جناح و اقبال کا پاکستان

آکار پٹیل

Iqbal-and-Jinnah

علامہ اقبال کا تصور پاکستان، شمال مغربی ہندوستان میں ایک ایسی یوٹوپیا کا قیام تھا جہاں پنجابی اجتہاد کریں گے اور جرمن فلسفی نیٹشے کے خیالات و نظریات پر سر دھنیں گے۔

قائد اعظم کا تصور پاکستان ایک ایسے ملک کاتھا جہاں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ ریاست کے شہری کے طور پر کیونکہ جناح کے نزدیک ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہبی عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔دونوں حضرات کے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں میں کوئی ایسی غیر معمولی خوابیدہ صلاحیت موجود تھی جو صرف اور صرف ہندو اکثریت سے علیحدہ ہوکر ہی اپنے جوہر دکھا سکتی تھی۔

اقبال 1908 میں یورپ سے واپس لوٹے۔قیام یورپ کے دوران انھیں یہ احسا س انتہائی شدت سے ہوا کہ عالم اسلام مبتلائے’ زوال ‘ ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسی علمی اور عملی کوششوں کی ضرورت ہے جن کی بدولت اسلام کی ’نشاۃ ثانیہ ‘ کا حصول ممکن ہوسکے ۔ ان کے نزدیک ہند کے مسلمانوں کو جن تہذیبی ، ثقافتی اور سیاسی چیلنجوں کا سامنا تھا ان سے عہدہ براہ ہونے کے لئے ضروری تھاکہ اسلام کو’ عجمی آلودگی ‘ بالخصوص’ ہندوستانی‘ ثقافتی خیالات و اثرات سے پاک و صاف کیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ’ضعف‘ اسلام کے پس پشت یہی’ عجمی ملاوٹ ‘تھی۔ ’خالص اسلام‘ کا داعی بننے سے قبل اقبال 1904 میں ایک ایسا گیت لکھ چکے تھے جو آج تک برصغیر کے مشترکہ کلچر کی اعلی ترین روایات کا اظہار ہے (ترانہ ہندی ) ۔

اپنشد میں موجود گیاتری منتر بھی تو اقبال ہی نے سنسکرت سے اردو میں ترجمہ کیا تھا لیکن قیام یورپ کے دوران انھیں احساس ہو ا کہ’ ہمارا‘ کلچر مسابقت کی صلاحیت نہیں رکھتا اوراب ضروری ہو گیا ہے کہ مسلمان ہندووں سے علیحدہ ہو جائیں۔ یہی وہ ذہنی کیفیت تھی جس کے تحت اقبال نے’ ترانہ ملی‘ لکھا ۔ جناح کو ہندوستانی ثقافت ، روایات اور تاریخ کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہ تھا ۔وہ دانشور سے زیادہ سیاسی رہنماتھے جن کے نزدیک اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی جوڑ توڑ اور پینترے بازی سے زچ اور چت کرنا تاریخ سے زیادہ اہم تھا ۔

جناح بھی سمجھتے تھے کہ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ قوم ہیں اور وہ ’ دقیانوسی اور ازکار رفتہ ‘ ہندو کلچر سے علیحدہ ہو کر جدیدیت کی راہ اپنا سکتے ہیں۔شاعر اور وکیل دونوں نے یہ سوچا کہ ترقی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ ہر وہ چیز جو ہندوستانی ہے اس سے قطع تعلق کر لیا جائے۔ ’ہندوستانیت ‘ سے قطع تعلقی کا پہلا اظہار اس وقت ہوا جب پاکستان نے اپنا یوم آزادی 14 اگست کو قرار دیا حالانکہ دونوں ریاستیں ایک ہی آئینی اور قانونی دستاویز کی بدولت 15اگست 1947 کو وجود میں آئی تھیں۔

