محمدا کمل سومرو
قوم سید، پیشہ آزادی و بے نیازی، حافظے کی قوت بے مثال اور تصور کی طاقت کے حامل،1912ء میں چوبیس سال کی عمر میں الہلال سے اپنی سیاسی و صحافتی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے ابو الکلام آزاد تحریک آزادی کا وہ درخشاں ستارہ ہے جنہوں نے 46سالہ جدوجہد کے دور ران جیلیں کاٹیں، صوبتیں برداشت کیں، انگریز کی عدالتوں میں مقدموں پر پیشیاں بھگتیں، گھرمیں نظر بند رہے لیکن انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں ذرہ بھربھی کمی نہیں آئی۔
مولانا آزاد سے جو مرضی اختلافات ہوں لیکن اُن کی حب الوطنی، دوراندیشی اور اس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق فکر مندی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا آزاد کو پاکستان میں تحریک آزادی کے رہنما کے طور پر متعارف نہیں کرایا جاتا حتیٰ کہ گیارہ نومبر کو اُن کی یوم پیدائش کا دن بھی خاموشی سے گزر گیا اس کی وجہ قوم پرستی کا وہ تصور ہے جس کے تحت دُنیا بھر کی اقوام نے اپنے اپنے قومی لیڈرز بنائے اور پھر انہیں لیڈروں کی سیاسی سوچ کو اپنی نسلوں کے سامنے رکھا۔
مولانا آزاد پر تنقید اپنی جگہ لیکن پاکستان کے بارے میں اور ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں اُن کے خدشات اور پیشین گوئی کو ہم کیسے غلط ثابت کریں جس میں مسلمانوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے گئے تھے، تقسیم ہند سے پہلے اور تقسیم ہند کے بعد کی اُن کی چبھتی ہوئی تقریریں آج ہمیں تروتازہ لگتی ہیں۔
مولانا آزاد کی شخصیت کے بہت رنگ تھے، سیاسی طور پر اُن کا قد کانگریس کا صدر بننے سے لگایا جا سکتا ہے، ہندوستان کی سیاست کی اندرونی کہانیوں پر مبنی کتاب انڈیا ونز فریڈم ، صحافتی خدمات میں اُن کا الہلال، البلاغ ،مذہبی تصورات پر لکھی جانے والی ترجمان القرآن، الفتح پڑھ کر ان کی ذہانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اُن کے یوم پیدائش کے موقع پر خدشات بھری تقاریر کے چند اقتباسات قارئین کے سامنے رکھ کر اُن کی سیاسی و ذہنی پختگی کا اندازہ لگاتے ہیں؛
مولانا آزاد پر انگریز سرکار کی جانب سے جو بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اس کی تفصیلات مولانا آزاد کی کتاب قول فیصل میں درج ہے۔ آزاد جب انگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے تو کہا؛ مجھ پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے، لیکن مجھے بغاوت کے معنی سمجھ لینے دو، کیا بغاوت آزادی کی اس جدوجہد کو کہتے ہیں جو ابھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
اگر ایسا ہے تو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں باغی ہوں لیکن ساتھ ہی یاد دلاتا ہوں کہ اس کا نام قابل احترام حب الوطنی بھی ہے۔ میں موجودہ انگریز حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتا اور اپنا مذہبی، انسانی اور ملکی فرض سمجھتا ہوں کہ اس محکومی سے ملک و قوم کو نجات دلاؤں۔ جب اسلام مسلمانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ ایسی مسلمان حکومت کو بھی منصفانہ تسلیم نہ کریں جو قوم کی رائے اور انتخاب سے وجود میں نہ آئی ہو تو پھر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے اجنبی بیوروکریسی کیا حکم رکھتی ہے؟ اسی عدالت میں آزاد نے کہا تھا کہ دُنیا میں سب سے زیادہ ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔
