ملک سراج اکبر
گذشتہ چند روز بلوچ علیحدگی پسند قوم پرستوں کے لئے بڑے صبرآزمارہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی کی وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ سے خفیہ ملاقات سے بہت سارے آزادی پسند رہنماوں اور کارکناں کو مایوسی ہوئی ہے بلکہ چند ایک نے تواخباری بیانات میں واضح الفاظ میں ان کے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک جب ان سے ملنے سوئٹزرلینڈ تشریف لائے تووہ ان“سفید ریش” بلوچ رہنما کو یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ وہ ان کے گھر تشریف نا لائیں کیوں کہ ایسا کرنا بلوچ روایت کے منافی ہے۔ لیکن بگٹی صاحب کی اس بات کا اعتبار کون کرے؟ وزیراعلیٰ بلاوجہ تو(کوئٹہ کے قریب واقع ضلع) مستونگ تک نہیں جاتے اور اگر ان کی براہمداغ بگٹی کے ساتھ ملاقات پہلے ہی سے طے نہ ہوتی تو وہ کیسے سوئیٹزرلینڈ پہنچتے؟
چندماہ قبل جب براہمداغ نے پہلی مرتبہ حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تھا تو یہ خبر پاکستانی میڈیا میں بریکنگ نیوز کی صورت میں نشر ہوئی۔اسلام آباد میں جو لوگ بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کے بارے میں حقیقی معنوں میں پریشان تھے انھوں نے یکدم اطمینان کا سانس لیا کہ بلوچستان کا مسئلہ اب حل کی طرف بڑھنے لگےگا۔
خود براہمداغ اس غیر متوقع اعلان سے پہلے تو بڑے سخت لہجے میں کبھی یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات محض ایک نقطے یعنی بلوچستان کی آزادی پرہوگی اور اس کے علاوہ وہ کسی اور معاملے پر حکومت سے قطعاً گفت و شنید نہیں کریں گے۔
کچھ عرصہ بیت گیااور انھوں نے اپنے سابقہ موقف میں قدرے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائےیعنی ریفرنڈم کرایا جائے۔ ناقدین ان کے اس مشورے سے متفق نہیں ہوئے کیوں کہ بقول ان کے بلوچستان میں اس وقت لاکھوں افغان مہاجرین حکومت کی دانستہ پالیسی کے تحت آباد کئے گئے ہیں تاکہ بلوچوں کو اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں تبدیل کیا جائےاور باقی فاٹا و صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایف سی کی موجودگی میں بلوچستان میں صاف اور شفاف استصواب رائے کا انعقاد مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
اس مجوزہ استصواب رائے کے جو نتائج برآمد ہوں گےوہ حکومت کے حق ہی میں ہوں گے۔ تاہم جب براہمداغ نےبلامشروط طور پر پاکستان سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا تو یوں لگا کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم میاں نواز شریف چند ہی گھنٹوں کے اندار اندر ان کے ساتھ غیر معمولی اعلان کا خیرمقدم کریں گے اور دوڑتے دوڑتے ’’ناراض بلوچ رہنما‘‘ سےجاکر خود ملیں گے۔
دن گزر گئے۔ ہفتے بیت گئے۔ وزیر اعظم اورآرمی چیف ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ براہمداغ کےاس بڑے اعلان کے فوری بعد لاہور سے نکلنے والے فوج نواز انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ نے28اگست کے اپنے اداریے میں لکھا کہ براہمداغ خود سمجھوتہ کررہاہےنا کہ حکومت۔ لہٰذا وہ حکومت کو یہ دھمکیاں دینا بند کریں کہ اگر بلوچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تو وہ بھارت سے امداد طلب کریں۔“دی نیشن” نے ان کی اس دھمکی کے جواب میں لکھا ’’ جی نہیں۔ آپ ایسا(یعنی بھارت سے امداد طلب) نہیں کرسکتے‘‘۔
