندوستان آکر انہی متشدد رحجانات کو پھیلاتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہمارے علماء اور مذہبی جماعتیں متشدد اور بنیاد پرست ہوگئیں اورہندوستان کے سیاسی وسماجی حالات کو نہیں سمجھ سکیں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس مسئلہ کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمان حکمران اقلیت کا کیا کردار ہونا چاہئے؟
ہندو اکثریت سے بہتر تعلقات کے لئے ضروری تھا کہ رواداری اور صلح کل پالیسی کو اختیار کیا جاتا مگر اس کے مقابلہ میں غیر مفاہمت کا نظریہ اختیار کیا گیا او رہندوستان کے عام مسلمانوں کی تہذیبی وثقافتی زندگی کو سمجھے بغیر یہ اعتراض کیا گیا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہیں اور انہوں نے مشرکانہ رسومات کو اختیار کررکھا ہے چنانچہ ہندوستانی علماء نے ہندوستان میں اسلام کو پاکیزہ کرنے کی جدوجہد کرکے اپنے حلقہ اور فکر کو اور تنگ کرلیا۔
ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد ہندوستانی معاشرے میں سیاسی ومعاشی او رمعاشرتی تبدیلیاں بڑی تیزی کے ساتھ آئیں جنہوں نے قدیم روایات واقدار کو ہلاکر رکھ دیا۔ اگرچہ قدیم نظام کے حامیوں نے اس بات کی پوری پوری کوششیں کی کہ وہ معاشرے کے سماجی ومعاشی ڈھانچہ کو اس طرح قدیم بنیادوں پر رہنے دیں مگر نئے چیلنج اور تبدیلیاں اس قدر موثر اور طاقتور تھیں کہ وہ ان کے آگے نہیں ٹھہر سکے اورجس طرح انہوں نے انگریزوں سے فوجی میدانوں میں شکست کھائی تھیں اس طرح وہ ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی ان کے آگے پسپا ہوگئے۔
انگریزی اقتدار جب ایک مرتبہ قائم ہوگیا تو انہوں نے سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی معاشرے میں معاشرتی ومعاشی تبدیلیوں کی جانب بھی توجہ دی۔ ان تبدیلیوں نے ہندوستانی روایات اور معاشرے میں توڑ پھوڑ شروع کردی اور یہ جامد او رٹھہرا ہوا معاشرہ ایک طوفان اور انقلاب سے دور چار ہوا۔ نئی اصلاحات کا اثر ہماری مذہبی روایات اور عقائد پر بھی ہوا اور اس سے بحث کا آغاز ہواکہ کیا مذہبی تعبیرو تفسیر کو منجمد رہنا چاہئے یا اسے زمانہ کی رفتار او رتبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا چاہئے۔
ہندوستان کا جدید نوجوان طبقہ جو مغربی تعلیم حاصل کررہا تھا اس بات کا خواہش مند تھا کہ مذہب کی نئی تاویلات سے جدید اصلاحات کو صحیح ثابت کیاجائے تاکہ وہ مغربی روایات اور اقدار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے پہلو بہ پہلو چل سکیں۔
برطانوی اقتدار ہندوستان کی صنعت وحرفت، تجارت اور زراعت میں بھی تبدیلیاں لایا اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر انہوں نے یہاں کے پرانے قانون اور عدالتی نظام کو بھی تبدیل کیا جس کی وجہ سے ہمارے طبقاتی معاشرے پر زبردست اثر پڑا۔ صنعت وحرفت میں برطانوی اور مقامی تاجروں کے درمیان رابطہ کے لئے دلالوں کا طبقہ پیدا ہوا جس کے مفادات برطانوی حکومت اور اس کے استحکام سے وابستہ ہوگئے۔ اور ان کے ساتھ شریک ہوکر منافع میں حصہ دار ہوگئے۔ زراعتی اصلاحات اور وقف کے قانون میں تبدیلی کی وجہ سے قدیم زمینداروں کی مراعات ختم ہوگئیں اور ان کے بجائے انگریزی حکومت نے اپنے وفادار زمینداروں کی ایک علیحدہ کلاس پیدا کی۔
