رابندر ناتھ ٹیگور
راجہ کو جب معلوم ہوا کہ اس کی مملکت میں ایک طوطا ہے جو بڑا ذہین ہے اور خوب باتیں کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوا اور فوراً حکم دیا کہ طوطے اور اس کے مالک کو حاضر کیا جائے۔
حکم کی دیر تھی دربار آراستہ کیا گیا، اور طوطا فوراً حاضر ہو گیا۔ وہ واقعی بہت تیز اور طباع تھا لیکن اس میں دو بڑی خامیاں تھیں، ایک تو یہ اس سے نچلا نہ بیٹھا جاتا تھا او رجو جی چاہتا بے جھجک کر گزرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کی مذہبی معلومات بہت کم تھیں اور علوم عامہ میں تو بالکل کورا تھا۔
راجہ بڑا دانا تھا اس نے سوچا کہ جہالت کا مرض بہت مہلک ہے۔ جاہل کھاتا تو اتنا ہی ہے جتنا تعلیم یافتہ ، لیکن اس سے ملک کو نفع کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس نے اپنے اہلکاروں کو بلا کر حکم دیا کہ طوطے کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ انہوں نے جب طوطے کے مالک کی مرضی معلوم کی تو وہ بے انتہا خوش ہوا اور فوراً اس پر تیار ہو گیا کہ روزانہ طوطے کو پڑھوانے کے لئے لایا کرے گا۔
چنانچہ اسی وقت ملک کے قابل ترین پنڈتوں کو طلب کیاگیا اور انہوں نے ماہرین فن کی حیثیت سے اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کر کے چند بنیادی نقائص کی نشاندہی کی کہ اول تو طوطے کا آہنی پنجرہ نہایت ناموزوں ہے۔ دوسرے ماحول گندا ہونے کی وجہ سے وہ بہت سی اخلاقی باتیں نہیں سیکھ سکتا۔ اس لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کے لئے ایک عمدہ قفس اور خوش گوار ماحول کا انتظام کیا جائے۔
راجہ لوگ تو جس بات کے پیچھے پڑ جائیں اسے کر کے چھوڑتے ہیں۔ چنانچہ چند ہوشیار کاریگر بلائے گئے جن کو حکم دیا گیا کہ آج ہی سونے کا پنجرہ تیار کیا جائے۔ منقش گلکاری سے خوب سجایا جائے اور اس کو شاہی باغ میں لٹکا دیا جائے۔ لوگ دور دراز سے پنجرے کو دیکھنے آتے اور طوطے کی خوش قسمتی پر رشک کرتے۔
بعض بزرگوں کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ اگر طوطا جنگلی کا جنگلی رہے تب بھی یہ پنجرہ ایک یادگارکی حیثیت سے باقی رہے گا۔ راجہ نے بھی پنجرے کو بہت پسند کیا اور کاریگروں کو انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔
پنڈتوں نے نہایت تندہی سے اپنا کام شروع کر دیا۔ طوطے کے لئے کتابیں لکھی جانے لگیں۔ قدیم و جدید کتابوں سے اقتباسات نقل کر کے ڈھیر لگا دیئے گئے تاکہ طوطا ادب کا ماہر ہو جائے۔ مذہبی علوم کے بھی دفتر جمع ہو گئے۔ غرض کہ ہر ماہر فن نے طوطے کے لئے قابلیت کے مطابق ایک جامع کتاب لکھ ڈالی۔
لوگ علوم فنون کا یہ عظیم ذخیرہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ گردن اٹھا اٹھا کر کہتے کہ کلچر کے اس بلند مینار کو دیکھئے یہ تو آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ نصاب تیار ہوجانے پر ان مصنفوں ، مولفوں اور کاتبوں کو بھی خوب خوب انعام ملے اور وہ بھی اپنی جیبیں سنبھالتے ہوئے رخصت ہوگئے۔
اہلکار پنجرے کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ روزانہ صبح سویرے صاف کر کے صیقل کرتے اور دیکھنے والے کہتے کہ دیکھئے ترقی اس کو کہتے ہیں تعلیم اس کا نام ہے ۔ رفتہ رفتہ اس کام کی نگرانی کے واسطے عملے میں اضافہ ہوتا رہا پھر اس کی نگرانی کے لئے اعلیٰ عہدے دار مقرر کر دیئے گئے۔ ان کے لئے کوارٹر اور کوٹھیاں تعمیر کی گئیں اور سب لوگ آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے لگے۔
پھول بغیر کانٹے کے نہیں ہوتا، آپ کتنا ہی نیک کام کریں، نکتہ چیں اپنی نیش زنی سے باز نہیں آتے چنانچہ چند ہی روز میں ان لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پنجرے سے وابستہ ہر شخص ترقی کر رہا ہے لیکن خود طوطے کو اس تعلیم سے کیافائدہ پہنچا؟
