مصطفیٰ کریم
نجیب محفوظ ۔۔۔1911-2006
نجیب محفوظ کا ۹۵سال کی عمر میں انتقال ہو گیا اور اس کے ساتھ ادب کی وہ توانا ترین آواز خا موش ہو گئی جو نہ صرف مصر یا عرب ممالک بلکہ تمام دنیا کے ادبی حلقوں میں مقبول رہی تھی۔ لیکن نجیب محفوظ کی وہ صدا ہمیشہ سنی جا ئے گی جو انکے تمام ناولوں اور افسانوں میں گونجتی رہی ہے ۔
گو دنیا کی تا ریخ میں بہت ساری تواریخ ندیوں کی طرح بہتی رہتی ہیں اور ہر انسان کا رشتہ دنیا کی تا ریخ سے ضرور ہوتا ہے لیکن وہ تاریخ جس سے وہ نام و نسب اور رسم و رواج قبول کرتا ہے اس سے ایک مخصوص قربت ضرور ہو تی ہے ۔ اسی لئے اردو دنیا کی اکثریت کو نجیب محفوظ اور ان کے ادب کے لئے ایک مخصوص اپنا پن ضرور محسوس ہوگا۔
گو اب ترقی پسند تحریک کو مطعون اور معتوب کیا جا تا ہے اور اجتماعی سطح پر اس کی موت کی خبر دی جا تی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ترقی پسند ادیبوں نے زندگی اور معاشرے کے جن اقدارکو اپنی تخلیق کا عنوان بنا یا وہی نجیب محفوظ کو بھی عزیزتھے اور اس طرح ان کی آرزو اور تمنا ئیں بھی وہی تھیں جو ترقی پسند ادیبوں کی رہی ہیں۔
نجیب محفوظ ۱۹۱۱ء میں قاہرہ کے اس متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس کی اقامت قدیم قاہرہ کے جمالیہ نام کے محلے میں تھی ۔ جہاں نام کے بر خلاف تنگ گلیاں اور نیچی چھتوں والے اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے مکانات تھے ۔ جس طرح فیض کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر گرتی چاندنی سے تخیل میں جلا ملی ۔ نجیب محفوظ کو اپنے محلے ہی سے فکر کی روشنی ملی اور ان کی بہترین تصانیف میں اسی محلہ اور اسکی گلیوں کا عکس ہے۔ ان کی تعلیم کی ابتدا مدرسہ سے ہوئی جہاں انھوں نے دین اور قرآن کی تعلیم حا صل کی پھرانھوں نے ان اسکولوں میں پڑھا جہاں عربی ادب سے کامل واقفیت انھیں ہوئی۔ بعد میں قاہرہ یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری لی لیکن ادیب بننے کی دھن میں ایم اے نہیں کیا ۔ تخلیقی سر گرمیوں کی وجہ سے انھوں شادی تا خیر سے تینتالیس سال کی عمر میں کی ۔
عربی ادب کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ انیسویں اور اٹھارہویں صدی کے یورپ میں جس طرح ناول کا فن ارتقا پذیرتھا اس طرح کی کوئی رویئت عربی زبان میں نہیں تھی ۔ جب مصر پر بر طانیہ کی حکومت ہوئی تو جہاں غلامی کی ذلتیں مصریوں کو نصیب ہوئیں وہا ں یورپ کے فنون سے بھی مصریوں کو واقفیت ہوئی اور ادیبوں کی توجہ ناول نگاری کی جانب ہوئی اور محمد حسین ہیکل نے زینب نام کا ناول ۱۹۱۳ء میں تصنیف کیا ۔ اسکے بعد نجیب محفوظ کی ناول نگاری ۱۹۳۹ء سے شروع ہوئی ۔
