ارشدمحمود
اس سال جس شخصیت کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے، وہ ایک روسی ادیب ہے۔ الیکسی وچ 1948 میں یوکرین میں پیدا ہوئی۔ وہ کہتی ہے، میں اس دنیا کو سننا اور دیکھنا چاہتی تھی۔۔بہت قریب سے۔۔چنانچہ میں نے سوچا۔۔۔اس دنیا کو سننے اور دیکھنے کے لئے براہ راست انسانوں کو سننا اور دیکھنا سب سے بہترین وسیلہ ہے۔
یہ دنیا اور انسان بہت ہی مختلف شکل اور متنوع ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ انسان کی اسراریت کو جانچنے کے لئے بجائے کسی ڈاکومنٹری پر انحصار کیا جائے، کیونکہ براہ راست انسانوں سے باتیں کی جائیں۔ اور وہ کچھ سنا جائے، جو ان پر گزرتی ہے اور جو وہ محسوس کرتے ہیں۔ تب ہی ہمیں زندگی کی حقیقی کہانی مل سکتی ہے۔جب آپ براہ راست لوگوں کی کہی باتیں لکھتے ہیں، تو آپ بیک وقت ادیب، رپورٹر، ماہر نفسیات، ماہر سماجیات بن جاتے ہیں۔
الیکسی وچ نے اسکول کے زمانے میں ہی مضامین اور شاعری لکھنی شروع کردی تھی۔ 1983 میں اس نے کتاب مکمل کی، جس کا عنوان تھا، ‘جنگ کا غیرنسوانی چہرہ۔ اس نے جنگ عظیم دوم کے دوران عورتیں جن مصائب سے گزریں اور ان کے ساتھ جو کچھ بیتا۔۔اس کی براہ راست رووداد عورتوں کے انٹرویو لے کر ترتیب دی۔
لیکن سوویت یونین کی سوشلسٹ حکومت کے دور میں اس کی اشاعت ناقابل قبول تھی۔ الیکسی وچ پر الزام لگایا گیا کہ وہ امن پسند، صلح جو، فطرت پسند، اور ‘سوویت عورت‘ نے جنگ کے دوران جو ‘بہادرانہ‘ کردار ادا کیا ۔۔ ان کے آلام و مصائب کا ذکر کرکے اس کی شان کو کم کررہی ہے۔۔ ریاستی آئیڈیالوجی کا تقاضہ ہوتا ہے۔ سب اچھا اور خوبصورت کرکے بتایا جائے۔جس طرح پاکستانی درسی اور تاریخ کی کتابوں میں سب اچھا کرکے بتایا جاتا ہے۔ زندگی اور انسانوں کے بدنما پہلووں کو چھپایا جائے۔
سوویت یونین کی سوشلسٹ پارٹی کی آمرانہ اقتدار میں جب کسی پر ‘انقلاب دشمنی یا سوشلسٹ دوشمنی‘ کا الزام لگتا تھا۔۔۔تو پھر اس کی خیریت کم ہی رہ پاتی تھی۔ بیلا روس کی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے اس کا کتابت شدہ مسودہ ضائع کرنے کا حکم جاری کیا۔ اسے حکومت دشمن کہا گیا، اور اس کی ملازمت چھیننے کی دھمکی دی گئی۔ اس کو کہا گیا، ” تم کیسے جرات کرسکتی ہو، ہمارے ہی رسالے میں کام کے دوران اس میں اجنبی مواد شائع کرو۔۔اور تم ابھی تک کمیونسٹ پارٹی کی ممبر کیوں نہیں بنی؟“
جب گوربا چوف کا پرائسٹرئکا آیا، تو اس کی کتاب چھپی۔۔۔اس کتاب کی مقبولیت کا یہ حال ہوا۔۔۔کہ کچھ ہی عرصے میں 20 لاکھ کتابیں بک گئیں۔ چونکہ وہ لوگوں کے دلوں کی آواز تھی۔۔پھر اس نے 100 غیر طفلانہ کہانیاں
The Last Witnesses: 100 Un childlike Stories
, کے نام سے ایک کتاب چھاپی، اس میں بھی ان لوگوں کی حقیقی کہانیاں تھی۔ جو جنگ کے دوران بچے تھے۔ اسے بھی سوویت دور میں چھپنے نہ دیا گیا تھا۔
پھر الیکسی وچ کی کتابوں پر تھیڑ ڈرامے اور فلمیں بھی بنی۔ 1989 میں سوویت افغان جنگ میں الیکسی وچ 4 سال تک افغانستان جاتی رہی، اور جنگ میں شریک فوجیوں، ان کے خاندانوں کے انٹرویو لیتی رہی۔ جن کے رشتے دار اس جنگ میں کام آئے۔
ادھر سوویت یونین کی حکومت میں افغانستان جنگ کی خبروں پر سخت سنسر لگائے رکھا، تاکہ عوام کو پتا ہی نہ چلے، کہ اصل مالی اور جانی نقصانات کتنے ہورہے ہیں۔ یہ کتاب بھی سوویت یونین میں ایک بم کی طرح گری۔ سوویت فوج اور کمیونسٹ پارٹی کے لڑیچر میں الیکسی وچ کے خلاف لکھا گیا۔ لیکن جمہوریت پسند لوگ الیکسی وچ کا دفاع کرتے رہے۔
سوویت یونین کے گرنے کے بعد الیکسی وچ نے ایک اور کتاب لکھی ، وہ ان لوگوں کے بارے میں تھی، جو کمیونسٹ کاز پر نیک نیتی سے یقین رکھتے تھے۔سوشلسٹ یونین کے اچانک اسقاط پر فرسٹریشن میں آ کر خودکشیاں کرلیں۔ ان کے لئے یہ صدمہ ناقابل قبول تھا۔ ایک اتنا عظیم مہابیانیہ چند دنوں میں تاش کے پتوں کے گھر کی طرح گر کر تاریخ کے بلیک ہول میں چلا گیا۔
دین، مذہب، مہا نظریئے۔۔۔جب ان کے بارے اچانک پتا چلے۔۔کہ وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔ محض ایک خیالی واہمہ (یوٹوپیا) تھا۔۔۔ایسے ہی اسے سنوارا گیا تھا۔۔ان میں آرزووہیں شامل کی گئی تھی۔ ان کی تاریخی ،مادی زمینی بنیادیں نہ تھی۔ وہ صرف ایک ‘ایمان‘ تھا۔ تاریخ زیادہ دیر ایمانوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔۔۔ کہ وہ ٹھوس مادی قوانین پر چلتی ہے۔
الیکسی وچ کا کہنا ہے، ” اگر آپ ہماری تاریخ کو دیکھیں، سوویت یونین اور اس کے بعد کی، تو وہ آپ کو ایک بہت بڑے قبرستان کی طرح اور خون آلود ملے گی۔ایک ابدی ڈائلاگ چلتا نظر آتا ہے۔۔۔مارنے والوں اور مرنے والوں کے بیچ۔۔۔۔”