حمید اختر
فیضؔ کے متعلق گفتگو کے دوران ایک دفعہ ایک نامور مغنیہ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں فیضؔ پر مرتی ہوں۔ لیکن یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ وہ میرے کیا لگتے ہیں، میں انہیں اپنا معشوق سمجھوں یا عاشق، باپ تصور کروں یا بیٹا یا شوہر۔ یہ فیصلہ کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ بہرحال میں ان کو اتنا چاہتی ہوں اتنا چاہتی ہوں کہ تم اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔‘‘
فیضؔ کی شخصیت (بلکہ محبوبیت) پر اس سے بہتر تبصرہ شاید ممکن نہیں ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرنا میراکام نہیں ہے مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ فیض کی زندگی اور شخصیت پیار اور محبت کی ہر معصوم شکل کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ایک مرحوم دوست نے جن کا تقاضا ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں ہرشام فیضؔ کوگھیر کر ان کے گھر لے جاؤں۔ ایک دفعہ بھری مجلس میں یہ اعلان کرکے پوری محفل کو حیرت میں ڈال دیا کہ فیضؔ کاکلام ان کی سمجھ میں نہیں آتا مگر وہ فیضؔ کے عاشق ہیں۔
یہ دوست زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ مگر یاروں کے یار تھے۔ فیض کو مرحوم کی یہی ادا پسند تھی، یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ بیگم فیضؔ نے ان کے گھر جانے سے محض اس لئے انکار کیا کہ ان کی نظر میںیہ دوست بڑے بورتھے تو فیض تلملا اٹھے۔ یہاں بوروں کے بارے میں موصوف کے اس مقدمے کا ذکر بھی بے جانہ ہوگا کہ’’کوئی بورہر گز قابل برداشت نہیں ہے‘‘۔ ماسوا! اس بورکے جو آپ کا دوست ہے۔
دوستی محبت اورخلوص کا یہی چشمہ اگرنا مورفنکاروں، دانشوروں اور ان پڑھ لوگوں تک کی محبت کا مرکز ہے تو اس کی وجہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ فیضؔ کے دوستوں میں اہل علم، کم علم بلکہ بے علم لوگ بھی بڑی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ وہ محکمے بھی جن کاکام ایسے لوگوں کی نگرانی کرتا ہے۔ دوستوں اور ہمدردوں سے بھرے پڑے ہیں، ان کے دوستوں میں فلم آرٹسٹ گانے والے، ادیب ، شاعر، طلباء سرکاری محکموں کے ملازم، فوج اور پولیس بلکہ خفیہ پولیس کے افسروں غرض کہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔
کبھی کبھی تویوں لگتاہے جیسے لوگوں نے فیض کو پڑھاکم ہے ان سے محبت زیادہ کی ہے۔ وہ بڑے شاعر ہیں ۔ انہوں نے شعراء کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے اور جدید شاعری کو ایک نیا اسلوب دیا ہے لیکن بحیثیت انسان کے وہ اس شاعر سے بھی بڑے ہیں۔ جس میں سے لوگ صرف اس کے کلام کے واسطے سے ملتے ہیں۔ وہ اگر شعر نہ کہتے تب بھی اتنے ہی بڑے آدمی ہوتے دوستوں کی کمزوریوں کو نظر انداز کرنے میں ان کا ثانی مشکل ہی سے ملے گا۔
