عظمیٰ اوشو
لاہور میں اورنج ٹرین کے لیے سرمایہ تعلیم اور صحت کے شعبہ سے نکالا گیا ہے کیا یہ جرم کے زمرہ میں نہیں آتا ۔
پچھلے دنوں ایک مقتدر ادارے کے ذمہ داران کی طرف سے اس بیان نے کہ نیشنل ایکشن پلان کو کا میاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن کاخاتمہ کیا جا ئے اور گڈ گورننس کے قیام سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے ۔اس بیان سے ایک نئی بحث کاآغاز ہو گیا ہر ایک نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق نتائج اخذ کیے۔
میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتی کہ بیان دینے والوں کی نیت یا ارادے کیا ہیں میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ جس معاشرے میں کلرک بابو سے لے کر اوپر تک سب ہی کر پشن کے سمندر میں غوطہ زن ہوں وہاں ترقی اور امن کے خواب دیکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ۔مگر کیا یہاں یہ سوال بھی جنم نہیں لیتا کہ کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے بلا امتیاز احتساب کی ضرورت ہے یا احتساب کو صرف کراچی اور سندھ تک ہی محدود کر کے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم کرپشن اور نا انصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے؟یقیناًنہیں کیااحتساب صرف کراچی میں فیکٹری کو نذر آتش کرنے والوں کا ہی ہونا چاہیے یا ماڈل ٹاون لاہور کے ذمہ داران کو بھی کٹہرے میں آنا چاہیے ۔
پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کی پیش کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ڈاکے اور چوریاں پنجاب میں ہوئیں کیا اس رپورٹ کو نظر انداز کر دینا چاہیے ۔کیونکہ ہم چاہتے ہیں احتساب صرف کراچی اور سندھ میں ہونا چاہیے ۔ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ امر تسر میں میٹرو ۹ ارب کی جبکہ پنجاب میں 30 ارب کی بنتی ہے ہمیں تو پنجاب حکومت کے اس کارنامے پر بھی واہ واہ ہی کرنی چاہیے ۔علامہ اقبال یونیورسٹی میں 86 کروڑ 65لاکھ کے گھپلے کوبھی نظر انداز کر دینا چاہیے اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے گھپلے پر بھی خاموشی ہی اختیار کرنی چاہیے ،رائے ونڈ کی سیکورٹی پر پنجاب حکومت نے 37کروڑ روپے جاری کر دیے اس پر بھی خادم اعلیٰ کو شاباش ہی دینی چاہیے ۔
ہمیں تواس پر بھی خوشی کے گیت گانے چاہیے کہ پنجاب حکومت نے اپنے پسندیدہ اورنج ٹرین پراجیکٹ اور میٹرو بس کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبہ سے 10ارب نکالے گئے ۔باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ کا نیشنل پروگرام ہمیں صحت کے شعبہ میں ہمیں 177ممالک میں سے ہمیں 146 ویں نمبر پر رکھتا ہے اور لٹریسی ریٹ میں ہمیں دنیا میں 159 نمبر دیا گیا ہے مگر خادم اعلیٰ کو تو اورنج ٹرین چلانی ہے ۔اسی اورنج ٹرین کے لیے پنجاب حکومت نے ایک چینی کمپنی سے معاہدہ کیا تھا مگر چینی کمپنی سے لیا گیا پیسہ کیا ہوا کوئی نہیں جانتا اور اب سارا پیسہ پنجاب حکومت نے خود خرچ کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس کے لیے سارا پیسہ تعلیم اور صحت کے شعبہ سے نکالا گیا ہے کیا یہ جرم کے زمرہ میں نہیں آتا ۔
اسی طرح مالی سال 2014.2015 میں قبرستانوں کی بحالی اور تعمیر کے لیے 748 اسکمیں منظور کی گئیں تھیں جس کے لیے ایک ارب کی ضرورت تھی مگر خادم اعلیٰ نے یہ رقم بھی اپنے من پسند منصوبے کے لیے مانگ لی ۔ نندی پاور پراجیکٹ منصوبہ پر بھی یہی سوالیہ نشان ہے کیا اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت ضروری ہے کہ بلا امتیاز احتساب ہو اور اس کا دائرہ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ افسر شاہی اور اعلیٰ اداروں تک پھیلنا چاہے ،احتساب ان پراپرٹی ڈیلروں کا بھی ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی لوٹ مار پر مقتدر اداروں کی مہر لگا رکھی ہے ۔
جہاں تک بات ہے نیشنل ایکشن پلان کی تو اس کہ صرف مالی کرپشن کے ساتھ جوڑنا 100 فیصد درست نہیں ہے اس کے دیگر عوامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ بد نصیبی سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بے پناہ وجوہات ہیں میری ناقص عقل کے مطابق خارجہ پالیسی پر داخلہ پالیسی کا اثر انداز ہونا ہے ایک بڑی وجہ ہے ۔ہم ابھی تک دوست کون ہے ،ہمسایہ کون ہے ،اور مفاد پرست کون ہے میں تمیز ہی نہیں کرسکے ،ہم اپنے نام نہاد بھائیوں کو آج تک روک نہیں پائے کہ وہ ہماری سر زمین کو اپنی پراکسی وار کے لیے استعمال نہ کریں۔ ہمارے حکمران ان متبرک ہستیوں سے نظریں جھکا کر ملتے ہیں۔
ہم آج بھی خیرات میں ملے چند مفادات کی خاطر اپنے وسیع تر مفادات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہمارا سسٹم آج بھی اسلام آباد میں بیٹھے مولانا عزیز کو دہشت گرد ماننے کو تیار نہیں ۔ہم آج بھی اسے قیمتی اثاثے کے طور پر بچا کے رکھتے ہیں۔ ہم آج بھی ان لوگوں کو ٹی وی ٹاک شوز میں بلاتے ہیں جنہیں پوری دنیا دہشت گرد کہہ رہی ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی میڈیا پالیسی نہیں ہے ۔ ہمیںیہ پتہ ہی نہیں ہے ہم نے قوم کو کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں۔
ہم الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی عائد کرنے میں ایک پل کی تا خیر نہیں کرتے مگر جنہیں دنیا دہشت گرد کہتی ہے ان کے بیانات پر کوئی پابندی نہیں ،ہمارے پاس کوئی تعلیمی پالیسی نہیں مدرسوں کو توچھوڑیں سکولز میں کیا تعلیم دی جارہی ہے؟۔ کیا سکولز میں رواداری کی بات ہوتی ہے۔ آ پ کسی سکول کے بچے کے سامنے انڈیا کا نام لیے کر دیکھیں ؟ آ پ کسی شیعہ خاندان کے سامنے وہابی اور وہابی بچے کے سامنے شیعہ کی بات کریں۔
کیا ہماری مائیں بچوں کو روادری کا درس دیتی ہیں یا نہیں۔ ہمیں سوچنا یہی ہے ہم اپنی نر سریوں میں کیا بو رہے ہیں اس سچ کو ماننا پڑے گا سانپ سانپ ہی پیدا کرے گا اور خرگوش خرگوش کو جنم دے گا ۔