ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی مالیت سے چین کی معاونت کے ساتھ شروع کیا جانے والا پنجاب حکومت کا اورنج ٹرین منصوبہ متنازعہ بن چکا ہے۔
اس منصوبے کے مخالفین کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت اس منصوبے کے حوالے سے ماحولیات، تعمیرات اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے تحفظات کوبھی نظر انداز کر رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے پہلے ماس ٹرانزٹ ٹرین منصوبے کے تحت پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اورنج میٹرو ٹرین کے لیے 27 کلو میٹر لمبا ٹریک تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹرین علی ٹاؤن سے شروع ہو کر ٹھوکر نیاز بیگ، کینال ویو اور سمن آباد سے ہوتی ہوئی چوبرجی، انارکلی، ریلوے اسٹیشن، اور باغبانپورہ سے گزرتے ہوئے ڈیرہ گجراں پہنچے گی۔
دو طرفہ ٹریک پر چلنے والی اس ٹرین سروس سے روزانہ اڑھائی لاکھ مسافر مستفید ہوں گے اور یہ منصوبہ جون 2017ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ٹرین شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا فاصلہ چالیس منٹ میں طے کرے گی۔
اس منصوبے کے لیے بنائے جانے والے مجوزہ ٹریک کی زد میں بہت سی نجی پراپرٹی کے علاوہ قبرستان، مساجد، اور تاریخی عمارتیں بھی آ رہی ہیں۔ کچھ شہریوں نے اس منصوبے کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے کپور تھلہ انارکلی لاہور کے علاقے میں اس منصوبے کے لیے زمین کی خریداری کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ عدالت اس مسئلے پر سات دسمبر کو دوبارہ سماعت کرنے والی ہے۔
ممتاز وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت نے زمین حاصل کیے بغیر ہی اس منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت زمین کے حصول کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی: ’’اس منصوبے کی راہ میں جی پی او، شالا مار باغ اور چوبرجی سمیت دو درجن سے زائد تاریخی عمارات بھی آ رہی ہیں۔
قوانین کے مطابق اس طرح کے منصوبوں کو تاریخی مقامات سے کم از کم دو سو فٹ کے فاصلے پر رکھا جانا چاہیے لیکن اس ٹرین کا ٹریک تاریخی عمارات کے بہت قریب سے گزر رہا ہے۔‘‘
عالمی ادارے یونیسکو نے بھی پنجاب حکومت کے نام لکھے گئے اپنے متعدد خطوط میں اس منصوبے کی زد میں آنے والی تاریخی عمارات کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ منصوبہ حکومت کی غلط ترجیحات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے بقول لاہور میں 60 فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں،لاکھوں بچے معیاری سرکاری اسکولوں سے محروم ہیں، شہریوں کی بڑی تعداد صحت کی سہولتوں سے محروم ہے لیکن حکومت اپنے سیاسی فائدوں کے لیے ایسے منصوبوں پر کثیر رقوم خرچ کر کے قومی وسائل کو ضائع کر رہی ہے۔ ان کے بقول اس منصوبے کے لیے نہ تو صوبائی بجٹ میں رقم رکھی گئی تھی اور نہ ہی حکومت نے اس منصوبے پر پنجاب اسمبلی کو اعتماد میں لیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اورنج ٹرین پراجیکٹ اور میٹرو بس کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبہ سے 10ارب نکالے ہیں ۔جبکہ حالت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا نیشنل پروگرام صحت کے شعبہ میں پاکستان کو 177ممالک میں سے 146 ویں نمبر پر رکھتا ہے اور لٹریسی ریٹ میں پاکستان کا 159 نمبر دیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب کے چند شہروں کے علاوہ ہر شعبے میں پسماندگی کا راج ہے لیکن ترقی صرف لاہور شہر تک محدود ہے۔کیا ترقی کا مطلب پل بنانا ہی رہ گیا ہے؟
ماہرین کے مطابق ایک ہی شہر میں ترقیاتی کاموں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دوسرے شہروں سے نقل مکانی بڑھ جاتی ہے اور یہ منصوبے اگلے دس سال بعد آبادی کے دباو کو برداشت نہیں کر سکتے ۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہفتے کے روز اخبارات میں خصوصی طور پر شائع کروائے جانے والے ایک اشتہار میں کمیشن نے کہا ہے کہ اس منصوبے میں سطح زمین سے اوپر اور انڈر گراؤنڈ راستوں کا جوجال تجویز کیا گیا ہے اس سے عالمی ورثہ قرار دیے جانے والے شالامار باغ سمیت 30 سے زائد تاریخی مقامات کے مستقبل کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
کمیشن کے بقول مغلیہ دور کے اہم شہر لاہور کا عمارتی اور ثقافتی ورثہ ملک کا اقتصادی اثاثہ بھی ہے اور شہریوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بھی۔ کمیشن نے اس منصوبے کے تعمیراتی پلان پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ طرز تعمیر سے ان تمام چیزوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا جن کی وجہ سے آج لاہور، لاہور ہے۔
ادھر پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروائی ہے کہ اس منصوبے سے تاریخی عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ان کے بقول اس منصوبے سے عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولت میسر آئے گی۔
♠
One Comment