لوگوں کو دھوکہ دینے والے پیشہ وروں کے لئے صلائے عام ہے کہ وہ فیض کے پاس پہنچیں کیونکہ وہ ان کو پہچان کر بھی دھوکہ کھاجائیں گے اور بعد میں معاف کردیں گے۔ لیکن اگر آپ ان کے پاس تمتماتا ہوا چہرہ اور کھولتا ہوا خون لے کر جائیں گے اور کسی بدطینت اور ذلیل دشمن کے کردہ کارناموں کا ذکر کرنے کے بعد ہمدردی کے طالب ہوں گے تو آپ کو مایوسی ہوگی کیونکہ آپ کی المناک داستان سن کر سب سے پہلے تو وہ سگریٹ کا ایک لمباکش لگائیں گے پھر ایک لمبی سی ہوں کی آواز آئے گی اور اگر آپ اس کے بعد بھی اس بارے میں ان کی رائے معلوم کرنے پر مصر ہوں گے تو آپ کو’’چلو چھوڑو‘‘ کے سوا کچھ سننے کو نہیں ملے گا۔
یہ بات نہیں ہے کہ فیض کو غصہ نہیں آتا۔ غصہ ان کو بھی دوسرے خاکی انسانوں کی طرح آتا ہے مگر غصہ ضبط کرنے میں انہیں جو کمال حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کی قسمت ہے، ہم نے بڑے بڑے بدباطنوں کی خباثتوں کا مظاہرہ بھی دیکھا ہے۔ جنہوں نے فیض پر کیچڑا اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر آخر میں منہ کی کھاگئے۔تین برس پہلے جب ان پردل کی بیماری کا حملہ ہوا تو اکثر دوستوں کا خیال تھا کہ یہ عارضہ اس غیر معمولی ضبط وتحمل کا نتیجہ ہے۔ ہوسکتا ہے۔
یہ اندازہ صحیح ہو لیکن حساس آدمی کیلئے اپنے بارے میں غلط الزام سن کر خاموش رہنا بھی بڑا مشکل کام ہے اور فیض یہ کام بڑی مدت سے کررہے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سے بڑے محب وطن دانشور اور محبوب ترین افراد بھی مفاد پر ستوں غرض مندوں اور کرائے کے ٹٹوؤں کے حملوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا، ان کے مخالفوں میں طرح طرح کے لوگ شامل ہیں۔
مثلاً حال ہی میں ایک مشہور صحافی نے جو ابتداً ایک روزنامے کے مالک تھے۔ بعد ازاں ایک اخبار کے مدیر اعلیٰ ہوئے اور ان دنوں مختلف اخبارات میں ہفتہ وار کالم لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس بات پر سخت غم وغصہ کا اظہار کیا تھا کہ فیض کولندن اور ماسکو سے واپس آئے ہوئے کئی مہینے ہوگئے ہیں۔ لیکن ان کے اعزاز میں ہونے والی دعوتوں کا سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آتا۔ انہوں نے اس بات پر سخت تشویش ظاہر کی تھی کہ فیض کے اعزاز میں ایسی دعوتیں بھی ہورہی ہیں۔ جن میں کوئی نہ کوئی مغنیہ گا کر ان کاکلام سناتی ہے۔
ایسے بیمار لوگ ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں مگر ہر معاشرہ ایسے لوگوں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ شرفاء کی پگڑیاں ا چھالتے رہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سرکاردربار میں رسوخ حاصل کرنے کیلئے بھی لوگ فیض جیسوں کو تختہ مشق بنانا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ لوگ اس ضمن میں فیض سے مشورہ حاصل کریں اور ان سے صاف کہہ دیں کہ آپ کی ذات پر حملہ کرنے سے ہمیں ذاتی طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے تو فیض انہیں خود اپنے خلاف نظمیں اور مضامین لکھ کر دیا کریں لیکن جب یہ لوگ بے خبری میں حملہ کرتے ہیں تو اس کا دکھ فیضؔ کو بھی ہوتا ہے۔ اس کا اظہار وہ بھلے ہی نہ کریں۔
