عرفان احمد خان
میں نے اپنے گذشتہ کالم میں برداشت کے عالمی دن کے حوالے سے لکھا تھا کہ برداشت کے حوالے سے ہمارا دامن داغدار ہے۔ سول سوسائٹی اس عالمی دن کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ حکومت ، سماجی تنظیمیں اور این جی اوز برداشت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور لوگوں کی ذہنی تربیت کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہیں۔سیاسی پارٹیوں کے منشور میں ایسی باتوں کا کا ذکر موجود نہیں۔ ایسی سوسائٹی جو شرح خواندگی کے حوالے سے دنیا میں 159 ویں مقام پر ہو ۔جہاں کا خطیب اہل معاشرہ کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے اور لڑانے کے لیے بلا توقف جھوٹ بولتا ہو اس معاشرے میں برداشت کی قوت پیدا کرنے کی ذمہ داری ریاست کے حکمرانوں اور سماجی تنظیموں پر عائد ہوتی ہے۔
جہلم میں پاکستان چپ پورڈ فیکٹری کو بارہ سو افراد کے ہجوم نے آگ لگادی ۔ فیکٹری جل کر خاک ہوگئی۔ 8 کاریں اور 15 مکانات آگ کی ندر ہو گئے۔ اگلے روز قریبی گاؤں کالا گوجراں میں ایک مسجد کا تالہ توڑ کر سامان گلی میں نکالا گیا اور پھر اس کو آگ لگادی گئی۔ مسجد پر قبضہ کر لیا گیا ۔ وہاں کے مکین جان بچانے کی خاطر آبائی گھر چھوڑ کر شہر بدر ہونے پر مجبور کر دیئے گئے۔ یہ نتیجہ ہے مذہب کے نام پر آزادی حاصل کرنے اور مذہبی ریاست تشکیل دینے کا۔
آپ لاکھ قائداعظم کے ارشادات دہرا دیں لیکن معاشرہ کی تشکیل میں مذہب کو اولیت دی جائے گی۔ جس مخصوص عقائد کے لو گ اکثریت میں ہوں گے وہ دوسرے نظریات کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ اور یہی کچھ پاکستان میں ہورہا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں برداشت کے کلچر کا پرورش پانا ایک مشکل امر ہے۔ سوائے اس کے ریاست کے حکمران اس کو اپنی ترجیجات میں شامل کر لیں۔ دنیا میں سول سوسائٹی کی ذہنی تربیت میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اہم کردار اد ا کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں صرف انگریزی اخبارات کی اس طرف کچھ توجہ ہے ۔ اردو صحافت لوگوں میں برداشت کا مادہ پیدا کرنے سے غافل بلکہ جذبات بھڑ کانے میں اولین دستہ کا کردار ادا کر رہی ہے۔
جہلم کے دونوں واقعات کا تعلق برداشت کے فقدان اور ریاست کی نالائقی سے ہے۔ مساجد سے لاؤڈ سپیکروں پر لوگوں کو اشتعال دلانے کے اعلان ہوتے رہے اور ریاستی انتظامیہ کو خیال ہی نہ آیا کہ فیکٹری کے گرد حفاظتی حصار بنا لیا جائے۔ وہ یقیناًاوپر سے احکامات کا انتظار کرتے رہے۔ اس کمزور ریاست میں ڈی پی او کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ خود فیصلہ کرکے قانون پر عمل درامد کے لیے احکامات جاری کر سکے۔ یہ گڈ گورننس ( جس کا پنجاب میں بہت چرچا ہے) کی بہترین مثال ہے۔
اس سانحہ کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج کو بلانا پڑا۔ کدھر گیا نیشنل ایکشن پلان ؟ بقول وزیر داخلہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال قابل گرفت جرم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال پر بنائے جانے والے مقدمات محض کاغذی کاروائی ہے۔ کسی ایک کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی۔ اگر چند کو سزا دے دی جاتی تو آج کا فتنہ پرداز مُلا نازیبا حرکات سے باز آجاتا ۔ ریاست دکھاوے کے طور پر مقدمات درج کر لیتی ہے مگر عملاً یہ لوگ آزاد پھرتے ہیں۔ محرم میں جن مُلاؤں کی حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے ان کو سارا سال کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے فرقہ کے خلاف جی بھر کر زباں درازی کریں۔
