بنگلہ دیشی پولیس نے تشدد آمیز جرائم کی منصوبہ بندی کے الزامات کے تحت سات مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں چار پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدگان کا تعلق کالعدم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ سے بتایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ گزشتہ روز گرفتار کیے جانے والے ان مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
ڈھاکہ پولیس کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق، ’’ابتدائی تفتیشی عمل کے بعد ان ملزمان نے اعتراف کر لیا ہے کہ یہ بنگلہ دیش میں کالعدم شدت پسند تنظیم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کو فعال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ لوگ تشدد آمیز جرائم کی غرض سے اکٹھے ہوئے تھے۔‘‘ اس بیان میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ ملزمان حکومت کے خلاف بھی سازش میں مصروف تھے۔
ایک سو ساٹھ ملین آبادی والے قدامت پسند ملک بنگلہ دیش میں ٹارگٹ کلنگ اور اسلام پسندوں کی طرف سے حالیہ تشدد میں اضافے کے بعد پولیس انتہائی فعال ہو چکی ہے۔ یہ تازہ گرفتاریاں بھی اس حکومتی آپریشن کا حصہ ہیں، جس کے تحت انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں سر انجام دی جا رہی ہیں۔
ڈھاکہ پولیس کے ترجمان منتصر الاسلام نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ چار پاکستانی شہری بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش میں پہلی مرتبہ ایسے پاکستانیوں کو کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے پر حراست میں لیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدگان سے پاکستانی کرنسی اور ’جہادی کتابیں‘ بھی ضبط کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ایسی بھی ہے ، جس میں پیغبر اسلام کی توہین کرنے والے کے لیے سزائیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
بنگلا دیشی حکومت ملک میں حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے لیے ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کو ہی قصوروار قرار دیتی ہے۔ یہ گروہ نوّے کی دہائی میں بنگلہ دیشی جہادیوں نے بنایا تھا۔ ان میں ایسے جنگجو بھی شامل تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔
حالیہ ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش میں کئی پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری انتہا پسند گروہ ’داعش‘ نے بھی قبول کی ہے۔ تاہم ڈھاکا حکومت ایسے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس جنوب ایشیائی ملک میں انتہا پسند تنظیم داعش فعال نہیں ہے۔
DW