رشاد بخاری
آئن سٹائن کا ایک قول کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ چھ سال کے بچے کو کوئی چیز نہیں سمجھا سکتے تو اس کا مطلب ہے آپ خود بھی اسے پوری طرح نہیں سمجھے ہیں۔ ایک ادب پارہ وہ ہوتا ہے جسے صرف ادبی ذوق رکھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ اور ایک ادبی شہ پارہ وہ ہوتا ہے جسے عمر، تعلیم اور ذوق کی قید کے بغیر بھی نہ صرف سمجھ لیا جاتا ہے بلکہ اس کی لطافت و نزاکت سے پورا حظ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
پطرس بخاری کا مضمون ’مرحوم کی یاد میں‘ بھی ادبی شہ پاروں کی اسی ذیل میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا جو چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے اور میری والدہ جنہوں نے کسی سکول کالج کے بجائے براہ راست زندگی کے مکتب سے تعلیم پائی ہے، جب بھی میری گاڑی میں کہیں سفر کے لیے بیٹھتے ہیں، ایک ہی فرمائش کرتے ہیں کہ وہ سائیکل والا مضمون لگائیں۔
چنانچہ میں پطرس بخاری کا یہ شہکار، جسے ضیا محی الدین کی صدا کاری نے مزید دوآتشہ کر دیا ہے، آڈیو پر لگاتا ہوں اور کم از کم قریب ۲۹ منٹ تک کا سفر زیر لب مسکراہٹ، ہلکی کھلکھلاہٹ اور زوردار قہقہوں کے بیچ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ مجھے اسے اتنی دفعہ سننے کا موقع ملا ہے کہ کچھ اقتباسات میرے ناقابل اعتبار حافظے میں بھی محفوظ ہو گئے ہیں۔ لفظی غلطی کے امکان کے ساتھ چند پیش خدمت ہیں، جو شائد آپ کے حافظے کو بھی تازہ کر دیں:۔
’جب دوستی بہت پرانی ہو جائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی‘
’مرزا، ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟ مرزا صاحب بولے بھئی کچھ ہو گا ہی ناں آخر۔ میں نے کہا میں بتاؤں تمہیں؟ کہنے لگے بولو۔ میں نے کہا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں۔
ہاں ہاں میں جانتا ہوں، تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو کہہ دو گے، حیوانوں کی دم ہوتی ہے،تمہاری دم نہیں ہوتی، حیوان جگالی کرتے ہیں، تم جگالی نہیں کرتے۔ لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے۔ ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں۔ لیکن ایک بات میں میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں، میں بھی پیدل چلتا ہوں‘۔
’تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینہ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں سے ایک ضرور زمین پر رہے۔ یعنی تمام عمر حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے‘۔
’میرے تبسم میں زہر ملا تھا۔ جب مرزا متوجہ ہو گیا تو میں نے چبا چبا کر کہا، مرزا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں۔ یہ کہہ کر میں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ مرزا بولے کیا کہا تم نے کیا خریدنے لگے ہو؟ میں نے کہا مرزا تم نے سنا نہیں، میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں۔ موٹر کار ایک ایسی گاڑی ہے جسے بعض لوگ موٹر کہتے ہیں بعض کار کہتے ہیں۔ لیکن تم چونکہ ذرا کند ذہن ہو اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دیے تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔‘
’ میں نے کہا مرزا جہاں تک مجھے علم ہے تم نے سکول اور کالج اور گھر پر دو چار زبانیں سیکھی ہیں اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی سکول اور کالج یا کسی شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام ہوں سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو مرزا۔ اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔‘
’مرزا صاحب کہنے لگے نہیں یہ بات تو نہیں میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا ہوں۔ تم نے کہا کہ میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں۔ تو میاں صاحب زادے خریدنا تو ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا لیکن روپے کا بندوبست کیسے کرو گے؟ یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا۔۔۔‘
اب پورا مضمون آپ کو کیا سناؤں، آپ خود ہی ہمت کر کے پڑھ لیجیے۔ محنت ضائع نہ جائے گی۔
♥