دوستوں اور چاہنے والوں کی حدتک فیضؔ بڑے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ان کے دشمنوں کی صفیں بھی چاہنے والوں سے بھری پڑی ہیں۔ اس کی ایک وجہ دوستی کے تصورات کے سلسلے میں ان کی روایت پرستی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کیلئے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ چند برس پہلے ان کے ایک پرانے دوست بے روزگار ہوئے تو فیض ان کیلئے کام مہیاکرنے کی فکر میں مدتوں غلطاں وپہچان رہے۔ آخر میں جوکام ان کی کوششوں سے ملاوہ مشکل تھا چنانچہ ان کے بعض قریبی دوستوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ کام آپ کے دوست کے بس کا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے فرائض بخوبی انجام نہ دے سکے تو آپ کی پوزیشن خراب ہوگی۔
فیضؔ نے حسب معمول سگریٹ کا ایک لمباکش لگایا اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا۔’’کوئی بات نہیں ہے بے چارے کو روٹی تو ملنے لگے گی۔ بعد میں دیکھ لیں گے کیا ہوتا ہے۔‘‘
کسی وجہ سے یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ توفیض نے دو تین مہینے کی باقاعدہ جدوجہد کے بعد ان کیلئے ایک نیا ادارہ قائم کرایا اور یہ دوست کئی برس تک اس باتنخواہ ادارے کے ساتھ منسلک رہے۔ اس ڈرامے کا ڈراپ سین بڑا دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ یہ بزرگ پہلی آزمائش ہی میں لڑھک گئے اور فیض کے دشمنوں کی طرف سے شروع کی جانے والی ایک مہم میں باقاعدہ شامل ہوگئے۔ اس وجہ سے فیض کے اکثر دوست ان سے ناراض ہیں۔ مگر حضرت فیض کے آج بھی ان سے ویسے ہی مراسم ہیں اس لئے کہ انہوں نے’’چلو چھوڑو کوئی بات نہیں‘‘ کہہ کر انہیں معاف کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی جب یہ دوست فیض کی مدد طلب کریں گے انہیں مایوسی نہ ہوگی۔
انسان اتنی کمزور مخلوق ہے اور حالات نے اسے اس حدتک بے بس کررکھا ہے کہ اسے معاف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے لیکن معاف کرنے والا بھی انسان ہی ہواور اسے اپنے آپ پر اتنا قابو ہوتو اس کے حوصلے کی داد دیناہی پڑتی ہے۔ فیض تو ایک اتھاہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ان کے پاس بیٹھ کر مجھے ہمیشہ سمندر کے قرب کا احساس ہوتا ہے۔ بے پایاں وسعت اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سمندر متلاطم اور مواج سمندر نہیں ہے۔ اس کی سطح پر سکون اور ٹھہراؤ اور روشنی اور زندگی کے نموکے نشان ملتے ہیں۔ اس ناپیدا کنارہ سمندر کی گہرائی میں کون سے اسرار پوشیدہ ہیں۔ اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایسا شخص جسے درد سہنے اور اس کا بوجھ اٹھانے کا اس حدتک ملکہ حاصل ہے کہ اس کی پوری شاعری اس کے آہنگ میں ڈوبی ہوئی ہے بظاہر اس قدر پر سکون اور مطمئن نظر آتا ہے۔ فیض کو کسی سے جھگڑتے، کسی پر ناراض ہوتے یا کسی کی مخالفت کرتے بہت کم لوگوں نے دیکھا ہوگا، اصل میں وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی مطمئن ومسرورنظر آئے جس کوشش میں وہ اکثر اپنا سکون بھی برباد کرلیتے ہیں۔
لندن سے واپس آتے ہوئے انہیں بمشکل چارچھ ماہ ہوئے ہیں۔ مگر ان کے شناسااور شناساؤں کے جاننے اور ان سے واقفیت رکھنے والے اکثر اصحاب جن میں ہر قسم اور ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں ان کے پاس روزگار اور کام حاصل کرنے کیلئے پہنچ رہے ہیں اور فیض کے دوستوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کیسے کیسے لوگ اس عرصے میں ان کی سفارشی چھٹیاں لے کر پہنچے ہیں۔ بے روزگاری ہمارے ہاں اس حدتک عام ہے کہ تمام ترنیک خواہشات کے باوجود ان کیلئے کام مہیا کریں۔ مگر فیضؔ ساری دنیا کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو اداس ہوجاتے ہیں