مولانا آزاد نے 23مارچ1942ء کو دہلی دروازہ لاہور میں اپنے خطاب میں کہا کہ اب دُنیا کی قوموں کو غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا، جنگ عظیم دوئم جب بھی ختم ہوگی، برطانیہ عظمیٰ، عظمیٰ نہیں رہے گا، ہندوستان بھی آزاد ہوگا اور ایشیاء و افریقہ کے دوسرے ملکوں کو بھی آزاد کرنا ہوگا۔ برطانیہ محض انگلستان تک محدود رہ جائے گا۔
میں آنے والے زمانے کو کمزوری اور تذبذب سے نہیں دیکھتا بلکہ عزم، ہمت اور حوصلہ سے دیکھ رہا ہوں، جو قوم اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہ ہو، اس کو تحفظات نہیں بچا سکتے، مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے اگر دس کروڑ کے بجائے مسلمان دس لاکھ بھی ہوتے اور ان کے دل میں یہ خیال ہوتا کہ وہ مرنے کے لیے نہیں، زندہ رہنے کے لیے ہیں، تو کوئی قوم ان کو نہیں مٹا سکتی۔ ہندوستان میں آباد اتنی بڑی مسلمان تعداد کو اقلیت قرار دینا اور ان کے لیے اقلیتی حقوق اور اقلیتی علیحدگی کا مطالبہ کرنا، نہ صرف بزدلی ہے بلکہ ان کے شاندار مستقبل کے لیے تباہ کن ہے۔
مولانا آزاد نے متحدہ ہندوستان کا تصور پیش کیا تھا اور وہ اسی تصور کے تحت انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے، اُن کے خیال میں ہندوستان تقسیم ہوا تو پھر بھارت اور پاکستان کے مسلمان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا، مسلمان کی طاقت تقسیم ہوجائے گی اور وہ سیاسی طور پر محکوم ہوجائیں گے اسی تصور کے تحت وہ انگریزوں کے خلاف سیاسی جنگ لڑ رہے تھے۔
مولانا آزاد سوچتے تھے کہ کیا ہندو مسلم بنیاد پر، ملک کی تقسیم کے بعد، ہندوستان میں مسلمانوں کا ملی وجود، ان کا مذہب، ان کی دینی تعلیم، ان کی معاش و معیشت محفوظ رہ سکیں گے؟ کیا اسلام کے نام پر پاکستان بن جانے کے بعد، بقیہ ہندوستان میں ہندو مذہب کو مکمل غلبہ و تسلط حاصل نہیں ہوجائے گا؟ اور ہندوستان میں خالص ہندو راج کا قیام عمل میں نہیں آجائے گا؟
ہندوستان دو ریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا، ایک ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت، دوسری میں ہندو اکثریت۔ ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زائد ہوگی اور وہ چھوٹی چھوٹی اقلیتوں میں پورے بھارت میں بکھر کر رہ جائیں گے، صنعتی، تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پسماندہ ہوں گے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے جو خالص ہندو راج بن گئی ہوگی۔ پاکستان میں خواہ مسلمانوں کی مکمل اکثریت کی حکومت ہی کیوں نہ قائم ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہرگز حل نہیں ہوگا۔
مولانا آزاد نے 27دسمبر1947ء کو لکھنوء میں خطاب کے دوران کہا کہ پندرہ اگست سے پہلے کی رائے کوہی اب قائم رکھا گیا تو دونوں ملک قومی زندگی کونہیں بچا سکتے اس رائے پر جو ضد کرتا ہے وہ ملکی بربادی کی اینٹیں چنتا اور دیواریں اُٹھانا چاہتا ہے۔ کوئی جماعت جو سیاسی نظام میں فرقہ بندی کی بناء پر قائم ہو، موجود نہیں رہنی چاہیے کہ سیاسی میدان میں فرقہ پرستی ملک کے لیے بھی اور ملت کے لیے زہر قاتل ہے۔
