وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعے کو سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آپریشن ضرب عضب پر قومی خزانے سے 190 بلین روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 45 بلین روپے پچھلے سال خرچ ہوئے تھے ،100 بلین اس سال مختص کیے گئے تھے اور مزید 45بلین اگلے سال مختص کیے جائیں گے۔ آپریشن ضرب عضب، شمالی وزیر ستان میں جون2014 کو شروع کیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے۔(ایکسپریس ٹریبیون ،13 ستمبر)۔
اسحاق ڈار نے سینٹ میں مزید بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک نے چھ بلین ڈالر کا وعدہ کیا تھا جبکہ حکومت کو صرف 350 ملین ڈالر موصول ہوئے ہیں اور باقی اخراجات ملکی وسائل سے پورے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کل بیرونی قرضے 65 بلین ڈالر ہیں جبکہ کل پبلک بیرونی قرضہ 18 ٹریلین ڈالر ہے۔انھوں نے بتایا کہ غیر ملکی قرضے معیشت کے لیے ناگزیر ہیں کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ملک کو میکرو اکنامک لحاظ سے غیر مستحکم قرار دیا ہے۔
ایک ایسے ملک کے لیے یہ انتہا ئی افسوسناک امر ہے جس کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہو اور قومی وسائل فوجی مہم جوئیوں کی نذر ہو رہے ہوں ۔ صحت، تعلیم جیسے شعبے تباہی سے دوچار ہیں ۔ملک توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔بچے کھچے وسائل چند بڑے شہروں میں ترقیاتی کاموں تک محدود ہیں۔ پاک فوج نے اپنی مہم جوئیوں کے لیے پچھلی تین دہائیوں سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے ملک و قوم کو اس سے فائدے کی بجائے مسلسل نقصان ہور ہا ہے۔ سماجی اور سیاسی ادارے مذہبی انتہا پسندی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب پر قومی وسائل سے 190 بلین روپے لگ رہے ہیں اور یہ رقم دفاعی بجٹ کے علاوہ ہے۔ اس آپریشن کو شروع ہوئے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے مگر اس کی کارگردگی کیا ہے وہ کسی کو معلوم نہیں ۔ الٹا پاک فوج نے اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے ایک بار پھر سویلین حکومت پر تنقید شروع کردی ہے۔
حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں نواز حکومت کی کارگردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جاری آپریشن کے نتائج حاصل کرنے اور ملک میں قیام امن کے ضروری ہے کہ حکومت انتظامی امور کو بہتر کرے‘‘۔جس کا جواب دیتے ہوئے حکومتی ترجمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد حکومتی اور فوجی اداروں کی مشترکہ ذمہ دار ی ہے ۔
امن و امان میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی ہے اوریہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تمام کالعدم تنظیمیں اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور سویلین ادارے ان کے خلاف کاروائی اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ ایسٹبلشمنٹ کے سٹریٹجک اثاثے ہیں۔ان حالات میں سویلین حکومت پر الزام تراشی اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ملک کے سماجی و سیاسی حلقوں نے آئی ایس پی آر کے بیان پر سخت ردعمل ظاہرکیا گیا۔
ڈیلی ڈان نے( 12 نومبر) اپنے اداریے میں آئی ایس پی آر کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چند دن پہلے وزیر اعظم نواز شریف کی زیر قیادت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا تھا جس میں آرمی چیف بھی شریک تھے لیکن اس وقت انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اداریے میں آپریشن ضرب عضب پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ فوجی کمانڈرحکومت کی کارگردگی پرتنقید تو کر رہے ہیں مگر ان کی اپنی کارگردگی کیا ہے؟ جوآپریشن زور و شورسے شروع کیا گیا تھا اور اس کی کامیابی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں اس کو آزاد ذرائع سے کیسے چیک کیا جائے؟
اداریے کے مطابق شمالی وزیر ستان میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور اپنا علاقہ عسکریت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کا دعویٰ کیا گیا ہے لیکن وہ کیا طریقہ کار ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ آپریشن شروع کرتے وقت جو دعوے کیے گئے تھے ان پر کتنی کامیابی ہوئی ہے؟ اس کے علاوہ آئی ڈی پیز کی بحالی ابھی ہونی ہے اور یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ کب اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ اداریے میں کہا گیا کہ حالت تو یہ ہے کہ 2009 میں جنوبی وزیر ستان میں جو آپریشن کیا گیا تھا اس سے متاثرہ افراد کی بحالی کا کام ابھی تک ادھورا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی آئی ایس پی آر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹر اعتزاز احسن نے اگلے روز سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’ گو میں نوازحکومت کی کارگردگی سے مطمئن نہیں ہوں لیکن آئی ایس پی آر یافوجی کمانڈروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ حکومت کی کارگردگی پر عوامی بیانات جاری کریں۔ اگر انہیں کچھ تحفظات ہیں تو وہ حکومت سے بات کریں‘‘۔
پیپلزپارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور سینٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ حکومت کی کارگردگی اچھی نہیں ہے لیکن فوج کی اپنی کارگردگی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ترجمان ہر روز بتاتے ہیں کہ تیراہ وادی اور قبائلی علاقے میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے براہ مہربانی مرنے والوں میں سے کسی دو کے نام ہی بتادیں‘‘۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی چئیر پرسن اور سپریم کورٹ بار کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ’’ پچھلے کئی سالوں کا گند صاف کرنا سویلین حکومت کی ذمہ دار ی نہیں۔ یہ گند فوج نے ڈالا ہے تو اسے صاف بھی کرنا چاہیے۔فوج نے اپنی مہم جوئیوں کے لیے جن قوتوں کی پرورش کی اور انہیں اپنااثاثہ قرار دیا تھا اب اس سے اسے خود ہی جان چھڑانا ہو گی۔سویلین حکومت کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘‘۔
یہ درست ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں میں یقیناًکمی ہوئی ہے لیکن آپریشن کے باوجوداس کی تمام قیادت محفوظ مقام پر ہے ۔ حقانی نیٹ ورک بدستور افغانستان میں دہشت گردحملوں میں ملوث ہے۔ گو ہمارا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان پر کوئی کنٹرول نہیں لیکن پاکستانی علماء نے بڑی محنت و جانفشانی سے ان طالبان کو مُلا منصور اختر کی ’’امارت‘‘ پر راضی کیا ہے۔جماعت الدعوہ( لشکر طیبہ ) اور لشکر جھنگوی اندورن ملک اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز ایک بار پھر ملک میں شریعت نافذ کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں۔
ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر سویلین اداروں کا کوئی کنٹرول نہیں۔ سیکیورٹی سے متعلقہ تمام فیصلے فوجی ایسٹیبشلمنٹ کرتی ہے جو مذہبی عسکریت پسندوں کو اپنا اثاثہ قرار دیتی ہے۔امن و امان قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت سے دوستانہ تعلقات ہوں ۔اگر سویلین حکومت ہمسایہ ممالک سے باہمی تجارت کے معاہدے کرتی ہے تو ان کو سیکیورٹی کلئیرنس ہی نہیں دی جاتی۔
جرنیلوں کو اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے جمہور ی حکومتوں کو مورود الزام ٹھہرانے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا۔