برطانیہ کے صنعتی انقلاب نے ہندوستان کی منڈیوں کو برطانوی مصنوعات سے بھر دیا جس کے نتیجہ میں گاؤں اور چھوٹے شہروں کی گھریلوصنعتیں تباہ ہوگئیں او ربے روز گاری کی کھیپ کی کھیپ دیہاتوں اور قصبوں کی پر سکون فضا اور ماحول کو چھوڑ کر شہر کی پر رونق مگر گندی فضاؤں میں آکر آباد ہونے لگی۔ قصبوں اور شہروں کی آبادی کے تناسب نے معاشرہ کی سماجی وثقافتی زندگی کو متاثر کیا اور خاندان کے روایتی ڈھانچہ کو بدلا۔ اس کے ساتھ ہی نئے تعلیمی ادارے مغربی تعلیم کے ذریعہ نئی نسل کو پرانی اقدار کی مخالفت میں تیار کررہے تھے او رہندوستان کی تہذیب وثقافت پر علمی وفکری حملے ہورہے تھے تاکہ مغربی تہذیب کی برتری کو ثابت کیا جائے۔
ان حالات میں ہندوستان کا اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہوا، سیاسی تبدیلیوں نے قدیم مسلمان امراء اور زمینداروں کی حیثیت کو بدل ڈالا، عہدے ومنصبوں کی محرومی اور جاگیروں کی تبدیلی نے ان مراعات کو یا تو ختم کردیا یا گھٹادیا۔ نئی صنعتی تبدیلیوں نے صنعتی طبقہ کے افراد کو روزی سے محروم کردیا اور علماء کا طبقہ نئی تعلیم کے آگے جاہل بن کر رہ گیا اور ملازمتوں کے دروازے بند ہونے کی صورت میں معاش سے بھی محروم ہوگیا۔
یورپی مفکرین کی جانب سے مسلمانوں اور اسلام پر جو اعتراضات کئے جارہے تھے اور ان کی ثقافتی وتہذیبی علامتوں کو جس طرح توڑا جارہا تھا وہ بھی پورے معاشرے کے لئے باعث اذیت تھا۔ اس لئے ہندوستان کے مسلمان معاشرے کی یہ انتہائی اہم تاریخ ہے کیونکہ اس اہم موڑ پر ان کے منجمدمعاشرے میں پہلی مرتبہ حرکت ہوئی اور اس بات کی کوشش کی گئی کہ مغربی چیلنجوں کا جواب دیا جائے اور اپنی تہذیب وثقافت کا عقلی بنیادوں پر دفاع کیا جائے۔
ابتداء میں جدیدیت کے نام پر جو تحریک اٹھی اس کے پس منظر میں مسلمان زمینداروں اور امراء کا نوجوان طبقہ تھا جو انگریزی حکومت سے مفاہمت کا خواہش مند تھا۔ اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ وہ انگریزی زبان سیکھے، مغربی تعلیم حاصل کرے اور مغربی تہذیب کے طور پر طریقے اختیار کرے تاکہ وہ حکمران طبقہ کے قریب آسکے۔ ان کی ملازمت اختیار کرسکے اور اس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اس مقصد کے لئے اسے مذہبی جواز کی ضرورت تھی تاکہ معاشرے میں ان اقدام سے اس کی عزت ووقار میں کمی نہ آئے اس لئے اس بات پر زور دیا گیا کہ اسلام اور جدیدیت میں کوئی فرق نہیں۔ کرامت علی جون پوری(وفات1877ء) نے بنگال میں اس کی تبلیغ کی کہ مسلمانوں کو جدید علوم سیکھنا چاہئے، کیونکہ جدیدیت کا اسلام سے کوئی تصادم نہیں۔ دہلی میں’’دہلی کالج‘‘ کا قیام بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھا جس نے قدیم وجدید کے امتزاج کے ساتھ روشن خیال تعلیم یافتہ مسلمانوں کا طبقہ پیدا کیا۔
مسلمانوں کے ابھرتے ہوئے بورژواطبقہ کی بہترین نمائندگی سرسید احمد خاں نے کی۔ انہوں نے اس بات کا اندازہ کرلیا تھا کہ مسلمانوں نے غیر ملکی طاقت کے خلاف قدامت پرست اور رجعت پرست ہتھیاروں سے جنگ میں شکست کھائی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی بقاء اور خوشحالی کے لئے وہ انگریزی حکومت کے ساتھ وفادار رہیں او رخود کو جدید مغربی علوم سے آراستہ کریں۔ حکومت کی بدگمانیاں دور کرنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو سیاست، پان اسلام ازم اور ہر اس چیز سے دور رکھنے کی کوشش کی جس سے انگریزی حکومت کی ناراضی کا خطرہ تھا۔
