خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جنوبی افغانستان میں طالبان کے دو متحارب گروپوں کے مابین شدید لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق مُلااختر منصور کی جانب سے امارت سنبھالنے کے بعد طالبان کے متحارب گروپوں کے مابین یہ پہلی لڑائی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مُلا اختر منصور کے حامیوں اور منصور داد اللہ کے وفادار جنگجوؤں کے مابین یہ لڑائی جنوبی زابل صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری ہے۔
منصور داد اللہ کا تعلق طالبان سے حال ہی میں الگ ہونے والےمُلا محمد رسول کے گروپ سے ہے۔ مُلا رسول افغانستان پر طالبان کے دورِ میں صوبہ نمروز کے گورنر تھے۔
صوبہ زابل کی پولیس کے نائب سربراہ غلام جیلانی فراحی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان دونوں گروپوں کے مابین ہفتے کی صبح لڑائی کا آغاز ہوا تھا اور یہ سلسلہ آج اتوار تک جاری ہے۔ ’’میری اطلاعات کے مطابق ملا داد اللہ کے ساٹھ جب کہ اختر منصور کے بیس جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں‘‘۔ ان کے بقول زخمیوں کی تعداد تیس کے قریب ہے۔
اے ایف پی کے مطابق یہ علاقے طالبان کے زیر کنٹرول ہیں اور اسی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس افسر فراحی کو یہ اطلاعات کہاں سے ملیں۔ فراحی نے مزید بتایا، ’’منصور داد اللہ گروپ کو زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور ہلاک ہونے والوں میں ازبکستان کے شدت پسند بھی شامل ہیں‘‘۔
صوبائی گورنر کے ترجمان اسلام گل سیال نے اس جنگ و جدل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی بھی لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
رواں برس جولائی میں مُلاعمر کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان میں قیادت کا معاملے پر اختلافات سامنے آئے تھے۔ مُلا عمر کی جگہ مُلا اختر منصور کو نیا سربراہ نامزد کیا گیا اور ابتدا میں اس فیصلے پر اعتراضات بھی سامنے بھی آئے تھے۔
ماہرین ایک طویل عرصے سے طالبان میں اختلافات اور تقسیم کی جانب اشارے کر رہے تھے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہ دشمنی اس طرح کھل کر سامنے آئی ہے۔
طالبان کے ایک کمانڈر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ ملا رسول کے پاس وفاداروں کی کمی ہے اور اسی لیے اس دھڑے نے اسلامک اسٹیٹ سے الحاق کر لیا ہے۔
DW