پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں واقع ایک فیکٹری میں کام کرنے والے ایک ملازم پر ’توہین مذہب‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے اس فیکٹری کو نذر آتش کر دیا گیا۔ تشدد کا یہ واقعہ جمعہ بیس نومبر کی رات پیش آیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتہ اکیس نومبر کو پولیس کے حوالے سے بتایا کہ جمعے کی رات سینکڑوں افراد نے جہلم میں واقع ایک چِپ بورڈ فیکٹری کا محاصرہ کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔ قبل ازیں ایسی افواہیں عام ہو گئی تھیں کہ اس فیکٹری میں کام کرنے والے ایک ملازم نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کر دیا تھا۔
جہلم پولیس کے اعلیٰ اہلکار عدنان ملک نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا، جب شکایت پر ہم نے اس فیکٹری کے سکیورٹی سربراہ قمر احمد طاہر کو حراست میں لے لیا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے قرآن کو نذر آتش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔‘‘
پولیس نے بتایا کہ اس فیکٹری کے ایک ملازم نے دیکھا کہ طاہر مبینہ طور پر قرآن کو نذر آتش کیے جانے کی نگرانی کر رہا تھا، جس پر اس ملازم نے طاہر کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ اسی ملازم نے بعد ازاں پولیس کو شکایت بھی درج کرائی۔
پولیس افسر عدنان ملک نے کہا، ’’ہم نے طاہر کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں شکایت درج کر لی ہے، جو عقیدے کے اعتبار سے ایک احمدی ہے۔ ہم نے اسے گرفتار کر لیا ہے اور جلا ہوا مواد بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ اس مواد میں قرآن کے مسخ شدہ صفحات بھی شامل ہیں۔‘‘
خبر رساں اداروں کے مطابق طاہر کی گرفتاری کے بعد جب ’توہین مذہب‘ کی خبر عام ہوئی تو علاقے کے رہنے والوں نے اس فیکٹری کا محاصرہ کر لیا۔ اسی دوران مشتعل ہجوم نے اس فیکٹری کو آگ بھی لگا دی۔
، ڈان نیوز کے مطابق مقامی انتظامیہ کی طرف سے حالات نہ کنٹرول ہونے کے باعث فوج کو طلب کر لیا گیا۔ مظاہرین نے پاک فوج زندہ باد کے نعر ےلگائے۔ لیفٹینٹ کرنل خرم نواز سے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
جہلم میں احمدی کمیونٹی کے ترجمان سلیم الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، ’’پولیس ہماری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر چکی ہے۔ ان پر قرآن کی جلدیں نذر آتش کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستانی حکومت نے 1974ء میں احمدیوں کی غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی دیگر اقلیتوں کی طرح احمدیوں کو بھی امتیازی سلوک کے علاوہ پرتشدد حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں ’توہین مذہب‘ یا ’توہین رسالت‘ کا معاملہ بھی انتہائی حساس قرار دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ مغربی ممالک کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں رائج ان قوانین میں اصلاحات ناگزیر ہیں کیونکہ موجودہ شکل میں ان کا غلط استعمال عین ممکن ہے۔
DW