اسی طرح آزادی ہند کے بعد مولانا آزاد نے اس تقسیم پر اپنے خدشات کا اظہار یوں کیا؛ کیا پاکستان کے قیام سے، فرقہ وارانہ مسئلہ حل ہوگیا؟ کیا یہ مسئلہ اب پہلے سے زیادہ شدید اور ضرر رساں نہیں بن گیا ہے۔ جب تقسیم کی بنیاد ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافرت آئینی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل مزید مشکل ہوگیا ہے۔ برصغیر دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو نفرت و ہراس کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔
مولانا آزاد نے 1948ء میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان اسے اطمینان سے جینے نہیں دے گا اور جب بھی اسے موقع ملے گا وہ اسے نیست و نابود کر دے گا، ہندوستان کو بھی یہ ڈر ہے جب بھی پاکستان کو موقع ملا وہ اس پر حملہ کر دے گا۔ اس طرح دونوں ملک خوف وہراس کے تحت اپنا فوجی خرچ بڑھاتے رہنے پر مجبور ہوں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلیں جائیں گے۔ کیا آج دونوں ممالک دفاعی اخراجات ہر سال نہیں بڑھا رہے؟
متحدہ پاکستان پر مولانا آزاد کی دو ٹوک رائے تھی جس پر اُنہوں نے آزادی کے فوری بعد ہی کہا کہ برصغیر میں مسلمان اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ صرف ایک ہی علاقہ ان کی جداگانہ ریاست کا قیام ممکن نہیں تھا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں جغرافیائی، معاشی، لسانی اور معاشرتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں محض مذہبی یگانگت کی بناء پر یہ اکٹھے نہیں رہ سکتے یہ محض فریب دہی اور خود فریبی سے کم نہیں ہے۔ مولانا آزاد کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔(مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش بن چکا ہے)۔
صرف یہی نہیں بلکہ مولانا آزاد نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ کون توقع کر سکتا ہے مغربی پاکستان کے اندر سندھ، پنجاب، سرحد ، بلوچستان اپنے اپنے جداگانہ مفادو مقاصد کے لیے کوشاں ہوں گے؟ تو کیا آج کل بلوچستان اور سندھ میں قوم پرستی کی تحریکیں آج مولانا آزاد کو سچ ثابت کرنے پر چل رہی ہیں؟
مولانا آزاد ہند و مسلم اتحاد کے داعی تھے، اُن کے نزدیک ہندو مسلم اتحادکو آزادی پر بھی فوقیت حاصل ہے گویا فرماتے ہیں کہ؛ اگر بادلوں سے اُتر کر ایک فرشتہ قطب مینار کی چوٹی پر کھڑا ہوجائے اور یہ اعلان کرے کہ ہندوستان کو آزادی آج ہی مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں آزادی سے دستبردار ہو جاؤں گا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو نہیں چھوڑوں گا کیونکہ اگر ہمیں آزادی نہ ملی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد قائم نہ رہ سکا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔
یورپ نے جب نیشنلزم کا نعرہ لگایا تو مولا نا آزاد نے واضع طور پر کہا کہ ؛ نیشنلزم اور اسلام کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے ایک مسلمان اپنی اسلامیت پر فخر کے ساتھ اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرسکتا ہے۔
آج ہمیں مولانا آزاد کے سیاسی تصورات کا مطالعہ غیر جانبدارانہ سوچ کے تحت کرنا ہوگا تاکہ مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں جو کہا ان سے بچنے کی تدبیر کی جاسکے۔مولانا آزاد کی باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔
مولانا آزاد نے اپنی آخری کتاب انڈیا ونزفریڈم میں کہا کہ بہرکیف پاکستان کی نئی ریاست ایک حقیقت ہے، اب دونوں ریاستوں کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائیں اس کے خلاف پالیسی بنائی گئی تو زبردست نقصان کا باعث ہوگی۔
♣
2 Comments