عبدالحئی ارین
موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اور میرے نزدیک یہ بیمار۔ جنگ زدہ اور نفسیاتی طورپر پسے ہوئے معاشرے کا درمان بھی ہے۔ جیسا کہ جدید سائنس کے مطابق موسیقی کے ذریعے بہت سارے نفسیاتی بیماریوں کا علاج ممکن ہے جس کو میوزک تھراپی کا نام دیا گیا ہے۔
پشتون افغان اور مو سیقی کی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ پشتونخوا وطن میں پشتونوں کی ثقافت جتنی قدیم ہے اُتنی ہی موسیقی کی تاریخ یہاں قدیم ہے۔
پشتونوں کے خلاف ایک منظم انداز میں یہ سازش اور پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہ موسیقی کو پسند نہیں کرتے ہیں، تاریخی طور پر حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ پشتون نا صرف موسیقی سے لگاو رکھتے ہیں بلکہ پشتونوں نے موسیقی کے کئی الات ایجاد کئے ہیں اور ہندوستان میں موسیقی کے موجدین میں شامل ہیں۔
آج برصغیر میں جتنے بھی راگ ہمیں ملتے ہیں یہ بنیادی طور پر ہزاروں سال قبل آریائی اقوام پختیخا (پشتونخوا) سے ہندوستان، پارس اور یورپ کو ہجرت کے وقت اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
برصغیر میں قوالی کی بنیاد پشتونوں نے قدیم لوک موسیقی “بانڈار“ کو وہاں پر متعارف کراکر قوالی کی بنیاد رکھی تھی۔ ہندوستان میں مغلیہ دور کے کلاسیکل موسیقی کے نامور اور ہر دل عزیزاستاذ تان سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو موسیقی سیکھانے والہ پشتون شہنشاہ وقت فرید خان المعروف شیرشاہ سور ی کے پردادوں میں سے تھے۔
اسی طرح مولانا بلخی (مولانا رومی) جوکہ ایک افغان تھے۔ اسکی تعلیمات میں آج بھی موسیقی، اتن (پشتون رقص) جیسی چیزیں ملتی ہیں۔امان اللہ خان کے خاندان کا موسیقی کے ساتھ لگاو اور محبت اپنی مثال آپ تھی۔ان کے دادا عبدالرحمان خان خود موسیقی کے دلدادہ تھے اور وہ موسیقی کے کئی آلات بھی بجا سکتے تھے ۔
جبکہ امیر نے نورستان اور ہندوستان سے خاتون موسیقاروں کو اپنی محل میں جگہ دی تھی جو موسیقار تھے اور ملک کے تمام موسیقاروں کو تنخواہیں یا خاص معاش ملتی تھی ۔ اُنکے بیٹے اور افغانستان کے استقلال کے بانی شاہ امان اللہ خان کے والد حبیب اللہ خان بھی موسیقی سے لگاو رکھتے تھےاور افغانستان میں موسیقی کو پروان چڑھانے کے لئے ملک کے کونے کونے اور ہندوستان سے اچھے موسیقار بلائے گئے تھے تاکہ ملک میں اچھی موسیقی کو ترقی دی جاسکے ۔
اسی طرح جب ۱۹۱۹ کو غازی امان اللہ خان نے افغانستان کے استقلال کا اعلان کیا ساتھ ہی اُس نے ملک میں جہاں تعلیم، انفراسٹرکچر اور دیگر اصلاحات متعارف کرائیں وہیں انھوں نے اپنے دور میں موسیقی کو ملک کے تعلیمی اداروں میں بطور مضمون شامل کیا تھا جس کی ہفتے میں دو دن کلاسیز ہوتی تھیں۔ جس کا ثبوت اس وقت کے تصانیف سے بھی عیاں ہیں۔
غازی امان اللہ خان خود بھی شوقیہ گانےگاتے تھے ۔ اور وہ پیانو بجا نے میں مہارت رکھتے تھے ۔ یہ ہنر اس نے اپنے والد کے دور میں استاد قاسم خان سے سیکھا تھا ۔اس سلسلے میں انھوں نے سینکڑوں نوجوانوں کو موسیقی کی تربیت کیلئے ترکی ، ہندوستان ، روس اور دیگر ممالک بھیجا تاکہ وہ وہاں سے موسیقی اور گلوگاری کی تربیت حاصل کرسکیں۔
نادر شاہ کے دور میں موسیقی کو کافی فروغ ملا تھا اور ثور انقلاب کے بعد تو اس شعبے کو تاریخی ترقی دی گئی اس لیے انقلاب کے استحکام اور عوام تک اس کے فرمان پہنچانے کیلئے اس طبقے نے سب سےاہم کردار ادا کیا تھا۔ اور انقلابی گانوں کے ذریعے اُس دور میں انقلاب کا پیغام گھر گھر پہنچایا گیا۔ اُس دور میں موسیقی کی دنیا میں ہمیں بڑے بڑے نام بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔
محترمہ بخت زمین، خان قراباغئ اور عبداللہ مقری اور دیگر نے نا صرف عوام کا مورال بلند رکھنے کیلئے گانے گائے بلکہ انھوں نے ایک سیاسی قوت کے طور پر عوام میں شور پیدا کرکے انھیں سیاسی بصیرت بھی عطا کی تھی۔