راجہ کو بھی شدہ شدہ اس کی اطلاع ہوئی۔ اس نے اہلکاروں کو بلا کر دریافت کیا کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں اور اصل معاملہ کیاہے۔ اہلکار بڑے ہوشیار اور مزاج شناس ہوتے ہیں، انہوں نے کہا حضور بات یہ ہے کہ نکتہ چیں مفلس اور قلاش ہوتے ہیں اور جب انہیں کھانے کو نہیں ملتا تو ان کی زبانیں تیز ہو جاتی ہیں اور خواہ مخواہ اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔ راجہ کو یہ نکتہ پسند آیا اور اس نے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا۔
آخر راجہ ایک دن اپنے محکمہ تعلیمات کی کارکردگی دیکھنے کے لئے بہ نفس نفیس شاہی باغ پہنچ گیا جہاں اب ایک نفیس بارہ دری بن چکی تھی۔ اس کی پیشوائی کے لئے ہر طرف سے خوش آہنگ راگ سنائی دینے لگے، پنڈتوں نے منتر اور اشلوک الاپنے شروع کر دیئے تو کاتبوں اور مصنفوں نے راجہ کی شان میں مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کا سحر پھونکا۔
سرکاری اہلکار نے مودب ہو کر راجہ سے کہا، سرکار ہماری کارگزاریوں کے متعلق اب حضور کی کیا رائے ہے؟ راجہ جو اس طمطراق سے پہلے ہی مرعوب ہو چکا تھا کہنے لگا آپ کا تعلیمی اصول بہت اچھا لگا۔ دل یہ سب چیزیں دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ حقیقی ترقی اسی کانام ہے۔ آپ سب لوگ واقعی انعام کے مستحق ہیں۔
اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے بھی نہ سنی۔ دراصل اب پنڈت اپنی کتھا کے سامنے اس کی زبان ہی نہ کھلنے دیتے تھے اور نہ اس میں زبان کھولنے کی ہمت تھی۔
نکتہ چینوں نے پھر اعتراض کیا کہ راجہ نے سب کچھ دیکھا مگر نہ دیکھا طوطے کو کہ اس کی قابلیت کچھ بڑھی یا پہلے سے بھی کم ہو گئی۔ عملہ کہنے لگا۔ حضور ہم کس واسطے دن رات طوطے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ یہ لوگ تو معترض ہیں اور ان کا کام ہی رخنہ گری ہے۔ جب خود کوئی تعمیری کام نہیں کر پاتے تو دوسروں کے بخیے ادھیڑنے شروع کر دیتے ہیں۔راجہ کو بھی غصہ آگیا اور اس نے حکم دے دیاکہ ان کی خوب گوشمالی کی جائے اور آئندہ کے لئے زبان بندی کر دی جائے۔
اسی دوران طوطے کی زبوں حالی جس کو عرف عام میں ترقی کہا جاتا تھا، بڑھتی گئی۔ وہ زیادہ تر چپ بیٹھا رہتا کبھی کبھی چند عشقیہ اشعار جو اس نے درسی ادب کی کتاب سے یاد کر لئے تھے، پڑھا کرتا تھا۔ شروع شروع میں اس نے پنجرے سے آزاد ہونے کے لئے بہت پر پھڑپھڑائے۔ ٹھونگیں مار مار کر سلاخیں توڑنے کی کوشش کی، لیکن توبہ کیجئے بھلا پنڈت اس کو کس طرح چھٹی دے سکتے تھے۔
انہوں نے مالک کو بلا کر کہا کہ تمہار طوطا صرف غبی اور نکما ہی نہیں، احسان فراموش بھی ہے، دیکھو ہم کس محنت سے اس کو تعلیم دیتے ہیں اور یہ اس سے کتراتا ہے۔ مالک تو یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں نے تو اسے آپ کے سپرد کر دیا ہے اب آپ اس پر جتنی چاہیں سختی کریں مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا اور پنڈتوں نے ایک ہاتھ میں درسی کتاب اور دوسرے میں ڈنڈا لے کر وہی عمل شروع کر دیا جس کو مدرسے کی اصطلاح میں سبق پڑھانا کہتے ہیں ۔ اب پنڈتوں کی باری آئی اور نگران عملے کی سفارش پر انہیں بھی انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
آخر ایک دن تمام شہر میں مشہور ہو گیا کہ طوطے کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔ نکتہ چینوں کی طرف سے پھر غوغا ہوا کہ ترقی کرنا تو درکنار اس تعلیم کے چکر میں پرندہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کی ذاتی قابلیت بھی خاک میں مل گئی۔
راجہ نے فوراً اہلکاروں کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ عملے نے کہا، حضور وہ سب جاہل ہیں،انہیں معلوم ہی نہیں کہ طوطے کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے اور وہ اب فارغ التحصیل ہو گیا ہے۔
راجہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا میں تمہاری کارگزاری سے بہت خوش ہوں۔ مجھے اپنے ملک کے لئے ایسے ہی نظام کی ضرورت ہے جو تم نے طوطے کے لئے استعمال کیا ہے اسی کو نمونہ بنا کر تمام ملک میں رائج کر دو۔
♠