محترم عقیل عباس جعفری صاحب نہایت مہربان استاد اور شفیق بزرگ ہیں، ایک عرصے سے ان کے دامنِ فیض سے استفادہ جاری ہے۔
جماعتِ اسلامی کے پوپائے دا سیلر کی طرز کے نوآموز سربراہ سراج الحق کے حالیہ بیان کے حوالے سے آج انہوں نے ایک سوال اُٹھایا ہے۔ سراج الحق صاحب کے دیوار پھاند کر بھاگنے کی ایک وڈیو کئی سال قبل وائرل ہوئی تھی، ان کے حالیہ بیان کو دیکھتے ہوئے ان کی تصوراتی کود پھاند سے ان کی ذہنی صحت مندی کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
محترم عقیل عباس جعفری صاحب سوال کرتے ہیں:۔
’’سراج الحق صاحب ! ایک سوال تو یہ بهی بنتا ہے کہ اگر آج ابوالاعلیٰ زندہ ہوتے تو کیا وہ جمیعت یا جماعت میں ہوتے….؟؟؟؟‘‘
ہمارا خیال ہے کہ ابوالاعلیٰ کی جمیعت یا جماعت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا اندازہ تو ماچھی گوٹھ کے اس یادگار اجلاس سے ہی لگایا جاسکتا ہے، جہاں ابوالاعلیٰ تنہا ہوگئے تھے۔
تاہم سراج الحق صاحب جنہیں ہم ایک عرصہ پہلے چچا لالٹین کا خطاب بھی دے چکے ہیں، کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم اگر آج زندہ ہوتے تو جمیعت کے کارکن ہوتے….!!
یوں تو ان کے اس بیان پر بہت سی باتیں کی جارہی ہیں، لیکن ہم صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہیں گے کہ علامہ اقبال کو شاید موجودہ پاکستان میں جگہ ہی نہیں مل پاتی، جسے جماعت اسلامی کی البدر والشمس نے لاکھوں بنگالی مسلمانوں کے بدترین اور شرمناک قتل عام کے بعد تشکیل دیا تھا، اس لیے کہ علامہ نے مارچ 1934ء میں آکسفورڈ کے ڈاکٹر تھامسن کو جو خط لکھا، اس خط میں ان کے الفاظ تھے:
”آپ کی ایک غلطی کی میں بعجلت نشاندہی کررہا ہوں۔ آپ مجھے پاکستان نام کی اسکیم کا علمبردار کہتے ہیں۔ واضح ہوکہ پاکستان میری اسکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جس اسکیم کی تجویز رکھی ہے وہ ہے ایک مسلم صوبے کی تخلیق کی۔ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمان غالب اکثریت میں ہوں گے۔ یہ نیا منصوبہ میری اسکیم کے مطابق ایک حصہ ہوگا مجوزہ ہندوستانی وفاق کا۔‘‘
علامہ نے جس پاکستانی اسکیم کی جانب اشارہ کیا ہے، وہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم تھی۔ یعنی علامہ جس پاکستان کا تصور رکھتے تھے، وہ ہندوستانی وفاق کا ایک حصہ تھا۔ کیبنٹ مشن کے پلان میں بھی علامہ کے اسی تصورِ پاکستان کی تجویز دی گئی تھی۔
محترم جعفری صاحب کا فرمانا ہے کہ ’’اقبال نے بعد میں اپنی اس رائے سے رجوع کرلیا تها. لیٹرز آف اقبال ٹو جناح اس کے گواہ ہیں۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ اقبال ہمیشہ رجوع کرلینے کے عادی تھے، پہلے انہوں نے رام کو امامِ ہند اور ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دیا تھا، تاہم بعد میں اس بیان سے رجوع کرلیا تھا۔ اس سے قبل وہ آنجہانی ملکہ برطانیہ کی بارگاہ میں رکوع و سجود تک کر آئے تھے، تاہم اس قبیح اور مکروہ عمل سے رجوع کرتے ہوئے قوم کو بتایا تھا کہ:
آئین جوانمردی،حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ان کے اسی رجوع کرلینے کے مزاج دیرینہ کو دیکھتے ہوئے شاید چچا لالٹین نے یہ موشگافی فرمائی ہوگی۔ تاہم یہ امر بھی واضح ہے کہ اس دور میں ممتاز قادری کے درجۂ فضیلت پر فائز علم دین کا عدالت میں بانی پاکستان نے دفاع کیا تھا، اور علامہ نے رشک کا اظہار فرمایا تھا۔
آج وکلاء و سابق جج صاحبان ممتاز قادری کے چہرہ اقدس کی چُمیاں لیتے ہیں تو ان کی پیروی میں ہی لیتے ہیں۔ وکلاء اور سابق ججوں کی اس عمل کے دوران وارفتگی و بے خودی کو دیکھ کر ان کے صنفی عدم توازن کا خیال ذہن میں لانے والے کم عقل و کم فہم ہیں۔
One Comment