اقبال اپریل 1938 میں فوت ہوئے جب کہ جناح ستمبر 1948 راہی ملک عدم ہوئے ۔آج اگر یہ دونوں حضرات نظریہ پاکستان کے خو د ساختہ محافظ روزنامہ’ نوائے وقت ‘ کے تازہ شمارہ کے صفحات کی ورق گرادانی کریں تو ان کا رد عمل بہت دل چسپ ہوگا( جناح کے لئے تو نوائے وقت کے مندرجات کو ترجمہ کرنا پڑے گا )۔

جناح کے سیکولر تصور پاکستان کے مقابلے میں اقبال کا ’اسلامی‘ تصور پاکستان جیت گیا ۔ ساٹھ سال قبل مارچ 1949 میں لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے قومی اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کرواکر جناح کے تصوراتی پاکستان کے سر میں چپت رسید کرکے اسے اندھیروں کی نذر کر دیا ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان تو کجا سوات میں خود مرکزی اور صوبائی حکومتیں شریعت کے نفاذ کے لئے بے چین ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعت جس کے اکابرین ہمیشہ سیکولر اور غیر فرقہ ورانہ سیاست کے داعی رہے ، عید کے چاند کی بحث میں الجھی ہوئی ہے اور سعودی عرب کے ساتھ عید منانا چاہتی ہے ۔

پنجاب میں عملی شریعت تو گو ابھی تک نافذ نہیں ہوئی لیکن ایسے گروہ موجود ہیں جنھوں نے مخصو ص حلقوں میں اپنی خود ساختہ شریعت کا نفا ذکر رکھا ہے ۔ پنجاب کی آبادی کی اکثریت بالخصوص شہری تاجر طبقے ، اشرافیہ کی مختلف پرتیں اور نچلے درمیانے طبقے کا شریعت کے ساتھ رومانس شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ زمینی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان بالخصوص پنجاب میں بھاری تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کی دہشت گردی سے تو متنفر ہیں لیکن ان کے سماجی اور سیاسی خیالات کی تا ئید کرتے ہیں۔ عمران خان اس کی نمایاں مثال ہیں جو جرگہ سسٹم اور’ قبائلی اشتراکیت ‘ کے گن گاتے ہیں۔

پنجاب میں بڑھتے ہوئے طالبانی خطرے کے پس پشت جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے محض پختون عسکریت پسندوں کی بندوقیں نہیں ہیں ۔ پاکستان تو ساٹھ فی صد پنجابی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان تو در حقیقت وسیع تر پنجاب ہے۔ جہاں تک پختونوں کا تعلق ہے وہ تو پاکستان کی آبادی کا صرف پندرہ فی صد اور فوج میں ان کی تعداد بیس فی صد ہے۔

طالبانی خطرہ کی جڑیں تو اس مائنڈ سیٹ میں ہیں جو اسلام کو’ عجمی‘ خیالات سے پاک و صاف کر نا چاہتا ہے۔ پختون دور اول کا ’خالص‘ اسلا م نافذ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ بات پنجابیوں کے من کو بھاتی ہے ۔ اسلام کی وہ صورت جو سعودی عرب میں نافذ ہے، کو پاکستان میں نافذ کر نا اور اس پر عمل پیر ا ہونا چاہتے ہیں ۔ وہ مقامی رسوم و رواج سے نفرت اور اسے’ ہندووانہ‘ قرار دے کر اس سے اظہار لا تعلقی کرتے ہیں۔ طالبانائزیشن کی نشو و نما کا مرکز اذہان ہیں اور اس کی مزاحمت نہ کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔
ایک وجہ تو پاکستان کے مسلمانوں کا ’خالص شریعت ‘سے تاریخی رومانس ہے اور وہ ایسی خیالی جنت کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں جو اس ’خالص ‘شریعت کے نفاذ سے تخلیق کی جاسکتی ہے ۔ یہ مائنڈ سیٹ بدلنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