انہوں نے اعلیٰ تعلیم پر زور دیا تاکہ مسلمان امراء اعلیٰ عہدے حاصل کرکے حکومت میں شریک ہوجائیں۔ لیکن ہندوستان میں جدید تعلیم اور برطانوی تسلط کے نتیجہ میں جو تبدیلیاں آرہی تھیں وہ ان کی علیحدگی پسندی کی پالیسی کے باوجود نہیں رک سکیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان اس علیحدگی کی وجہ سے دوسری قوموں کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے اورہندوستان کے سیاسی دھارے کا ساتھ نہیں دے سکے۔
ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو ابتدائی مرحلہ پر جو مسئلہ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ جدید خیالات وافکار اور نئے سائنسی انکشافات جن سے مذہبی وسماجی اور معاشی افکار پر زدپڑرہی تھی اور جن کی وجہ سے ان کے عقائد متزلزل ہورہے تھے۔ اس چیلنج کا جواب کیسے دیا جائے؟ سرسید نے اس بحران پر قابو پانے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ اسلام او رجدید خیالات وافکار، سائنسی ایجادات اور ترقی کی رفتار کو باہم ملایا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے قرآن کی عقلی تفسیر کی اور روائتی اصطلاحوں کی نئے انداز سے تشریح کی تاکہ جدید ذہن اسے سمجھ سکے ۔اگرچہ ان کا یہ قدم بغاوت کے مترادف تھا کیونکہ اس سے قدیم اور جدید روایات پسند علماء کی عقل وفہم پر شبہ ہوتا تھا۔
انہوں نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا جو مغربی مستشرقین اسلام اور اسلامی تاریخ پر اعتراضات او رتنقید کررہے تھے۔ اہم اعتراضات جو اس وقت کئے جارہے تھے وہ جہاد، غلامی اور ایک سے زیادہ شادیوں پر تھے۔ انہوں نے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جہاد خاص حالات میں فرض ہے۔ غلامی کا کوئی تصور اسلام میں نہیں او رنہ ہی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ معاشرہ میں نئے معاشی ڈھانچہ کا قائم ہونے کو بھی انہوں نے اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ بنک کی رقم پر سود جائز ہے۔
انہوں نے مذہب کے فردعی عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اسلامی قانون کو وسعت دی اور زمانہ کی تبدیلیوں کے زیر اثر اسلامی قانون میں ترمیم کو ضروری سمجھا اس کے چاروں مسلکوں کے درمیان فرق کم کرنے کی کوشش کی اور اجتہاد پر زور دیا۔
مولوی چراغ علی نے سرسید کے افکار کو مزید وسعت دی کیونکہ یہ یورپی زبانوں پر عبور رکھتے تھے او ریورپ میں اسلام پر جو اعتراضات ہورہے تھے، ان سے واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے بھی ایک سے زیادہ شادیوں او رجہاد اور غلامی پر جدید اقدار کی روشنی میں لکھا۔ انہوں نے اجتہاد پر زور دیا اور علماء کے اجماع کی مخالفت کی۔ اسلامی قانون کے مطابق تمام ماخذوں کی مخالفت کرکے صرف قرآن کو صحیح ماخذ ثابت کیا۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ قدیم اسلامی قانون صرف ایک خاص عہد اور زمانہ کے لئے تھا او ریہ9ویں اور 10صدی کے تاریخی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لئے جدید دور میں اس کی افادیت ختم ہوچکی ہے اور اب اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سرسید اور چراغ علی کے ان مذہبی افکار کے خلاف قدامت پرستوں میں زبردست ردعمل ہوا جس کا اظہار ان کے خلاف کفر کے فتوؤں میں ملتا ہے۔
