اپنے گریباں میں جھانکنا کوئی برائی نہیں

محمد شعیب عادل

PervezMusharraf_Slider

جنرل مشرف کے حالیہ ٹی وی انٹرویو پر اندرون اور بیرون ملک کافی چرچا ہورہا ہے۔ جنرل مشرف جو ریٹائر منٹ کے بعد سیاست میں تو نہ آ سکے مگر وقتافوقتاً پاکستانی سیاست سے متعلق اپنے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں کبھی وہ بھارت کے خلاف روایتی بیان جاری کرتے ہیں کہ پاکستان میں تمام خرابیوں کی ذمہ دار راء ہے اور جب ضرورت پڑے تو سچ بھی بول دیتے ہیں جیسے کہ پاکستان اپنے مقاصد کے لیے جہادی تنظیموں کی پرورش کرتا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ جنرل مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنے دور صدارت میں یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہری پالیسی اپنائی تھی ۔ ایک طرف وہ امریکہ سے طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے نام پر فوجی امداد لیتے رہے تو دوسری طرف ریاست ان طالبان کی مدد کرتی رہی۔ لیکن جب انہوں نے درست پالیسی اپنانے کی کوشش کی تو انہی کے ساتھیوں نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں ۔

انھوں نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستانی حکومت ( یعنی فوجی ایسٹیبشلمنٹ) نے80 اور 90 کی دہائیوں میں لشکر طیبہ سمیت دس سے بارہ جہادی تنظیموں کو تربیت دی ، اسلحہ فراہم کیا اور انہیں سرحد پار بھجوایا ۔ طالبان ہمارے ہیرو تھے ، حقانی ہمارا ہیرو تھا، اسامہ اور الزواہری ہمارا ہیرو تھا ۔ حکومت (فوجی ایسٹیبشلمنٹ) نے حافظ سعید کو لیڈر بنایا اور اس کے ذریعے کشمیر میں آزادی کی جدوجہد شروع کرائی۔

بھارتی میڈیا میں جنرل مشرف کے اس انٹرویو کا کافی چرچا ہوا ہے مگر تجزیہ نگاروں کے لیے یہ حقائق کوئی نئے نہیں ہیں ۔ بھارت سمیت تمام دنیا کو ان حقائق کا علم ہے چاہے پاکستانی حکومت یا فوجی ایسٹیبشلمنٹ اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے ۔ امریکی ڈیمو کریٹ سنیٹر ٹم کاٹنے نے اس انٹرویو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ انہیں پرویز مشرف کے اعتراف سے ذرہ برابر بھی حیرت نہیں ہوئی لہذا اب اس بات سے شاید ہی انکار ممکن ہو کہ 2008میں کیے گئے ممبئی حملوں میں ملوث افراد اور پاکستانی حکومت میں موجود کچھ عناصر میں تعاون جاری رہا‘‘۔ افغانستان میں امریکی افواج کے سربراہان بھی امریکی سینٹ کی ڈیفنس کمیٹی میںیہ کہہ چکے ہیں کہ آئی ایس آئی مختلف جہادی گروپوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔

جنرل مشرف کے اس بیان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکہ میں پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف کاروائی کرے۔ پاکستان نے حسب معمول کاروائی کرنے کاوعدہ کر لیا ہے۔ اسی ماہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی دورہ امریکہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ان پر بھی لشکر طیبہ و حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے کا دباؤ ڈالا جائے گا۔اور پاکستانی حکومت پہلے کی طرح وقت گذارنے کے لیے دکھاوے کے طور پر ان پر پابندیاں لگائے گی یا انہیں کچھ عرصے کے لیے منظر نامے سے ہٹا دے گی۔

آپریشن ضرب عضب شروع کرتے وقت کہا گیا تھا کہ ریاست نے اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کردی ہے مگر عملاً معاملات الٹ ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی کاروائیوں میں کمی ضرور آئی ہے مگر اس کی قیادت اور انفراسٹرکچر بدستور موجود ہے ۔ مُلا عمر کے انتقال پر جید کالم نگاروں کے تعزیت ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان تو دہشت گرد ہیں ہی نہیں ۔روزنامہ جنگ کے کالم نگار حامد میر نے اپنے کالم میں طالبان کے نئے امیر مُلا منصور اختر کو’’منتخب ‘‘کرنے کا جو احوال لکھا ہے ، اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی ریاست کی ان معاملات پر گرفت کتنی مضبوط ہے۔ اس سال ماہ اگست اور ستمبر میں حقانی نیٹ ورک نے افغانستان میں شدید ترین حملے کیے ہیں۔ طالبان نے قندوز پر جو قبضہ کیا اس میں آئی ایس آئی کے اہلکار ملوث پائے گئے ہیں۔