دوسری وجہ خود پاکستانی ریاست کا اپنی تاریخ و ثقافت سے شعوری لا تعلقی اور بیزاری ہے ۔ جہاں تک اس دوسری بات کا تعلق ہے تو اس میں تبدیلی کا امکان موجود ہے ۔وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نظریاتی سطح پر طالبانائزیشن کا مقابلہ کر سکتا ہے انھیں اگست 1947 کے بعد پاکستانی ریاست کی طرف سے ا ختیار کردہ ثقافتی اور سیاسی پالیسیوں کے تسلسل پر نظر ڈالنی چاہیے ۔

جناح کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنھوں نے 1948 میں اردو کو قومی زبان قرار دے کر پاکستانی ثقافت اور اس کے مختلف مظاہر جن میں مادری اور علاقائی زبانو ں کی نشو و نما اور ترقی سر فہرست ہے ، کا ابتدا ہی میں گلہ گھونٹ دیا تھا۔ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ثقافتی تنگ نظری کی جارحانہ مہم کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو ہر ممکن طور پر وسعت بھی دی۔ لیاقت علی خان نے مذہبی آزادی پر قدغن لگائی ( قرارداد مقاصد مارچ 1949) بھارتی فلموں پر پابندی ( جنرل ایوب خان 1965) اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب اور اسلامی نظریاتی کونسل کو آئینی تحفظ ( بھٹواگست 1973) اور بعد ازاں جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی وغیرہ (1977)۔

جنرل ضیاء ا لحق نے تو پاکستان کے یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آنے والے حکمرانوں نے جس’ نظریاتی کروسیڈ‘ کا آغاز کیا تھا اس کو انتہائی بلندیوں پر پہنچادیا ۔ انھوں نے پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو ’خالص شریعت ‘کی وہ ضرب لگائی کہ اب اس کی شکل و صورت پہچاننا مشکل ہوگیا ہے ۔ نواز شریف نے شریعت بل کے ذریعے پاکستان میں’ حقیقی اسلامی نظام ‘ کے نفاذ کی کوشش کی ۔ بے نظیر بھٹو نے کشمیر ’جہاد ‘ کا جذبہ زندہ رکھا اور پھر ’لبرل ‘ اور ’روشن خیال ‘پرویز مشرف نے بھارت دشمنی کی نئی جہتیں متعارف کرائیں ۔ بر صغیر کی ثقافت کو ہندو ثقافت اور بھارتی ثقافت کہہ کر مطعون کیا گیا اور اس طور ایسا مائنڈ سیٹ تیار کیا گیاجو طالبا نائزیشن کے نظریاتی حملوں کے سامنے نہ صرف مزاحمت کرنے سے محروم ہے بلکہ اس کا ہمدم و دم ساز بھی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کا کلچر ہے کیا ؟ کیا پاکستانی موسیقی اور رقص کی کوئی ایسی روایت موجود ہے جو بھارت سے مختلف ہو ۔ مہدی حسن اور غلام علی ( جنھوں نے احمد آباد سے ممبئی جاتے ہوئے فلائیٹ میں مجھے بتایا )کہ انھیں بھارت میں گانا اچھا لگتا ہے کیونکہ پاکستانی درمیانہ طبقہ کی اکثریت سر تال سے نابلد ہے ۔یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ برصغیر کی موسیقی تو وید ک عہد اور امیر خسرو کے زمانے سے ہمارا مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے ۔ پاکستانیوں کو اپنے اس ثقافتی ورثہ کو مسترد اور اس سے اظہار لا تعلقی کیوں کرنا چاہیے ؟

کسی بھی ثقافت کی جڑیں تاریخی روایات میں پیوست ہوتی ہیں اور یہی وہ پہلی چیز ہے جس پر کوئی مذہبی ریاست حملہ آور ہوتی ہے ۔ شمالی ہند موجودہ پاکستان1947سے جس کا اہم ترین حصہ تھا، میں کتھک ڈانس کی روایت بہت مضبوط اور مستحکم تھی لیکن رقص کی یہ شکل اب پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یہ کہنا نہ ہوگا کہ رقص عمومی طور پر پاکستان کے ثقافتی منظر نامے سے غائب ہے۔( اگرچہ یہ رقص محسو د قبائل کلاشنکوف کی تڑ ٹر میں انتہائی جوش و خروش سے کرتے ہیں)۔