سرسید کے ساتھی اور رفیق نواب محسن الملک نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے قدیم اسلام اور بنیاد پرستی پر زور دیا او رکوشش کی کہ جدید اور قدیم کی انتہا پسندی سے نکل کر درمیانی راستہ اختیار کیا جائے تاکہ علی گڑھ تحریک جو قدیم خیالات کے حلقوں میں نا مقبول ہو رہی ہے اسے روکا جائے۔
مغربی تہذیب کے اثرات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہندوستان کے مسلمان معاشرے میں عورت کو اس کا صحیح اور جائز مقام دیا جائے اس کے پس منظر میں بھی نئے ابھرتے ہوئے بوژروا طبقہ کی امنگیں تھیں جو جدید تعلیم کے بعد انگریزوں سے میل جول کے لئے ان کی عادات واطوار اور طور طریق اختیار کرنا چاہتا تھا کیونکہ انگریزی معاشرے میں عورت ومرد ساتھ ساتھ پارٹیوں میں شرکت کرتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے محرم وغیر محرم کی تفریق کے بغیر ملتے تھے۔ اس لئے مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ خواہش مند تھا کہ وہ ان خیالات کو بھی دور کرے کہ مسلمان معاشرے میں عورت کو غلام بناکر رکھا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اعلیٰ اونچے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں حقوق نسواں کی تحریک شروع ہوئی تاکہ عورت کو معاشرے میں برابر کا درجہ دیا جائے۔
شبلی اورامیر علی کے ذہنی او رفکری رجحانات میں بھی تبدیلی آئی۔ دونوں نے اسلامی تاریخ کی مدد سے اسلامی معاشرے کی مدافعت کرنے کی کوشش کی۔ شبلی کے ہاں ماضی کی شان وشوکت اور تاریخی شخصیتوں کے کارناموں کو ابھارنے کی کوشش ہے تو امیر علی کے ہاں مدافعانہ انداز کے بجائے جار حانہ انداز ملتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر عیسائیت کی تاریخ او ران کے مذہب پر حملے کرتے ہیں اور ان سے مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک تاریخی فکر ہو، لہٰذا ان کے ہاں سنی وشیعہ تاریخی نظریات کو ہم آہنگ کیا گیا ہے۔
اقبال کے ہاں مغرب کی مخالفت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ وہ ان مغربی مفکرین سے متاثر ہوکر، جو اپنی تہذیبی برائیوں سے پردہ اٹھارہے تھے، ان کے دلائل کے ذریعہ مغربی تہذیب پر حملہ آور ہوئے ۔انہوں نے جمہوریت ، مادیت، مغربی صنعت وحرفت کی ترقی وفنی وسائنسی ایجادات کی مذمت ملتی ہے۔ اس سے غلام او رپسماندہ مسلمان معاشرہ کو ذہنی خوشی ومسرت ضرور ہوئی لیکن یہ وقتی مسرت افیون ثابت ہوئی جس نے انہیں باعمل بنانے کے بجائے سلادیا کیونکہ ان کے اشعار میں یہ پیغام ہے کہ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کررہی ہے او رمشرق بیدار ہورہا ہے۔
قدیم وجدید روایات کے درمیان یہ تصادم ہمیں فرنگی محل، خیر آبادی اسکول ،دیو بند، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور غلام احمد پرویز کی تحریکوں میں ملتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ تصادم اور زیادہ شدید ہوگیا او رایسا محسوس ہوتا ہے کہ بنیاد پرست قوتیں زیادہ طاقتور ثابت ہورہی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ رجعت پرستی کا شکار ہورہا ہے۔