یہ پڑھ کر ہمیں فوری اندازہ ہوا کہ فوج براہمداغ کے ساتھ مذاکرات کے موڈمیں نہیں ہے۔ دراصل وہ براہمداغ کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے تھے جو ان کے دادا نواب اکبر بگٹی کے ساتھ جنرل مشرف نے کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سال 2004 میں جب نواب صاحب جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کے لئے راضی ہوئے تھےاور انھیں بتایا گیا تھا کہ حکومت خصوصی طور پر ایک طیارہ سوئی انھیں لینے بھیجے گی تو نواب صاحب کئی گھنٹوں تک انتظار کرتے رہےلیکن مشرف نے جان بوجھ کہ طیارہ بھیجنے کا حکم دیا کیوں کہ وہ نواب صاحب کی تذلیل کرنا چاہتے تھے۔
میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے براہمداغ کے ابتدائی بیان پر خاموشی اخیتار کرکے بالکل وہی تضحیک آمیز رویہ دہرایا اور پھر انھیں مزید نیچا دیکھانے کی خاطرڈاکٹر مالک کو ان سے مذاکرات کرنے بھیجا۔ ڈاکٹر مالک نہ صرف فوج کے کھٹ پتلی وزیراعظم ہیں بلکہ دی نیوز انٹرنیشنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق (جس میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے کہا تھا کہ) ڈاکٹرصاحب تو پشتون خواہ کےرحم و کرم پر ہیں۔
براہمداغ کو ڈاکٹر مالک سے مل کریہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ آپ کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور ہم صرف فوج کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔یہ تو انھیں پہلے ہی معلوم ہونا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر مالک سے ملنے پر آمادگی کا اظہار کرتے وقت براہمداغ نے بہت جلدبازی کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ پچھلے چند سالوں میں اپنی سیاست کی وجہ سے صرف بی آرپی یا ڈیرہ بگٹی کے رہنما نہیں بلکہ پورے بلوچ قوم کے ایک بہت بڑے لیڈر بن گئے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ خود نواب بگٹی کو اپنی زندگی میں بلوچستان بھر کے قوم پرست حلقوں میں اتنی عزت اور قبولیت نہیں ملی جتنی براہمداغ بگٹی کو پچھلے نو سالوں میں ملی ہے۔لہٰذہ ان سے عوام کی توقعات بہت زیادہ تھیں کہ وہ ایک بےاختیار وزیراعلیٰ سے ملاقات اپنی سیاسی شان کے خلاف سمجھیں گے۔
خود براہمداغ بگٹی کو شاید اپنی اس “غلطی” کا فوری طور پر احساس ہوا ہے اور اب انھوں نے حالات کو مزید بگڑنےسے بچانے کے تمام قوم پرستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک مہینے کے اندر اندر رابطہ کرکے ایک مشترکہ بلوچ پلیٹ فارم پر مذاکرات کریں۔
ان کی اس کال پر کسی بھی جماعت نے مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ براہمداغ کی حکومت سے مذاکرات کی خبر نے قوم پرستوں کو اتنے بڑے صدمے سے دوچار کیا ہے کہ وہ ابھی تک اسی خبر کو صحیح معنوں میں ہضم نہیں کرپائے ہیں اور پھر اُوپر سے اب انھوں نے اب مشترکہ پلیٹ فارم کی پیشکش کرکے قوم پرستوں کے کندھوں پر ایک اور بڑی ذمہ داری ڈال دی ہےجسے اٹھانے کے لئے بہت سارے لوگ اس وقت تیار نہیں ہیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ براہمداغ اب ڈاکٹر مالک کے ساتھ ہونے والے اپنے خفیہ بات چیت پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ڈرامہ رچارہےہیں اور اگر ایک مہینے کے اندر اندرسب قوم پرست اکھٹے نہیں ہوں گے تو وہ تنِ تنہا حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گےاور اپنے اس عمل کا یہ جواز پیش کریں گے کہ قوم پرستوں نےاتحاداور یکجہتی کے حوالے سے ان کی گذارش پر لیبک نہیں کیا۔ کچھ آزادی پسند قوتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہےبراہمداغ بگٹی انھیں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے “جرم” میں اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں۔