مختصر یہ کہ آج بھی پشتون گلوکاری اورموسیقی کے دیگر شعبوں کیلئے بے شمار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اور افغان وطن میں اتنے سخت حالات کے باوجود پشتو موسیقی میں نہ صرف لاتعداد مرد گلوکار سامنے آئے ہیں بلکہ کئی کلاسیک پشتون خواتین گلوکار بھی اس میدان میں اپنے قوم اور زبان کی خدمت کر رہی ہیں۔پشتو موسیقی جتنی قدیم ہے اور اس نے اچھے اچھے ناموراستاد پیدا کئے ہیں شاید دنیا میں ایسا بہت کم ہوا ہو۔
لہذا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پشتون قوم تاریخی طور پر موسیقی اور گلوکاری کے خلاف کبھی بھی نہیں رہا ہے، بلکہ ایک خاص سازش کے تحت پشتونوں خلاف کے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ پشتون قوم موسیقی اور گلوکاروں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
پشتون فنکاروں کیساتھ ساتھ گلوکار آج کئی مسائل سے دوچار نظر آتے ہیں اور اس پروپیگنڈے کے بعدآج پشتون دشمن قوتیں، پشتو موسیقی کو ایک خاص منظم سازش کے تحت ختم کرنے پر تُلی ھوئی ہیں، کسی بھی معاشرے کو اگر معاشرتی اور سیاسی طور پر ختم کرنا مقصود ہو، تو سب سے پہلے اُسکے کلچر بالخصوص موسیقی کو ختم کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔
اور یہی سازش پشتونوں کیساتھ کی جارہی ہےپشتون گلوکاروں کو باقاعدہ دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ وہ اس شعبے سے دور رہے ۔ اور اب تک کئی پشتون گلوکار یا تو قتل کئے جا چکے ہیں، ملک چھوڑ کر مہاجرت کی زندگی پردیس میں گزرنے پر مجبور ہیں اور یا یہ گلوکار جبری طور پر تبلیغ(دین لاہوری) کے ذریعے موسیقی سے دور رکھا جاتا ہے۔۔۔۔
مُلا اور تبلیغی کلچر کے باعث شادی بیاہ کے پروگراموں میں ڈھول، اتن اور گانا گانے پر پابندی لگائی جارہی ہیں۔ جس کے باعث شادیوں کے یہ پروگرام شادمانی و خوشحالی کم فاتحا زیادہ لگتے ہیں جوکہ اہل شعور و دانش مند پشتون وطن دوست طبقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
ایک طرف اس معاشرے میں جعلی و وہابی ملاوں وتبلیغی فرقے کے ذریعے موسیقی کو حرام قرار دیا گیا، تو دوسری جانب طالبان کے ذریعے موسیقی کے آلات توڑنے، پشتون سنگرز کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بالخصوص کئی خواتین سنگرز قتل کئے گئے، مرد گلوکاروں کو تبلیغ پر جانے، اور موسیقی کے کام سے منع کیا گیا اور کئی نامور پشتون گلوکار اور موسیقار ملک چھوڑنے پر مجبور کئے گئے۔
اب ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے علاقوں میں موسیقی کے زیادہ سی زیادہ پروگرام (شوز) منعقد کریں حکومتوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موسیقی کی فروغ میں اپنا کردار ادا کریں، اور ان گلوکاروں اور موسیقاروں کو جان کی حفاظت کیساتھ ساتھ معاشی حفاظت کیلئے اپنا فریضہ ادا کریں۔
اور سب سے اہم یہ کہ حکومت بلخصوص صوبائی حکومتیں اپنی اپنی صوبوں میں کم از کم ایک میوزک اکیڈمی قائم کریں جس کے ذریعے اس تاریخی ورثے کیساتھ ساتھ نئے موسیقار اور گلوکاروں کیلئے بھی اپنے فن و خوگلوی کو انے والی نسلوں کیلئے محفوظ کیا جاسکے۔
واشنگٹن ڈی سی میں وائس اف امریکہ پشتو سروس واشنگٹن کے دفتر میں کام کرتے وقت جہاں مجھے دوسرے پروفیشنل اور قوم پرست دوستوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہی پشتو کے ممتاز گلوکار استاد سردار علی ٹکر صاحب کے ساتھ بھی کام کرنے اور اُس کے روشن فکر خیالات سننے کا موقعہ ملتا رہتا تھا۔
ایک دن پشتون گلوکاروں اور اُ ن کے مسائل کے حوالے سے ٹکر صاحب نے کہا کہ قوم پرست رہنماوں کو چاہیے کہ وہ صوبے میں ان گلوکاروں اور موسیقاروں کے مسائل کے مستقل حل کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ اور ان کیلئے میوزک اکیڈمی قائم کرے تاکہ مستقبل میں ناصرف اس فن و ہنر کو محفوظ کیا جاسکے بلکہ اُن ہنرمندوں کے مالی مسائل بھی حل کئے جا سکیں۔
2 Comments