اندرون ملک طالبان کے نظریاتی ساتھی پوری طرح فعال ہیں۔ لشکر جھنگوی نے حسب روایت شیعوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔لشکر طیبہ جو کہ نام بدل کر کبھی جماعت الدعوہ بن جاتی ہے اور کبھی فلا ح انسانیت فاؤنڈیشن ،فلاحی کاموں کی آڑ میں بدستور اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر انہیں کھالیں جمع کرنے کی پوری آزادی تھی ۔حالیہ زلزلے میں لشکر طیبہ کے کارکن ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے بینر تلے فوج کے شانہ بشانہ جس مستعدی سے امدادی کاموں میں مصروف ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ پاکستانی میڈیا میں سیاست دانوں کی مٹی تو پلید کی جا سکتی ہے مگر بھارت میں دہشت گردی میں ملوث حافظ سعید کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا جا سکتا۔

کچھ محب وطن دانشوروں کو جنرل مشرف کا یہ بیان اچھا نہیں لگا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ دنیا بھر کی ریاستیں پردے کے پیچھے بہت سے کھیل کھیلتی ہیں ، فرد اور فرد کا رشتہ اعتماد پر قائم ہوتا ہے، ریاست مفاد کے سہارے آگے چلتی ہے، مفاد میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور کچھ روک لیا جاتا ہے ۔۔۔ قوم کے پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھایا جاتا‘‘ و.غیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں ایسٹیبلشمنٹ  کی حمایت کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کی جاسکتیں لیکن اس کی عوام دشمن پالیسیوں سے چشم پوشی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ دوغلی پالیسیوں کی بدولت جگ ہنسائی پاکستان کا معمول بن چکا ہے لیکن ہم مصر ہیں کہ ان باتوں کا تذکرہ کرنے سے الٹا ہمارا نقصا ن ہے اور پھر انہیں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ’’ آج ہمارے ملک کی باگ ڈور ذمہ دار ہاتھوں میں ہے اور ہم اچھے فیصلے کر رہے ہیں‘‘۔

یہ درست ہے کہ ملک میں جمہوری عمل شروع ہوگیا ہے مگر جس طریقے سے عسکری قوتوں نے اس جمہوری عمل کو ہائی جیک کر لیا ہے، اس سے اچھے فیصلوں کی توقع کرنا فضول ہے۔ پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی بدستور فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ پچھلے ہفتے بلوچستان کے کمانڈر جنرل نصیر جنجوعہ کو ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد قومی سلامتی کا مشیر لگایا گیا ہے ۔ ان کی تعیناتی سے بلوچستان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا جہاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں معمول بن چکی ہیں۔ بلوچستان اورسندھ کی صوبائی حکومتوں کو عملاً ناکارہ بنادیا گیا ہے۔ تمام فیصلے ایف سی اور رینجرز کررہی ہے۔

ریاست اپنی خارجہ پالیسی جہادی تنظیموں کے ذریعے ترتیب دیتی ہے۔ سیاسی حکومت ہمسایوں سے تعلقات میں تھوڑی سی لچک دکھاتی ہے تو لائن آف کنٹرول پر بمباری شروع ہو جاتی ہے۔حکومت کی طرف سے افغانستان اور بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر عسکری قیادت پیش رفت نہیں ہونے دیتی۔ چند ماہ پہلے روس کے شہر اوفا میں نواز مودی ملاقات ایسٹیلشمنٹ کو ہضم نہیں ہو سکی۔

ہمیں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ بھولتا نہیں لیکن پچھلے سات سالوں سے ممبئی حملوں کے ملزموں پر مقدمہ چلانے کی بجائے انہیں جیل میں وی آئی پی سہولتیں دے رکھی ہیں۔ہم راء پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں گڑ بڑ کررہی ہے مگر ثبو ت پیش نہیں کرتے۔ دوسری طرف امریکہ نے ممبئی حملوں کے بعد گورداسپور حملے کے ثبوت بھی پاکستان کو دے دیے ہیں لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں۔

One Comment