یہاں پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخری دو قوتوں کے اس تصادم میں رجعت پرست قوتیں کیوں غالب آرہی ہیں؟ اور اگر اس وقت ان کا غلبہ ہے تو کیا اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں روشن خیال طاقتیں فتح مند ہوں گی۔
جہاں تک تاریخی عمل کا تعلق ہے کس بھی معاشرے میں ترقی بغیر کسی رکاوٹ کے نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہوتا کہ معاشرہ بغیر مزاحمت کے آگے کی جانب بڑھتا چلا جائے، ترقی ہمیشہ تصادم کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ اس کو قدیم وجدید کشمکش کہا جائے یا خیر وشر اور نیکی وبدی کی جنگ کہا جائے، اس تصادم کی وجہ سے معاشرے کی ترقی خمدار او رپیچ درپیچ لائنوں کے درمیان سے گزر کرہوتی ہے۔ اس کی مثال یورپ کی تاریخ سے دی جاسکتی ہے جہاں تحریک نشاہ ثانیہ او رتحریک اصلاح مذہب کے جواب میں جیسوئٹ تحریک ابھری۔
صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں لبرل ازم اور سوشلزم کی تحریکیں اٹھیں۔ معاشرہ میں ایک عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور روایات اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر سے تعمیر ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر کسی مرحلہ پر رجعت پسند طاقتیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وقت کا دھارا ان کے ساتھ ہے یہ تاریخ کا ایک گزرتا ہوا لمحہ ہوتا ہے کیونکہ بہت جلد ان کو ترقی پسند طاقتوں کے آگے پسپا ہونا پڑتا ہے۔
پس ماندہ ممالک جن مسائل سے دو چار ہیں: ان میں غربت، مفلسی، جہالت او رعلم سے دوری اہم مسائل ہیں جو معاشرے کی اکثریت کو شعور وآگہی سے روکتے ہیں۔ اس لئے یہ حکمران طبقہ کے مفاد میں ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کو اس طرح کے سخت پتھر میں بدلنے کے لئے انہیں بیرونی دنیا اس کی ترقی اور اس کی رفتار سے بے خبر رکھا جائے تاکہ معاشرے میں وقت کی تیزی کو روکا جاسکے بیرونی رابطہ کے کٹ جانے سے وہ تنگ وتاریک خول میں بند ہوجاتے ہیں او رانہیں دنیا کی تبدیلی کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اگر ان تبدیلیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو اپنے نقطہ نظر سے۔
مثلاً مغرب کے بارے میں ہمارے ہاں صرف منفی باتیں زیادہ بتائی جاتی ہیں اور ان کی خوبیوں کے تذکرے بہت کم ہوتے ہیں۔ ذہن کو منجمد کرنے کے لئے نظام تعلیم کو اس طرح تشکیل دیا جاتا ہے کہ جس سے صرف اپنے معاشرے کی خوبیاں اجاگر ہوں تاکہ اپنا مقابلہ دوسرے معاشروں سے نہیں کریں اور اس پر فخر کریں کہ ان کی روایات واقدار دوسروں سے برتر واعلیٰ ہیں۔ پھر فرسودہ روایات کو برقرار رکھنے کے لئے اس پرزور دیا جاتا ہے کہ ان سے ہمارا تشخص قائم ہے او راگر انہیں توڑا گیا تو ہمارا تشخص بھی ختم ہوجائے گا ۔ان افکار وخیالات کے ذریعہ پامال نظام اور اس کی مردہ روایات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ معاشرہ کو ترقی کی رفتار سے دور رکھا جائے۔
لیکن تاریخ کی رفتار اس کا بہاؤ بڑاتیز ہوتا ہے اور اس طوفان کے آگے مضبوط اور طاقتور بند ٹوٹ جاتے ہیں ذہن ایک جگہ منجمد نہیں رہنا چاہتا بلکہ تبدیلی چاہتا ہے۔ ذہن کی یہی خواہش اور عزم معاشرے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ نئی اقدار تخلیق کرے او رپرانی زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھے۔
One Comment