لاؤڈ سپیکرکا غلط استعمال کرنے والوں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں پیش کرنے سے ممکن ہے ملک و امن و امان کے قیام میں مدد مل سکے۔ ملک مین اس قائم رکھنا حکومت اور اس کے قائم کردہ اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔ جہاں فساد ہو حکومت اس کمیٹی میں علماء کو شامل کرکے حالات کی درستگی کی توقع رکھتی ہے۔ اور ہر بار ناکامی کا منہ دیکھتی ہے۔ پاکستان میں امن کمیٹیوں کے حربے ناکام ہو چکے ہیں ، ملک جہنم بنتا جارہا ہے جن کے گھر کاروبار بادل نخواستہ وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہور ہے ہیں ۔
ایک سال میں ہزاروں ہندو خاندان بھارت سے ہجرت کر گئے۔ ہماری حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ نہ ہی ملک کا دانشور طبقہ یک جا ہو کر آواز اٹھاتا ہے کہ حکومت اپنے رویے ٹھیک کرنے پر مجبور ہو۔بھارتی سیکولرازم پر حرف آیا تو باشعور اہل قلم اور آرٹسٹوں نے سرکاری اعزازات سے احتجاجاً واپس کر دیئے تاکہ حکومت کو مسلم دشمنی رویہ ٹھیک کرنے پر مجبور کیا جا سکے ۔ ہم نے دوسرے کے اعزازات واپس کرنے کو خوب اچھالا لیکن اپنے ملک میں حکومتی بے حسی پر سب خاموش رہے۔ حکومتی وظیفہ خور اہل قلم کی اپنی مجبوریاں ہیں لیکن امن کی آشا کا پرچار کرنے والوں کا اپنے ملک کے حالات پر آنکھیں بند کرلینا منافقت ہے۔
اسی سال سپریم کورٹ نے پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے از خود نوٹس لے کر اپنے فیصلہ میں حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ ملک میں رائج اقلیتوں کے قوانین ناکافی ہیں۔ ان قوانین کا جائزہ لے کر نئی قانون سازی کی جائے اور ان پر عمل داری کو یقینی بنائے اور ملک کے ان شہریوں کے حقوق کی پاسداری سے متعلق واضح پالیسی اختیار کیا جائے۔ موجودہ چیف جسٹس نے بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب میں توجہ دلائی ہے کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ اس کی آزادی کا تحفظ کیا جائے ۔ ریاست سپریم کورٹ کی بات پر اس لیے کان نہیں دھرتی کہ شخصی آزادی کے بنیادی حق کو دلوانے میں سپریم کورٹ کا اپنا ریکارڈ بھی قابل تعریف نہیں۔
بات برداشت کے عالمی دن اور پاکستان کے حوالے سے شروع ہوئی تھی وزیر اعظم پاکستان کا لبرل ازم پراظہار خیال اور دیوالی کی تقریب میں شرکت مذہبی رہنماؤں کو ہضم نہیں ہو رہی ۔ بیانات کا سلسلہ تو جاری تھا ہی اب اسلام آباد کے ہوٹل میں مقتدر علماء کا اجتماع ہوا ہے جس میں پاکستان کی نظریاتی اساس کے دفاع کے لیے حکمت عملی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام اور نظام مصطفی کے نا م پر 67 سال تحریکیں چلانے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ ماضی کی تمام تحریکوں کی نظریاتی اساس کیا تھی جو اب نئی حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔کیا لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کا ایک بار پھر دھمکیوں پر اتر آنے کو نئی حکمت عملی خیال کیا جائے۔
♣
3 Comments