انگریزی سے ترجمہ: عابد محمود
دوسراو آخری حصہ
محترم وزیراعظم
آشوب فروری کی وجوہات:۔
۔(18)۔یہ ذہن میں رہے کہ مغربی بنگال میں ہونے والے چند فرقہ وارانہ واقعات جو کلشیرہ سانحے کے ردعمل کے طور پر ہوئے کی داستانیں مشرقی بنگال کے پریس میں بڑھا چڑھا کر شائع کی گئیں۔ فروری1950ء کے دوسرے ہفتے میں جب مشرقی بنگال اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع تھا، کانگریس اراکین نے کلشیرہ اور نیکولی میں پیدا شدہ حالات پر بحث کرنے کے لئے دو تحاریک التواء پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ لیکن تحاریک رد کردی گئیں۔ کانگریس اراکین احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کرگئے ۔ اسمبلی کے ہندو ممبران کی اس کاروائی نے نہ صرف وزراء بلکہ صوبے کے مسلمان قائدین اور عہدیداران کو بھی برہم اور مشتعل کردیا۔ یہ شاید فروری1950ء میں مشرقی بنگال اور ڈھاکہ میں ہونے والے فسادات کی بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی۔
۔(19)۔یہ معنی خیز ہے کہ10فروری1950ء کو تقریباً10بجے صبح ایک عورت کی یہ دکھانے کے لئے کہ اس کی چھاتیاں کلکتہ فسادات میں کاٹ ڈالی گئیں تھیں کی سرخ رنگ سے شبیہ بنائی گئی اور اسے مشرقی بنگال کے ڈھاکہ سیکرٹیریٹ میں گھمایا گیا۔ فی الفور سیکرٹریٹ کے حکومتی ملازمین نے کام بند کردیا او رہندوؤں کے خلاف انتقام کے نعرے بلند کرتے باہر جلوس میں آگئے۔ جلوس نے جیسے ہی ایک میل سے زیادہ فاصلہ طے کیا تو پھیلنا شروع ہوگیا۔ اس کا اختتام وکٹوریا پارک میں ایک میٹنگ پر تقریباً دو پہر12بجے ہوا، جہاں متعدد مقررین بشمول سرکاری عہدیداران نے ہندوؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ اس تمام تماشے کا مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ جس وقت سیکرٹیریٹ کے ملازمین جلوس کے لئے باہر نکلے، حکومت مشرقی بنگال کے چیف سیکرٹری مغربی بنگال کے اپنے ہم منصب کے ساتھ اسی بلڈنگ میں دونوں بنگال میں فرقہ وارانہ فساد کے انسداد کا طریقہ کار ڈھونڈنے کے لئے اسی بلڈنگ میں کانفرنس کررہے تھے۔
عہدیداران کی لٹیروں کو اعانت:۔
۔(20)۔بلوہ پورے شہر میں ایک ہی وقت تقریباً1بجے دوپہر شروع ہوا۔ ہندو دوکانوں اور مکانوں کی لوٹ مار و آتشزدگی او رہندوؤں کا قتال، جہاں کہیں وہ ملیں، شہر کے تمام حصوں میں بھر پور طریقے سے شروع کردیا گیا۔ یہاں تک کہ مجھے مسلمانوں سے بھی شہادت ملی کہ لوٹ مار اور آتشزدگی کا ارتکاب، حتیٰ کہ اعلیٰ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں بھی کیا گیا۔ ہندوؤں کی ملکیتی زیورات کی دکانوں کو پولیس افسران کی موجودگی میں لوٹا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے لوٹ مار روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ لٹیروں کی تجاویز و ہدایات کے ذریعے مدد بھی کی۔ میری بدقسمتی میں اس دن 10فروری1950ء کو سہ پہر5بجے ڈھاکہ پہنچا۔ اپنے انتہائی خوف میں، ہجوم میں گھرے ہوئے، مجھے چیزوں کو جاننے او ردیکھنے کا موقع ملا۔ حقیقی ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے میں نے جو دیکھا او رسمجھا وہ فقط ہیبت ناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔
