سردار اختر مینگل و ڈاکٹرمالک کی سیاست

مہر جان

012221

جنرل (ر)عالم خٹک کے فرشتوں کو بھی گماں نہیں تھا کہ جن فرشتوں کو ڈاکٹر مالک کو پارلیمنٹ میں لانے کے لیے معمور کرینگے جب اقتدار کارستہ ختم ہوتا دکھائی دیا تو ڈاکٹر مالک انہی فرشتوں کو نہ صرف معتوب ٹھہرا ئیں گے بلکہ ان کو دوام بخشنے کے لیے نیا پینترا ڈھونڈے گے ۔

پہلے تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنےوہ فقط ڈاکٹر اللہ نذر کو کیش کرتے رہے کہ یہ ہمارے بندے ہیں ہم انہیں واپس لاسکیں گے اور ڈاکٹر اللہ نذر کو تو وہ فخریہ طور پر اپنا شاگرد کہتے رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر اللہ نذر کی جب شہادت کی خبر سنی (جو کہ افواہ ثابت ہوئی)تو قریبی دوستوں کو مبارکباد دیتے رہے۔

آج قبرستان کی ترقیوں سے لے کر گوادر کی فروخت تک ڈاکٹر مالک نیشنل پارٹی کے تابوت پر جس طرح کیل ٹونک رہے ہیں کیا وہ کبھی بھی ان حالیہ بیانات کے بل بوتے پر دوبارہ اپنے ہی علاقہ میں اپنے ہی لوگوں کا سامنا کر سکیں گے؟ آج جس طرح وہ نیشنل پارٹی کا کونسل سیشن کینٹ سے ملحقہ علاقہ ایف سی کی سیکورٹی میں کرنے پر مجبور ہوئے یہی ذلت ان کے لیے کافی تھی ۔

لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ (بیا بادشاہ تن ارخ کنیک) شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری پر نہ صرف بلوچ عوام حیرت کی وادیوں میں گم ہیں بلکہ ہم سے زیادہ خود اسٹیپلشمنٹ حیرت زدہ ہے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھیانہیں کبھی گمان بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ جنہیں ہم بلوچ قوم پرست سمجھتے تھے وہ اندرسے اتنے کھوکھلےہو نگے۔اپنی کرسی کے لیے وہ کتنے گر سکتے ہیں اور جونہی اقتدار کا دورانیہ ختم ہونے کے قریب ہو وہ کتنی ڈھٹائی سے بیانات کی حد تک بدل جائیں گے۔

ان کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا پہلے تو فقط مسخ شدہ لاشوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ اب اجتماعی قبرستان ،عورتوں کو گھروں سے اٹھانا اور درو دیوار کو نذر آتش کرنا یہ سب ڈاکٹر مالک کے وہ کار نامے ہیں جو وہ اسٹیپلشمنٹ کو دکھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مالک سے جب اسلام آباد میں پوچھا گیا کہ آپ کی اب تک کی کامیابی کیا ہے تو ان کا جواب سننے کے لائق تھا کہ میں نے بلوچستان میں این ٹی ایس کو متعارف کروایا ہے حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں ۔۔۔۔

اور رہی بات سردار صاحب کی تو سردار اختر جان کسی تعارف کے محتاج نہیں جب بھی بلوچستان میں کوئی سیاسی سر گرمی ہوتی ہے تو آپ انہیں بلوچستان میں ہی پاتے ہیں وگرنہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح وہ بھی اپنا باہر علاج کروارہے ہوتے ہیں ۔سردار صاحب کی اگر سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو وہ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں یعنی نہ ریاست کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی آزادی پسند تنظیموں کے لیے۔

بلوچ عوام کے سامنے ان کی باتیں آزادپسندی ہی کے آس پاس نظر آتی ہیں لیکن اندرون خانہ وہ سرکار کے ساتھ دروازہ کھلا رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں کہ شاید اس دوڑ میں انکا کبھی قرعہ نکل ہی آئے۔

اداروں کے اندر ان کے ارکان کا معذرت خواہانہ لہجہ(موجودہ سینٹ و قومی و صوبائی اسمبلی)اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریاست کو با ر بار باور کرانے کے باوجودبھی وہ اس حد تک اعتماد حاصل نہ کرسکے جو اعتماد حاصل بزنجو نے حاصل کیا۔فی الحال سردار صاحب کو یہ بتانا کافی سمجھا گیا کہ اسلام آباد اور لوکل اسٹیبلشمنٹ میں اختلافات کے باعث قرعہ اس دفعہ ڈاکٹر مالک کا نکلا ۔

اختر مینگل سے آج نعرہ آزادی (غیر پارلیمانی سیاست) کی امید تو نہیں رکھی جاسکتی لیکن اگر وہ یہاں رہ کر پارلیمانی سیاست میں بھی اپوزیشن کی صورت میں کردار ادا کرتے تو شاہد ریاست کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے تھے ۔آج کل وہ سر سید احمد خان کی طرح بلوچ قوم کو بھی تعلیم دوستی کا درس دے رہے ہیں۔ سر سید احمد کو لارڈمیکالے کی نظام تعلیم اور مغرب سے محبت کی پاداش میں سر کا خطاب سے نوازا گیا اب انہیں ریاستی نظام تعلیم کے تبلیغ پر کیا ملےگا فی الحال کچھ کہنے اور بتانے سے قاصر ہے ۔

سردار صاحب اپنی پچھلی دور حکومت میں چاغی دھماکہ میں بہت کچھ گنواچکے ہیں۔ اب فقط یہی دعا ہے کہ وہ اپنی سیاست کو اس حد تک نہ لے جائے کہ انہیں بھی بی این پی کا کونسل سیشن کسی کینٹ کے ملحقہ علاقہ میں کرانا پڑے لیکن وہ نہ صرف سردار ہیں بلکہ جاوید مینگل کے بھائی بھی ہیں۔ اسی لیے شاید وہ کہیں بھی مستقبل میں بی این پی کا کونسل سیشن منعقد کرا سکیں گے۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی یاداشت بہت کمزور ہے اور ہو سکتا ہے کہ شاید کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مالک ایک دفعہ پھر سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مڈل کلاس کا قوم پرست لیڈر کہلوایا جائے۔ لیکن کیا کریں تاریخ کبھی میر جعفر اور میر صادق کو نہیں بھولتی کیونکہ تاریخ تو پھر تاریخ ہے۔۔۔

One Comment