ان کے ناولوں کا پہلا دور۱۹۴۴ء تک رہا ۔ اس پورے دور میں مصر کی قدیم تا ریخ ان کے ناولوں میں اس طرح نمایا ں ہوئی کہ قاری کو غلامی کی ذلت اور آزادی کی اہمیت کا احساس ہوا۔ خاص کر وہ ناول جس کا عنوان ’’تھیبس کی جدو جہد تھا ‘‘ اسے غیر معمولی مقبولیت ملی ۔ اس ناول میں ایک قوم پرست فرعون دلیر مصریوں کے ساتھ اسکوس قوم کے ان حکمرانوں کو مار بھگا تا ہے جس کی حکومت مصر پر ڈیڑھ سو سال تک رہی تھی۔
یہ ناول اس وقت بر سر عام آیا تھا جب کہ مصر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ اس لئے مصریوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ ناول نگار انھیں غلامی کے طوق کو نکال پھینکنے کے لیے للکار رہا ہے ۔ گو بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ نجیب محفوظ کے تاریخی ناول والٹر اسکاٹ سے متا ئثر تھے ۔ لیکن اس نکتے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ نجیب محفوظ جس قسم کی تحقیق کے بعد تا ریخی ناول تحریر کر رہے تھے وہ انھیں ٹا لسٹائی کے قریب لاتی ہے ۔ ٹالسٹائی نے جنگ و امن نام کا عظیم ناول لکھنے سے پہلے اس دور کی تاریخ اور جنگوں کا گہرا مطالعہ کیا جب نپولین نے روس پر حملہ کیا تھااس کے علاوہ جنگ کے میدان میں بھی جا کر قیام کیا اور جنگ کا نقشہ اپنے ذہن میں بنایا۔
جس سماجی حقیقت پسندی کا آغاز اس دور کے ناولوں میں نجیب محفوظ نے کیا تھا وہ اپنے نقطہ ءِ عروج پر ان ناولوں میں پہنچی جسے مصنف نے ۵۶ء ،۵۷ء میں تحریر کیا اور جو قاہرہ ٹرائیولوجی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان ناولوں کے نام ہیں محل میں خراماں،خواہشوں کا محل اور شکر کا بازار۔ ان تین ناولوں میں نجیب محفوظ نے عبدالجواد نام کے فرد کی تین نسلوں کی زندگی کے اس نشیب و فراز کو پیش کیا ہے،جو ۱۹۱۷ سے شروع ہو تا ہے اور دوسری جنگ عظیم سے کچھ پہلے ختم ہو جا تا ہے۔
ان ناولوں کے پندرہ سو صفحات پر ان نسلوں کی جو تفصیل دی ہے اور تمام جزویات کا جو بیان ہے وہ صرف تین نسلوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ مصر کا جو معاشرہ مٹ رہا تھا اور جو اقدار گم ہوتے جا رہے تھے اور ساتھ ہی اسلامی بنیاد پرستی کا جس طرح آغاز ہو رہا تھا ،ان کی بھی مو ئثر روداد ہے ۔ ان ناولوں میں اس وقت کی معاشرتی اور سیاسی برائیوں کے علاوہ ملک کی سیاسی، مذہبی ،معاشرتی اور دانشوری کی تا ریخ بھی ہے ۔ ان ناولوں سے مصنف کی ناول نگاری کا نہ صرف دوسرا دور شروع ہوا بلکہ مصر اور عرب دنیا میں نجیب محفوظ کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب بھی ہوا۔ ان ناولوں کے انگریزی تراجم بھی ہاتھوں ہاتھ لئے گئے ۔ امریکہ میں ان کی دولاکھ جلدیں فروخت ہوئیں ۔
