بنگلہ دیش میں گرفتار شدہ سات ’جنگجوؤں‘ میں چار پاکستانی بھی

Activists of Islami Andolan Bangladesh shout slogans as they take part in a grand rally in Dhaka in this March 29, 2013 file photo. Islami Andolan Bangladesh organised the grand rally to demand the introduction of a blasphemy law and the restoration of a caretaker government system to conduct the upcoming general elections, among the other issues, local media reported. A radical pro-Islam movement has emerged in Bangladesh to counter students they deem as "atheist bloggers", who are demanding the death penalty for Islamist leaders accused of wartime atrocities. Known as Hefajat-e-Islam, it has given the government until May 5 to introduce a new blasphemy law, reinstate pledges to Allah in the constitution, ban women from mixing freely with men and make Islamic education mandatory - an agenda critics say would amount to the 'Talibanisation' of Bangladesh. The clash of ideologies could plunge Bangladesh into a cycle of violence as the two main political parties, locked in decades of mutual distrust, exploit the tension between secularists and Islamists ahead of elections that are due by next January. To match Feature BANGLADESH-POLITICS/  REUTERS/Andrew Biraj/Files (BANGLADESH - Tags: POLITICS CIVIL UNREST RELIGION)

بنگلہ دیشی پولیس نے تشدد آمیز جرائم کی منصوبہ بندی کے الزامات کے تحت سات مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں چار پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدگان کا تعلق کالعدم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ سے بتایا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ گزشتہ روز گرفتار کیے جانے والے ان مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔

ڈھاکہ پولیس کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق، ’’ابتدائی تفتیشی عمل کے بعد ان ملزمان نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ بنگلہ دیش میں کالعدم شدت پسند تنظیم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کو فعال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ لوگ تشدد آمیز جرائم کی غرض سے اکٹھے ہوئے تھے۔‘‘ اس بیان میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ ملزمان حکومت کے خلاف بھی سازش میں مصروف تھے۔

ایک سو ساٹھ ملین آبادی والے قدامت پسند ملک بنگلہ دیش میں ٹارگٹ کلنگ اور اسلام پسندوں کی طرف سے حالیہ تشدد میں اضافے کے بعد پولیس انتہائی فعال ہو چکی ہے۔ یہ تازہ گرفتاریاں بھی اس حکومتی آپریشن کا حصہ ہیں، جس کے تحت انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں سر انجام دی جا رہی ہیں۔

ڈھاکہ پولیس کے ترجمان منتصر الاسلام نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ چار پاکستانی شہری بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں پہلی مرتبہ ایسے پاکستانیوں کو کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے پر حراست میں لیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدگان سے پاکستانی کرنسی اور ’جہادی کتابیں‘ بھی ضبط کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ایسی بھی ہے ، جس میں پیغبر اسلام کی توہین کرنے والے کے لیے سزائیں بھی بیان کی گئی ہیں۔

بنگلا دیشی حکومت ملک میں حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے لیے ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کو ہی قصوروار قرار دیتی ہے۔ یہ گروہ نوّے کی دہائی میں بنگلہ دیشی جہادیوں نے بنایا تھا۔ ان میں ایسے جنگجو بھی شامل تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

حالیہ ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش میں کئی پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری انتہا پسند گروہ ’داعش‘ نے بھی قبول کی ہے۔ تاہم ڈھاکا حکومت ایسے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس جنوب ایشیائی ملک میں انتہا پسند تنظیم داعش فعال نہیں ہے۔

DW

Comments are closed.