براہمداغ بگٹی کا فیصلہ غلط اور متنازعہ ہوسکتا ہے لیکن جس طرح کا ردعمل چند بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے آیا ہے وہ قوم پرست تحریک میں پائی جانی والی ایک بہت بڑی اور پرانی خامی کی طرف نشان دہی کرتا ہےاور وہ یہ ہے کہ بلوچ ایک دوسرے پر منٹوں ہی میں غداری اور وطن فروشی کے الزامات لگا دیتے ہیں۔
قومی تحاریک صرف جذبات سے نہیں چلتیں۔ایک شخص جو نوسالوں سے کبھی افغانستان اور کبھی یورپ میں جلاوطن رہا ہے غلط یا غیر پختہ سیاسی فیصلے کرسکتا ہے لیکن ان کی محب الوطنی اور قومی تحریک سےوفاداری پر اس بے رحمی سے سوال اٹھاناسراسر غلط ہے۔ بلوچوں کی ایک عادت ہے کہ جب وہ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی پرستش کرتے ہیں اور جب کسی سے بدظن ہوتے ہیں تواسی دیوتا کوعرش سے فرش پر گرادیتے ہیں۔ (یقیناً آپ کہیں گے کہ یہ خامی محض بلوچوں تک محدودنہیں ہے۔ یہ رجحان جنوبی ایشیا میں عام ہے۔اور اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے۔)
ستر کی دہائی میں بلوچ تحریک اسی لئے ناکام ہوئی کیوں کہ رہنماوں کے درمیان غلط فہمیاں اور پھر دوریاں بڑھ گئیں۔ایک دوسرے پر شک و شبہ کیا گیا اور ایک دوسرے کی کمٹمنٹ پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔
آج ایک بار پھربلوچ رہنمااور تنظیمیں اُسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا کہ براہمداغ بگٹی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سےپہلے بلوچ قوم کو چند سوالات کا جواب فراہم کرنا ہے لیکن سیاسی گفتگو سیاسی معاملات پر ہو نا کہ ذاتیات پر۔جب ایک رہنما یا جماعت خود کو دوسروں سے برتر سمجھنا شروع کرتا ہے تو اس سے تحاریک میں خلفشار پیدا ہوتا ہے۔
اگر براہمداغ بگٹی آزادی پسند قوتوں سے اپنا رستہ الگ کرنا چاہتے ہیں توان کےفیصلے کا احترام کیا جائے کیوں کہ جب ہم اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں تو پھر ہم جمہوری یا سیاسی نہیں رہتے۔پچھلے نو سالوں میں براہمدغ نے بلوچستان کے موقف کو عالمی سطح پر آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور تاریخ میں کوئی ان کی یہ خدمات ان سے چھین نہیں سکتا۔ مستقبل میں وہ کون ساراستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا اور مستقبل کے مورخین ان کی اس زندگی کو ایک اور باب میں رقم کریں گے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بلوچستان کی تحریکیں اس لئے کامیاب نہیں ہوئیں کہ رہنماوں نے ایک مقام پر پہنچ کر اپنے اپنے راستے الگ کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاہم تاریخ کے اس موڑ پر ایک بار پھر کھڑے ہیں؟
اس کا تو فی الحال کسی کے پاس جواب نہیں ہے لیکن ماضی میں جب بھی بلوچ تحاریک زوال پذیر ہوئیں تواس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ اہم رہنماوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، آپس میں روابط منقطع ہوئے،ایک دوسرے پر وطن فروشی و غداری کے بدترین الزامات لگائے گئےاور ایک دوسرے کو ’’آئی ایس آئی کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا۔
ملک سراج اکبر واشنگٹن ڈی سی میں مقیم صحافی ہیں