پاکستان میں مجرے کو رقص کا متبادل سمجھ لیا گیا ہے ۔کوئی ٹی وی چینل رقص پر مبنی پروگرام پیش کر نے کی جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ رقص کے بارے میں یہ تاثر مستحکم ہو چکا ہے کہ اس سے انسان کے سفلی جذبات کو اشتہا ملتی ہے لہذا یہ غیر اسلامی ہے لیکن مجرے کی سی ڈی ایز ہر وقت اور ہر جگہ آن ایئر ہوتی ہیں اور ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ۔

ثقافت جذبات کے اظہار کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے ۔ آپ رقص ، اداکاری ، موسیقی ،شاعری ،کہانی اور ناول کے ذریعے انسانی زندگی کے مختلف پہلووں کو بیان اور انسانی جذبات کو زبان دے سکتے ہیں ۔مختلف ثقافتوں کا اپنا مخصوص سماجی ،معاشی اور سیاسی پس منظر ہوتا ہے اور ان کی اپنی مخصوص خوشبو ہوتی ہے ۔پاکستان اور بھارت کی اپنی مخصوص ثقافت ہے جسے ہم ہند ایرانی ثقافت کا نام دیتے ہیں ( یہاں ہند پر زور ہے )۔

ثقافت بر اہ راست انتہا پسندی کی مزاحمت نہیں کرسکتی ۔ یہ تو صرف اذہان کو اوہام سے آزاد کرکے انتہا پسندی کے نظریاتی حملوں کے سامنے بند باندھتی ہے۔انتہائی پسندی سے لڑنے کا بہترین ہتھیار تو دلیل ہے لیکن ہم بر صغیر کے باسی دلیل پر کچھ زیادہ اعتبار نہیں کرتے اور نہ ہی ہم دلائل کو پسند کرتے ہیں کیونکہ دلیل کی لغت سے ہماری آشنا ئی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ ثقافت ہماری شخصیت کو نرم اور متوازن بناتی ہے لیکن منفی معنوں میں نہیں ،جب کہ ’خالص‘ عقیدہ فر د سے انتہا پسندی اور اپنے گردو پیش سے لا تعلقی اور بے زاری کا تقاٖضا کر تا ہے ۔

ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ مذہبی عقیدے کو دلیل کے زور پر نرم بنائیں اور اس سے انتہا پسندی کے عنصر کو نکال باہر کریں کیونکہ ہم تو ہنوز آٹھویں اور نویں صدی کے ماہرین قانون کے فہم دین اور سما ج سے استفادہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اقبال نے اسلام میں اجتہاد کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دیا تھا لیکن گذشتہ باسٹھ سالوں میں پاکستان یا پھر بھارت میں کس قدر اجتہاد ہوا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دو ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت امام اعظم کے خیالات و نظریات سے استفادہ کو دنیا و آخرت میں باعث خیر و برکت خیال کرتی ہے ۔

امسال بی بی سی ٹیلی ویژن نے پاکستان میں عسکریت پسندی کے رحجان کے حوالے سے ایک رپورٹ چلائی تھی جس کا عنوان تھا ’ کیا صوفی ازم کی روایت طالبان کی مزاحمت کر سکتی ہے ‘ میرے خیال میں نہیں ۔ ہم عصرصوفی ازم میں اتنی نظریاتی قوت اور پہل کاری کا عنصر موجود نہیں کہ وہ انتہا پسندی اور’ خالص اسلام‘ کی تحریک کی مزاحمت کر سکے ۔ مذہب پر مبنی انتہا پسندی کو صوفی ازم کی بجائے مکی ماؤ س زیادہ موثر طور پر روک سکتا ہے ۔

