کھودا پہاڑ نکلا چوہا

778BEE8D-CE36-42D3-A136-DDE91BDF95F7_mw1024_s_n

ڈیلی ڈان ( 20 نومبر) کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی بتایا گیا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے ملوث ہونے کے جو ثبوت دیئے گئے تھے اس میں کوئی ’’ ٹھوس شواہد ‘‘ نہیں تھے۔

سینٹ کی خارجہ کمیٹی ، جس کی صدارت سینٹر نزہت صادق کررہے تھے، کے سامنے پاکستان کی جزوقتی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارتی مداخلت کے جو ثبوت دیئے گئے تھے وہ محض زبانی کلامی یعنی راویات اور اندازے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ثبوت ( یعنی روایات اور اندازے) نہایت احتیاط اور باریک بینی سے تیار کیے گئے تھے اور ذرائع کی حفاظت کی وجہ سے ان ثبوتوں میں ٹھوس شواہد نہیں تھے ۔یہ ثبوت صرف بیانات کی شکل میں ہی دیے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ پاک بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات منسوخ ہونے کے بعد پہلی بار تین ثبوتوں کا ذکر کیا گیا تھا ۔ پاکستان کے جہادی میڈیا میں اس بات کو کافی اچھالا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت ہیں اور وہ جلد ہی دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

اس ملاقات کے منسوخ ہونے کے بعد حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ ثبوت وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر کو پیش کیے جائیں گے ۔ اور پچھلے ماہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں یہ ثبوت اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل نمائندے ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کیے تھے۔ اور یہی ثبوت سرتاج عزیز نے وزیراعظم نواز شریف اور جان کیری کی ملاقات میں بھی پیش کیے تھے۔

جیسا کہ حکومت پاکستان کا اصرار ہے کہ بھارت بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردوں کی نہ صرف حمایت کررہا ہے بلکہ اس میں ملوث ہے اور حکومت کے پاس اس کے واضح ثبوت ہیں ۔ امریکہ کے دورے کے بعد سرتاج عزیز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی مداخلت کے ان ثبوتوں کی وجہ سے دنیا کو یہ رائے بنانے میں مدد ملے گی کہ بھارت دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔

خارجہ سیکرٹری اعزاز چوہدری نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ انتہائی حساس نوعیت کے یہ ثبوت کمیٹی کی ان کیمرہ میٹنگ میں دکھائے جا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ جماعت الدعوۃ کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو ان تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں جن کی نگرانی ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد لشکر طیبہ پر جنوری 2002 کو پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تاہم، اقوام متحدہ کے دباؤ پر حکومت نے دسمبر، 2008 اور مارچ، 2012 میں بالترتیب جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو نگرانی کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے اپنی انتظامی کوتاہیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے بھارتی مداخلت کے الزامات لگانا ایک معمول ہے۔بلوچستان ہو یا کراچی یا فاٹا بھارت کو الزام دے کر یہ سیکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ 16 جولائی 2009 کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں وزیر اعظم گیلانی کی بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ملاقات ہوئی تھی جسے فوجی ایسٹیبلشمنٹ نے یہ کہہ کر سبوتارژ کر دیا تھا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے ۔ من موہن سنگھ نے پاکستانی حکام سے درخواست کی انہیں وہ ثبو ت پیش کیے جائیں۔

اور اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے حکام کئی دفعہ ملے لیکن یہ یہ ثبوت کبھی پیش ہی نہ ہوسکے۔ ایک دفعہ ایک نجی محفل میں پاکستان کے وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت کیوں نہیں پیش کیے تو انہوں نے برجستہ کہا کہ انہوں نے تقاضا ہی نہیں کیا ۔۔