گلبدین حکمت یار منظرِعام پر آنے کی کوششوں میں

Gulbuddin-Hekmatyar

افغانستان میں 40 سالہ جنگ کے بعد اس ملک کا ایک ’انتہائی خطرناک‘ جنگی سردار، جسے امریکا ’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے اور اقوام متحدہ اسے دہشت گردوں کی فہرست میں رکھتی ہے، گم نامی کے اندھیروں سے نکلنے کی کوشش میں ہے۔

گلبدین حکمت یار، جو اب اپنی عمر کی چھٹی دہائی میں ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ایک ’حقیقی اور منصفانہ امن‘ کی خواہش رکھتے ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا نہیں کہ کابل حکومت ایسی کسی ڈیل تک پہنچنے کی پوزیشن میں ہے۔

گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ افغانستان سے تمام غیرملکی فوج کا انخلا ہونا چاہیے اور ملک میں اگلے برس نئے انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس حکمت یار کی جانب سے یہ بیان اس عسکریت پسند کمانڈر کی اس کوشش کا حصہ ہے، جو وہ افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کے اعادے کی صورت میں چاہتے ہیں۔ یہ بات اب تک واضح نہیں کہ کسی دور میں خوف کی علامت سمجھا جانے والا یہ جنگی سردار، افغان سیاست میں اپنے لیے کس کردار کا خواہش مند ہے۔

حکمت یار کا کہنا ہے، ’’امن قائم کیا جا سکتا ہے اور جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے، مگر صرف تب جب قبضہ ختم ہو جائے، غیرملکی افواج ملک سے نکل جائیں اور افغان عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں اور اپنے لیے حکومت اور انتظامیہ کا انتخاب عمل میں لائیں۔‘‘

حکمت یار نے یہ بیان ایک نامعلوم مقام پر بنائی گئی ویڈیو میں دیا، جو ایسوسی ایٹڈ پریس کو ارسال کی گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ پاکستان کے کسی علاقے میں فلمائی گئی ویڈیو ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ایران نے حکمت یار کو ملک بدر کر دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ تب سے پاکستان ہی کے کسی علاقے میں روپوش ہیں۔

حکمت یار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی سخت زندگی گزاری اور ان کے حامی ’مجاہدین‘ افغانستان میں خانہ جنگی کے دور میں ہزاروں انسانی ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ اپنی طالب علمی کے دور میں وہ ’بے پردہ‘ خواتین پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں ملوث رہے، تاہم بعد میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا سے لاکھوں ڈالر کا سرمایہ اور ہتھیار ترسیل کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا، تو وہ بھی اس لڑائی میں شامل ہو گئے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے مذاکرات کے ناکام ہونے اور طالبان کے آپسی اختلافات کی وجہ سے پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر حکمت یار کو استعمال کرنا چارہی ہے۔

DW & AP

Comments are closed.