ترجمہ: ارشد محمود
انڈیا کی نامور کلاسیکل ڈانسر، پروتما کی آپ بیتی
کتاب کی اشاعت کا معاملہ تو ایک سائڈ میں ہوگیا۔ لیکن لوگ مجھے مسلسل گالیاں دیتے رہے۔مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں آتی رہی۔ سنسی خیزی کا کاروبار کرنے والے اور ریاکار دوغلے میرا پیچھا کرتے رہے۔
اس سب نے وہ سارا مقصد کرکرا کردیا، جو میں محبت کے کچھ خاص الفاظ لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتی تھی، جومیرے دل کوبہت عزیز تھے۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا، کہ محبت کے حساس کام کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔ میرے اپنے دوست مجھ سے ناراض ہوگے، کہ جیسے میں کوئی سستی چوما چاٹی کی کہانی پیش کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے وضاحتیں دینی بند کردی کہ رجنی کے ساتھ اپنی محبت کی خوبصورتی کو سامنے لاوں۔
میں جو بھی کہتی اور کرتی۔۔مجھے ایک بدکردارعورت کہہ کر بدنام کیا جاچکا تھا۔ میں نے تمام باعزت ایڈیٹروں، کالم نگاروں، گھرہستن بیوی کے نام کھلا خط لکھ دیا، کہ ‘باعزت اور غیرت مند معاشرہ آپ کا علاقہ ہے، میرا نہیں۔ مجھے وہ پارٹی یاد پڑتی ہے۔ جب میں ان دنوں ایک جوڑے کی شادی کی سلور جوبلی پر گئی، جو گجراتی فیملی تھی، (رجنی پٹیل بھی گجراتی تھا) وہاں جب گجراتی اشرافیہ نے مجھے دیکھا، تو پریشان ہو گئے کہ مجھ جیسی شخصیت عزت داروں میں کیسے آ گئی ہے۔
لوگوں کے ردعمل کو دیکھ کر مجھے پارٹی میں بیٹھے کچھ غصہ بھی آیا۔ مجھ میں بدنامی والی کونسی بات ہے؟ صرف یہ میں اپنے تعلقات کا برملا اقرار کرتی ہوں۔ کہ میں نے سیکسی لباس پہنا۔ سگریٹ اور شراب نوشی کی، پبلک میں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگائے۔۔میں نے خود اشرافیہ کی معزز، بورنگ، قاتل بیویوں کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ تو پھر مجھے پتا چلا۔۔کہ ہاں میں واقعی ان کے لئے دھبہ کیوں ہوں۔۔ میں معصومیت سے ان کو دیکھ کر مسکراتی رہی، میں ان کو بتانا چاہتی ، کہ ایسی بری نہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔
وہاں فلمی میڈیا بھی آیا ہوا تھا۔۔انہوں نے جب مجھے دیکھا، تو کیمرے میری طرف لگا دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو اور اہم سمجھا۔ اور اندر سے خوش ہوتی رہی، یہ وہ لوگ ہیں، جو میری مذمت کرتے ہیں۔ مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔ ان خوشی سے محروم منافقوں اور اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کو کس نے حق دیا ہے کہ مجھے گھٹیا عورت کہہ کر خود کو خود ساختہ برتر اور پرہیز گار قرار دیں۔ کیا ان کے اندر رازدرانہ خواہشیں نہیں پلتی، ان کے اندر اتنی جرات نہیں ہے کہ یہ جو چاہتے ہیں، اس کا برملا اظہار بھی کرسکیں۔
یہ اس لئے مجھ سے نفرت کرتے ہیں کہ مجھ میں جرات ہے، حوصلہ ہے۔ ریاکار نہیں ہوں۔ ایک نا سمجھنے والی دیوار کیوں کھڑی کردی جائے، اگرکسی عورت کی ایک سے زیادہ محبتیں ہوں۔اسے سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ ہر عورت کی خواہش ہے، اس کا کسی کے ساتھ کوئی خفیہ چکر ہو۔۔۔۔ اس کو کوئی اور بھی محبت کرنے والے ہوں۔ لیکن متعدد وجوہات اسے ایسا کرنے سے روکتی ہیں۔
مجھ میں یہ ہمت تھی، کہ میں ایک ہی وقت میں کئی عاشق رکھ سکوں۔ اور صرف اس کی وجہ سے مجھے آوارہ ، وقت گزاری والی عورت سمجھ لیا جائے۔ میرے بہت سے خوبصورت تعلقات رہے ہیں۔ اور وہ مرے نہیں، اگر ان کا وقت پورا بھی ہوگیا۔ وہ سب میری ذات کا خوبصورت حصہ ہیں۔ میرا کبیر، جسراج، مانو، اور کئی بندوں سے تعلقات رہے۔ اگر ایسا آپ لوگ نہیں کرسکتے، تو میرے خلاف کیوں ہو گئے ہو۔
زندگی کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ٹائم اور جگہ ہوتی ہے۔ وقت گزرتا گیا، میں نے رجنی کے خطوط اپنے پاس رکھے ہیں، تاکہ کبھی اپنی بائیوگرافی میں ان کو شامل کرسکوں۔ اگر کبھی ایسا ہو پایا۔ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا، میں نے وہ خطوط بھاری قیمت پر رجنی کی بیوی کو بیچ دیئے ہیں۔۔