پا کستان میں جدید یت کے ایک ادیب نے اپنے کسی مضمون میں ان ناولوں کا حوالہ دیتے ہوئے نہ صرف اس کی اہمیت سے انکار کیا بلکہ چند تحقیری جملے بھی لکھے ۔ ظاہر ہے مصنف کے سامنے ناول کی وسعت اور گہرا ئی کا کوئی نظریہ نہیں تھا ورنہ وہ ایسی بات نہیں لکھتے ۔ گو شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی کو سماجی حقیقت پسندی سمجھا جاتا ہے اور وہ بہت مقبول بھی ہوا ہے،لیکن اس میں جزویات کا نہ وہ حسن ہے اور نہ ہی معاشرے کے تغیر کا موئثر منظر نامہ ہے اور نہ ہی وہ اہم موضوع ہیں جنھیں میں نے اوپر لکھا ہے ۔ اور احمد علی کا اعلی ٰ ناول’’دلی کی شام ‘‘ ( گو یہ ناول پہلے انگریزی میں لکھا گیا تھا ،لیکن اردو میں اس کے ترجمے کا منفرد مقام ہے) میں بھی سماجی حقیقت پسندی ہے ۔
لیکن اس میں معاشرے کا تغیر بس اسی حد تک ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے کسی سلف کو معذور فقیر دکھایا گیا ہے ۔ اور وہ فکری انحطاط جس کا شکار اسلامی معاشرہ رہا ہے اس کی جانب ہلکا سا بھی اشارہ نہیں ہے ۔
جن ناولوں کا اوپر میں نے ذکر کیا ہے انھیں لکھنے کے بعدایک طویل مدت تک نجیب محفوظ کی کوئی اہم تخلیق منظر عام پر نہیں آئی ۔ اس کی وجہ جمال عبدالناصرکی حکومت سے ان کابد دل ہونا تھا ۔ ۵۱ء میں جمال عبدالناصر نے انقلاب لانے کے بعد جس حکومت کا آغاز کیا تھا وہ اس سماجی ڈھانچے کو نہیں ختم کر سکی تھی جو مصر کی تمام بد عنوانیوں کی جڑ تھا ۔ اس لئے نجیب محفوظ کی نا امیدی اور اداسی کی وجہ سمجھی جا سکتی ہے ۔ اسلامی دنیا کے وہ ادیب جو اپنے ممالک کی سیاسی اور معاشرتی زوال سے آزردہ رہتے ہیں، وہ اس کی وجوہات پر غور بھی کرتے ہیں ۔ اس تنزلی کی سب سے بڑی وجہ مذہب اسلام اور سیاست کو ایک قرار دینا ہے ۔ نجیب محفوظ نے بھی اسلامی ملکوں کی تنزلی کی وجہ یہی سمجھا ۔ دوسرے دو بڑے مذاہب یعنی صیہونیت اور عیسائیت کی بابت بھی ان کی رائے مختلف نہیں تھی ۔
اس فکر کا اظہار نجیب محفوظ نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’ہماری گلی کے بچے‘‘ میں کیا ۔ کتاب میں خدا کے لئے آدھم کا نام استعمال کیا ۔ اور اوپر لکھے گئے تینوں مذاہب کے پیغمبروں کو مقدس افراد کے بجائے تشبیہ اور استعارے کے ذریعہ عام انسان بنا کر پیش کیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ یہ لوگ محض سماجی ترمیم پسند تھے۔ ناول میں ایک کردار سائنس بھی ہے جسے مصنف نے معاشرے کا نجات دہندہ بتا یا لیکن بعد میں یہ بھی تحریر کیا کہ جب یہ طاقت کا مطیع بن جاتا ہے پھر اس کی ساری حکمت ختم ہو جاتی ہے اور آخر کار انسان کوڑے کرکٹ میں اپنی نجات تلاش کرنے لگتا ہے ۔
آج کی کنزیومرازم اور سرمایہ داری کی چوہے کی دوڑ سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب نے مصر کے مذہبی ادارے میں تہلکہ مچا دیا ۔ اور تمام ہی بنیاد پرست مسلمان نجیب محفوظ کے دشمن بن گئے ۔ یہاں تک کہ ان پر اکتوبر ۱۹۹۴ء میں ایک بنیاد پرست نے قاتلانہ حملہ کیا ۔ جس کی وجہ سے ا ن کی گردن پر جو زخم آیا اس نے ان کے دائیں ہاتھ کو نیم مفلوج کر دیا۔ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ قاہرہ کی جامعہ ازہر نے اس کتاب کو ضبط کرنے کا حکم صادر کردیا ۔ یہ وہی جامعہ ہے جس کے ایک ریکٹر یا سر براہ نے عورتوں کے ختنہ کو کچھ عرصہ پہلے جا ئز قرار دیا تھا ۔گو نجیب محفوظ کی یہ کتاب آسانی سے مصر میں دستیاب نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے انگریزی تراجم مل جاتے ہیں ۔