صوفی ازم زمانہ ماضی کی بات ہے۔ قرون وسطیٰ میںیقیناًصوفیا اور صوفی ازم کا رول تھا لیکن آج کے دور میں یہ اپنی نظریاتی اپیل کھو چکا ہے ۔صوفی ازم بمقابلہ انتہا پسندی محض فراریت ہے۔حضرت نظام الدین اولیا ، بابا شاہ جمال ، شہباز قلندر، شاہ حسین ، بلھے شاہ اور پاکستان اور بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی صوفیا کی ہزار ہا درگاہوں،مزاروں اور خانقاہوں پر وارفتگی کے جو مناظر ہمیں نظر آتے ہیں وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو جتاتے ہیں کہ ہماری اکثریت صرف ویک اینڈ کی حد تک صوفی بن سکتی ہے۔صوفی ازم کا پیغام وحدت الوجود ہمیں منضبط اور جامد عقائد سے دور ہٹاتا اور صلح کل کا درس دیتا ہے اور یہ ایک علمی سفر ہے جو ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہے ۔

صوفی ازم اس بنا پر بھی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف نہیں لڑ سکتا کیونکہ اس کے کوئی فوری مطالبات اور تقاضے نہیں ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ایسا شیڈول ہے جو روزمرہ کے معاملات کا احاطہ کرتا ہو ۔صوفی شریعت کا احترام کرتا اور اس کے پہلو بہ پہلو انتہائی آرام سے رہ سکتا ہے ۔چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے دہلی کے عظیم صوفیا پکے نمازی اور پابند شریعت تھے لیکن جہاں تک طالب کا تعلق ہے وہ صوفی کے ساتھ ہم آہنگی قائم نہیں رکھ سکتا ۔

وہ صوفیا کی درگاہوں ،مزاروں خانقاہوں اور مقامی ثقافت کے دیگر مظاہر کو بم سے اڑاتا ہے ۔ پشاور میں رحمان بابا کا مزار ہو یا سری لنکا کی کرکٹ ٹیم یا پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں صوفیا کی درگاہیں، مجاہدین کے لئے ان سے ہم آہنگ ہو نا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے’ خالص‘ عقیدے کی راہ میں مزاحم ہیں ۔ طالب امن چاہتا ہے لیکن اس کی صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے اس کے فہم دین کے مطابق اسلامی شریعت کا نفاذ ۔امن قائم کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ اسے قبول و منظور نہیں ہے ۔

پاکستانی سرعت سے پھیلتی ہوئی طالب فکر کا مقابلہ کس طرح کریں گے ؟مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ کیا گیا ۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے وہ در حقیقت بین الاقوامی مسئلہ ہے اور یہ کم وہ بیش سبھی ممالک کے باسیوں کو متاثر کرتا ہے ۔مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستانی دنیا کے واحد لوگ ہیں جو ابھی تک اس امر کے قائل نہیں ہوئے کہ دہشت گردی کا ارتکاب کون کرتا ہے اور تو اور پاکستانی دانشور جن کے خیالات اخباروں میں چھپتے اور اکثر و پیشتر وہ ٹی وی چینلوں پر نمودار ہوتے ہیں یہ کہہ کر اپنے آپ کوقائل کرتے ہیں کہ ’ کوئی مسلمان دہشت گردی کا ارتکاب نہیں کرسکتا ‘ یہ سب ہمارے ’دشمنوں‘ کا کیا دھرا ہے ۔

پاکستان میں تو ایسے دانشور بھی پائے جاتے ہیں جو یہ تک ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ 9/11 مسلمانوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ سب یہودیوں کی’ سازش ‘تھی جس کا سوائے اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ افغانستان پر قبضہ کیا جائے ۔کہنا تو یہ چاہیے کہ دہشت گرد خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ادب ہو یا موسیقی یا پھر رقص ہماری ثقافت کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین ثقافتوں میں ہوتا ہے ۔ہماری فن و ثقافت کی روایات صدیوں پر محیط ہیں اور یہ تہذیب و تمدن کے اعلیٰ ترین اجزا پر مشتمل ہے ۔ضرورت تو صر ف یہ ہے کہ پاکستانی اس ثقافت کو گلے لگائیں ۔ثقافت کی یہ روایت سرحد پار موجود ہے۔ بالی وڈ محض فلمی صنعت ہی نہیں ہے یہ ہند ایرانی ثقافت کے پھیلاؤ کا مرکز بھی ہے ۔ بالی وڈ کی بمبئی میں موجودگی محض اتفاق نہیں ہے کیونکہ اگر یہ لاہور میں ہوتی تو شاہ رخ اور کرینہ کپور فلمی سیٹ پر شوٹنگ کی بجائے اپنا زیادہ وقت عدالتوں میں اپنے خلاف قائم ہونے والے فحاشی کے مقدمات کا دفاع کرتے ہوئے گذارنا پڑتا جیسا کہ منٹو کے ساتھ ہواتھا ۔ فضا کا یہ فرق صرف سنیما تک محدود نہیں ہے ۔

