پیر کے روز ہزاروں افراد میانمار کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی اپوزیشن جماعت کے دفتر کے باہر جمع جشن منانے میں مصروف ہیں، جہاں ہر آتے لمحے گزشتہ روز کے انتخابات میں سوچی کی جماعت واضح برتری لیتی جا رہی ہے۔
آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے مرکزی دفتر کے باہر بڑی بڑی ٹی وی اسکرینز لگائی گئی ہیں، جن پر سوچی کی تصاویر جھلملاتی نظر آتی ہیں اور جب سرکاری طور پر کسی پارلیمانی نشست کا اعلان ہوتا ہے، تو وہ نتیجہ بھی عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
میانمار میں اتوار کے روز منعقد ہونے والے تاریخی عام انتخابات مجموعی طور پر پرامن رہے اور کسی بھی مقام پر بے ضابطگی کے کسی بڑے واقعے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ گزشتہ روز ہونے والے ان انتخابات کے نتائج سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم اپوزیشن جماعت کو یقین ہے کہ وہ بھارتی اکثریت سے یہ انتخابات جیت چکی ہے جب کہ حکمران جماعت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرے گی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق میانمار کے دستور کے تحت ملکی پارلیمان کی 25 فیصد نشستیں فوج کے لیے مخصوص ہیں اور ایسی صورت میں ملکی میں جمہوری اصلاحات اور تبدیلیوں کے لیے سوچی کو دوتہائی اکثریت کی ضرورت تھی، جو شاید انہیں مل جائے گی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ میانمار میں جمہوریت پسندوں کے خیال میں سوچی کے برسراقتدار آنے سے اقتدار پر ملکی فوج کی گرفت کسی حد تک کمزور پڑ سکے گی اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتری پیدا ہو گی۔
یہ بات اہم ہے کہ میانمار گزشتہ نصف صدی سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر فوجی آمریت کا شکار رہا ہے اور گزشتہ روز ہونے والے انتخابات پچھلے 25 برسوں میں منعقد ہونے والے پہلے آزاد انتخابات تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ابتدائی 16 نتائج سامنے آ چکے ہیں، جن میں 15 نشستوں پر سوچی کی جماعت کو کامیابی حاصل ہو چکی ہے اور اب واضح تاثر یہی ہے کہ یہی رجحان تمام نشستوں کا مستقبل ہو گا۔ ایسے میں حکمران جماعت کے حامی بھی اس امید کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ سوچی کے برسراقتدار آنے سے عام افراد کی زندگیوں میں بہتری پیدا ہو گا۔
خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ یوں تو پورے ملک میں جشن کا سا سماں ہے، تاہم ینگون میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ہیڈکوارٹرز کے باہر انتہائی جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ ان انتخابات کے تمام نتائج منگل تک متوقع ہیں۔
مبصرین کے مطابق اب اگر اقتدار کی پرامن منتقلی کا مرحلہ بھی طے ہو جائے تو میانمار کی تاریخ کا یہ ایک یادگار لمحہ ہو گا، کیوں کہ سن 1990 میں بھی آنگ سان سوچی نے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی، تاہم فوج نے نتائج مسترد کرتے ہوئے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔
DW