ایلس(بیگم) فیض اگردواور دو چار کی طرح سوچنے کی عادی نہ ہوتیں یا پنی صلح کل طبیعت کی وجہ سے وہ بیگم کی ہر بات مان لینے کی عاد ت نہ ڈال لیتے تو ان کے گھر میں دنیا بھرکے بیکار بے روزگار اور رنگارنگ قسم کے بے فکر لوگ جمع ہوتے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ جب دوروحوں کا ملاپ ہوتا ہے تو قدرت ایک دوسرے کی کمی پوری کرکے جوڑوں میں توازن پیدا کرنے کا خود اہتمام کردیتی ہے۔ میاں اگر بے فکرا یا فضول خرچ ہے تو بیوی جزرس ہوگی۔ ایک کی ناعاقبت اندیشی دوسرے کی دورس نگاہوں کی وجہ سے اپنا اثر کھوکر بیٹھے گی۔ فیض اور بیگم فیض کی حدتک یہ مقدمہ معجزانہ طور پر صحیح معلوم ہوتا ہے۔ فیض کی بیگم اگر ایلس کی بجائے کوئی اور خاتون ہوتیں تو معلوم نہیں موصوف کا کیا حشر ہوتا۔
جو لوگ عام زندگی میں فیض سے ملتے ہیں یاا نہیں اٹھتا بیٹھتا دیکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ فیضؔ اعلیٰ درجے کے منتظم بھی ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ انتظامی امور کے متعلق ان کا اندازہ دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنے ماتحتوں یا ساتھ کام کرنے والوں پر حکم چلانے کے بجائے پیار، محبت اور شفقت سے دگنا کام لیتے ہیں۔ یوں تو ہمارے ہاں عام طور پر شاعروں کو یونہی ناکارہ اور کسی ذمہ داری کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ فیضؔ تو عام زندگی میں ظاہراً سست اور کاہل نظر آتے ہیں اور بات کرنے میں بھی حتی الوسع بخل سے کام لیتے ہیں۔
جس آدمی نے کبھی اپنے ہاتھ سے اپنے ناخن تک نہ کاٹے ہوں اس کے بارے میں تنظیمی صلاحیت کے فقدان کا فیصلہ کرلینا غلط نہ ہوگا۔ جس زمانے میں وہ جیل میں تھے یا جب وہ بیرون ملک گئے ہوئے تھے ان کی چھوٹی لڑکی منیزہ کو یہی پریشانی رہی کہ وہاں ان کے ناخن کون کاٹتا ہوگا۔ جیل میں تو خیر مشقتی مل جاتے ہیں مگر جب وہ سوویت روس میں تھے تو بچی کی پریشانی انتہا پر تھی۔ معلوم نہیں ان کے ساتھ وہاں پر کیا گزری ۔ بہرحال جب وہ واپس آئے توان کے ناخن کٹے ہوئے تھے۔
اس کے باوجود ان کی تنظیمی صلاحیت کا اندازہ آرٹ کونسل لاہور کی حالت سے کیا جاسکتا ہے جن لوگوں نے اس ادارے کی زبوں حالی کا مشاہدہ فیض کے چارج لینے سے پہلے کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس عمارت پر اصطبل کاگمان ہوتا تھا۔ نیشنل آرٹس گیلری کی تصویروں پر مٹی کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی عمارت کے احاطے میں کتے لوٹتے تھے۔ تہذیبی سرگرمیوں کا نام ونشان تک نہ تھا۔ لیکن فیض کے آتے ہی یہ عمارت لاہور میں تہذیبی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بن گئی۔ دوسال کی مدت میں فیضؔ نے اس کی بنیادوں کو اتنا مضبوط بنادیا کہ اب اس کے زوال کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