اس ناول کے ساتھ نجیب محفوظ کی ناول نگاری کا تیسرا دور شروع ہوا اور ساتھ ہی جس مخصوص اسلوب کو انھوں نے اس کتاب میں استعمال کیا وہ ان کی بعد کی کتابوں میں بھی نظر آیا۔ یعنی چنیدہ اور بے ربط واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر مکمل ناول بنانا ۔ دانشوروں نے اسے ایپی سوڈک ناول قرار دیا ہے ۔ نجیب محفوظ کے وہ ناول جو تیسرے دور کے مانے جاتے ہیں۔ ان میں Impressionism & Surrealism اور شعور کی رو ممتاز ترین اسلوب نمایاں ہوئی۔
اس دور میں زیادہ تر ناول مختصر تھے اور ان میں بجائے معاشرے کے فرد کی ذہنی کیفیت کس طرح ارد گرد سے متا ئثر ہوتی ہے،موضوع بنی ۔ ساتھ ہی ان ناولوں میں اعلی ٰ اور ارفعٰ معنی کی نشاندہی تھی ۔ ۱۹۶۷ء میں مصر اور اسرائیل کی جنگ میں مصر کو جو شکست ہوئی اس نے نجیب محفوظ کو بھی شدید غم میں مبتلا کر دیا اور انھوں نے بے شمار ایسی تحریریں لکھیں جو غیر اہم ثابت ہوئیں ۔ لیکن ان غیر اہم تحریروں میں بھی دو ناول مقبول ہوئے ۔ ان کے نام ’’صرف ایک گھنٹہ باقی ہے ‘‘ اور ’’جس دن رہنما کا قتل ہوا‘‘ ہیں ۔
مصر کی شکست کے المیے کے بعد نجیب محفوظ اپنی تخلیق کے ذریعہ قاری کو عوام کی بے سمتی اور کسی عظیم مقصد کے فقدان کی بابت آگاہ کرنے لگے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ادب میں جو اعلے ٰ مقام حاصل کر چکے تھے،اس کی وجہ سے انھیں ۹۸۸اء میں ادب کا نوبل پرائز ملااور وہ بھی دنیا کے عظیم ادیبوں میں شمار کئے جانے لگے ۔
جب نجیب محفوظ کی تخلیق کا چوتھا دور شروع ہوا تو اس میں انھوں نے کلاسیکل عربی ادب اور لوک کہانیوں پر اپنے فن کو استوار کیا ، اور جو ناول اور مختصر افسانے تخلیق ہوئے وہ مشہور ہوئے ۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا اس میں سیاسی اور سماجی امور پر انکی گہری نگاہ رہی اور انھوں نے یہی کہا کہ انسان کو بیگانہ خدا کی تلاش میں زندگی گذارنے کی بجائے اپنی اور دوسرے انسانو ں کی زندگی کو بہتر بنانے کی جہد ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے ۔
جن دانشوروں نے نجیب محفوظ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نجیب محفوظ نے اپنی ساری تخلیق میں اس تاریکی اور نا امیدی کو ظاہر کیا جنھیں انھوں نے اپنے معاشرے میں دیکھا اور سماجی برابری کا جو تصور ان کے ذہن میں تھا وہ یو ٹوپیا ہی رہا ۔ اسلامی ممالک میں یہی نظر آتا ہے اور دنیا کے جو حالات ہیں وہ مختلف نہیں ۔ لیکن ایک بڑا ادیب اپنے فن میں بس اتنا ہی کر سکتا ہے ۔شہرت یافتہ اور اپنی کتابوں کی فروخت سے مالی اعتبار سے آسودہ ہونے کے باوجود ان کی زندگی ہمیشہ سادہ رہی۔
One Comment