پاکستان جائز طور پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے ہاں کلاسیکی شاعری بھارت کی نسبت زیادہ لکھی گئی ہے لیکن سو چنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟آزاد پاکستان میں عظیم شعرا فیض، جالب اور فراز نے ہمیشہ مزاحمتی شاعری لکھی کیونکہ انھیں بہت سی باتوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کرنا پڑی۔ آزاد بھارت کے عظیم شاعروں مجروح سلطان پوری ، کیفی اعظمی ،گلزار،جاوید اختر، شلندر اور آنند بخشی نے محبت اور پیار کے گیت لکھے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگیاں جنوبی ایشیا کے قدرتی ثقافتی ماحول میں گذاریں جبکہ پاکستانی شاعروں کو ایسا ماحول میسر نہیں آسکا ۔سرحد پار واقع ہونے کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ بالی وڈ میں جو کچھ تخلیق ہورہا ہے وہ پاکستانی کلچر نہیں ہے۔ 1965سے قبل تو ایسا کچھ نہیں تھا ۔

مشرف نے پاکستانی میڈیا کو وسعت دی ۔زرداری کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں بھارتی میڈیا کوآنے دیں ۔بھلے وہ نیوز چینلز کو نہ آنے دیں لیکن انٹرٹینمنٹ چینلز پر لگی پابندیوں کو ضرور ہٹادیں ۔نیوز چینلز پر عائد پابندی کو قائم رکھتے ہوئے سرحدوں کو کھول دینا چاہیے ۔( ویسے پاکستانی نیوز چینلز پر بھارت میں عائد پابندی سے بھارتیوں کو وقتی فائدہ ضرور ہے)۔

پاکستان کو یہ کچھ کرنے کے لئے کہ بھارت کے جوابی اقدامات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔ممبئی میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے بعد بھارت آسانی سے اور فوری طور پر پاکستانیوں کو اپنی سرزمین پر آنے کی اجازت نہیں دے گا لیکن پاکستان کو بھارتی عوام ،ثقافت ،تجارت اور سیاحوں (جن کی تعداد ناقابل یقین حد تک ہوگی ) کے لئے اپنے کو کھول دینا چاہیے ۔اس کا قطعاً مطلب شکست خوردگی اور سرنڈر کر نا نہیں ہے ۔پاکستان کو مضبوط اور آزاد مسلمان قوم کے طور قائم رہنا چاہیے ۔

لیکن پاکستان کو طالبان کے خلاف اپنا خفیہ ہتھیار استعمال کرنا چاہیے اور یہ خفیہ ہتھیار کوئی ایٹم بم نہیں ،ہماری ثقافت ہے ،ہمارا ہند ایرانی ورثہ ہے۔ اس ورثہ کو ہم نے صدیوں تعمیر کیا ہے ۔ہماری اس سے وابستگی ناقابل شکست ہے اور ہر حال میں ہمیں اس سے وابستہ رہنا چاہیے ۔

ترانہ ملی ‘ کو بھول جائیں۔آئیں ترانہ ہند و پاک گائیں۔ علامہ اقبال اس پر خوش ہوں گے اورمیرا خیال ہے کہ جناح بھی اس پر ناراض نہیں ہوں گے ۔

ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ

Comments are closed.