زندگی کے متعلق فیض کا نظریہ انتہائی صحت مندانہ ہے مگر دیکھنے والوں کووہ ہمیشہ بڑے ’’گلومی‘‘ نظر آتے ہیں۔ جب تک دنیا سے دکھوں ، غموں ، نفرتوں اور کدروتوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا وہ کڑھتے ضرور رہیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ دکھ اور غم اور منافقت کے خاتمے کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے آپ نے اور ہمارے جیسے لاکھوں کروڑوں دوسرے انسانوں نے ان حقیقتوں کو قبول کرلیا ہے مگر فیض اندرہی اندرسلگتے ہیں۔
دیکھنے میں وہ انتہائی’’ڈل‘‘ بلکہ نئے ملنے والوں کو’’بور‘‘ نظر آتے ہیں۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے وہ اکثر مجلس سے باہر نظر آئیں گے۔ مگر شام کو محفل برپاکرنے کی انہیں ہمیشہ خواہش رہتی ہے۔ دوستوں سے مل بیٹھنے اور ہاؤ ہوکرنے کیلئے وہ شام کو ہرکام چھوڑنے پر تیار ہوں گے۔ جس زمانے میں وہ پاکستان ٹائمز لاہور کے مدیر تھے۔ اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کرلکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب توہمیشہ صبح کو ہوجاتا تھا لیکن پریس والوں کو رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔
پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخر وقت تک ٹالتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسدود ہوجاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں ہے۔ اصل میں وہ دن بھراپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران میں غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے۔ دن بھریاشام کو ملنے والے اور محفل میں ان کے ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کردیتے حقیقتاً وہ آخر وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔
مجلسی زندگی کی محبت اور لگن فیض کو لاہور اور امرتسر کے دوستوں کی صحبتوں سے ملی ہے ۔زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے انہیں دوشہروں میں گزاراہے۔ چنانچہ ان کی روایات ان کے خون میں رچی بسی ہیں میں نے چھ برس پہلے یہ پیشگوئی کی تھی کہ فیضؔ وطن سے باہر نہیں رہ سکتے، ان کے قریبی دوست جانتے ہیں کہ گذشتہ دو تین برس میں لوگوں نے کس طرح انہیں ملک سے باہر رکھنے کی کوشش کی۔ ملک سے باہر انہیں کتنی بڑی بڑی پیش کشیں ہوئی۔ کام اور دولت اور اطمینان و آسودگی غرضیکہ پاکستان سے باہر رہ کر انہیں زندگی کی ہرآسائش میسر ہوسکتی تھی،
ان کے دوستوں نے ہمدردی میں اور دشمنوں نے اپنی مخصوص اغراض کے تحت ان کو وطن نہ آنے سے بازرکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن جس شخص کی روح میں، وطن کی مٹی کی باس رچی ہو اور جسے اس کے پھولوں، بہاروں، نگاروں اور اس کے پتہ پتہ سے والہانہ عشق ہو، وہ وطن کی محفلوں، ہواؤں، دریاؤں چشموں اور سب سے بڑھ کر لوگوں سے کیسے دوررہ سکتا ہے۔
فیض کے خمیر میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا ہے اس لئے وہ ملک سے باہر کبھی نہیں رہ سکتے۔ وہ لندن اور ماسکو اور کیوبا اور الجزائر میں گھومتے ہوئے بھی، اپنے وطن اپنے شہر اور اپنے دوستوں کو فراموش نہیں کرسکے ملک سے ڈیڑھ دو برس کی غیر حاضری کے دوران انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہجرکے یہ دن رات انہوں نے کیسے کاٹے ہیں اور غریب الوطنی کے احساس نے انہیں کیاکیا چرکے لگائے ہیں۔
عوام دوستی، شاعرانہ صلاحیت اور تنظیمی استعداد کے باوجود فیض نے بڑا شاہانہ مزاج پایا ہے۔ یہ چیزانہیں ورثے میں ملی ہے۔ ان کے والدین کے پاس بہت اراضی تھی لیکن وہ بھی کنبے کو، دوستوں کو اور ملنے والوں کو عمر بھر پالتے رہے، کسی کو ولایت بھیج رہے ہیں۔ کسی کو تعلیم دلارہے ہیں۔ کسی کی شادی کرانے میں لگے ہیں۔ لہٰذا والد کی وفات کے بعد خاندانی ملکیت کا خاصا بڑا حصہ بیچ کر قرضہ اتارا گیا، فیضؔ کو اپنی وراثتی جاگیرسے عملاً شاہانہ مزاج کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس کے باوجود ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں ان کو بڑی مسرت ملتی ہے۔
حتیٰ کہ اگر آپ کے دوست جس لڑکی سے عشق کررہے ہیں اس کے والدین شادی کیلئے رضامند نہیں ہوتے تو فیض رشتہ طے کرانے کی خاطر خود ساتھ چلنے کی پیش کش کردیں گے۔ ایسے دوستوں کو ملامت بھی کریں گے جو ناکام عاشقوں کے زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ غالباً وہ ان کے دکھ درد کو ذاتی طور پر محسوس کرتے ہیں اور اس کرب میں خود کو مبتلا پاتے ہیں۔ جو قبیلہ عاشقاں کیلئے مخصوص ہے ان سے اگر کچھ نہیں بن پڑتا تو نامراد عاشقوں کو’’بک اپ‘‘ کرنے اور دوبارہ قسمت آزمائی کرنے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔ انکے شاہانہ مزاج کا ایک دلچسپ قصہ اور سن لیجئے۔
بی اے کرنے کے بعد جب انہیں ایم اے میں داخلے کیلئے گھر سے پیسے ملے تو لاہور پہنچ کر انہوں نے کل رقم جشن مے نوشی اور’’ہاؤ ہو‘‘ کی نذرکردی جو کچھ بچا وہ کالج پہنچ کر پتہ چلا کہ بہت کم ہے اور داخلے کیلئے مزید دوسوروپے درکار ہیں۔ ان کے پاس صرف سوروپے تھے۔ معلوم ہوا کہ عربی ایم اے کلاس میں داخلے کی فیس سوروپے ہے۔ چنانچہ انہوں نے سوروپے جمع کرکے انگریزی کی بجائے عربی ایم اے میں داخلہ لے لیا اور دوسال پورے کئے اس کے بعد پھر انگریزی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
فیضؔ کوکوئی کام نہ ہو اور انہیں گھر ہی پر رہنا ہوتو وہ بڑے ٹھاٹھ سے دن گزاریں گے۔ مثلاً دیر تک بستر میں بیٹھ کر چائے پیتے رہیں گے، اخبار پڑھتے رہیں گے اور مطالعہ کرتے رہیں گے ۔ فرصت میں یہی ان کے محبوب مشغلے ہیں۔ نہانے سے موصوف حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ بیگم کے اصرار پر بادل ناخواستہ غسلخانہ کا رخ کرتے ہوئے بھی یہ ضرور پوچھیں گے کہ نہانا ضروری ہے۔
البتہ شام کو وہ اکیلے نہیں بیٹھ سکتے جب روزوشب ملتے ہیں اور شفق کی سرخی آسمان پر چھا جاتی ہے اور رات تاریکی کا بیکراں دبیز پردہ لے کرلپکتی ہے تو وہ اس کی تاریکی اور سناٹے اور خاموشی اور ویرانی سے بچ نکلنے کے لئے زندگی کے دکھوں کو بھولنے کی خاطر اور پرانے زخموں کو ڈھانپنے کیلئے زندوں کی محفل کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ایسی محفل جہاں ان کے جیسے لوگ ہوں جہاں حسن کی عشق کی محبت اور مسرت کی باتیں ہوں اور جہاں بیٹھے بیٹھے رات کی گرانباری کے ختم ہونے اور صبح کے سجیلے قدموں کے پہنچنے کا احساس تیز تر ہوسکے۔
One Comment