بلوے کا پس منظر:۔
۔(21)۔ڈھاکہ فسادات کی بنیادی طور پر پانچ وجوہات تھیں۔
۔۱۔ہندوؤں کو جب کلشیرہ اور تاکولی واقعات پر دو تحاریک التواء رد ہوگئیں تو ان کے نمائندگان کا اسمبلی سے واک آؤٹ کرنے کے ذریعے اظہار احتجاج کرنے کے جرأت مندانہ طرز عمل کا مزہ چکھانا۔
۔۲۔پارلیمانی پارٹی میں سہروردی اور ناظم الدین گروپ میں نزاع اور اختلافات شدت اختیار کررہے تھے۔
۔۳۔ہندو اور مسلمان لیڈران دونوں کی طرف سے مشرقی اور مغربی بنگال کے الحاق کی تحریک شروع کرنے کے خدشے نے مشرقی بنگال کی وزارت او رمسلم لیگ کو حواس باختہ کردیا۔ وہ ایسی کسی تحریک کو روکنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی بنگال میں کوئی بھی بڑے پیمانے کا فرقہ وارانہ فساد لازماً مغربی بنگال میں ردعمل پیدا کرے گا۔ جہاں ممکنہ طو رپر مسلمان سارے جائیں گے خیال یہ تھا کہ مشرقی ومغربی بنگال کے ان فسادات کے نتیجے میں دونوں بنگال کے الحاق کی کوئی بھی تحریک رک جائے گی۔
۔۴۔مشرقی بنگال میں بنگالی اور غیر بنگالی مسلمانوں کے درمیان عداوت کے احساسات پروان چڑھ رہے تھے۔ انہیں صرف مشرقی بنگال کے ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے روکاجاسکتا تھا۔ زبان کا سوال بھی اسی کے ساتھ وابستہ تھا اور
۔۵۔اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا اور انڈوپاک تجارت میں تعطل کے مشرقی بنگال کی معیشت پر مرتب ہونے والے نتائج پوری شدت کے ساتھ پہلے شہری اور دیہاتی علاقوں میں محسوس کئے گئے اور مسلم لیگی ممبران وعہدیداران ہندوؤں کے خلاف کسی قسم کے جہاد کے ذریعے مسلم عوام کی توجہ سر پر منڈلاتی معاشی بدحالی سے ہٹانا چاہتے تھے۔
دھلادینے والی تفصیلات ، تقریباً دس ہزار ہلاکتیں:۔
۔(22)۔ڈھاکہ میں اپنے نودن کے قیام کے دوران میں نے شہر اور مضافات کے زیادہ تر فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ میں نے تیج گاؤں پولیس سٹیشن کے تحت میرپوری کا دورہ بھی کیا۔ ڈھاکہ نارائن گنج اور ڈھاکہ چٹاگانگ ریلوے لائنوں کے درمیان ٹرین میں سینکڑوں معصوم ہندوؤں کی ہلاکت کی خبر نے مجھے سخت صدمہ پہنچایا۔ ڈھاکہ فسادات کے دوسرے دن، میں وزیراعلیٰ مشرقی بنگال سے ملا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ضلعی شہروں اور دیہاتی علاقوں میں فسادات کے پھیلاؤ کو روکنے کی تدارکی تدابیر اختیار کرنے کے لئے فوری ہدایات جاری کریں۔20فروری1950ء کو میں باریسال شہر پہنچا او رباریسال کے سانحات جان کر ششدر رہ گیا۔ ضلعی شہر میں متعدد ہندو مکانات جلائے گئے اور خاصی تعداد میں ہندوؤں کو قتل کیا گیا۔ میں نے ضلع میں تقریباً تمام فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ حتیٰ کہ کاسی پور ، مدہب پاشا اور لکوتیا جیسے علاقوں جوکہ ضلعی شہر کے چھ میل کے دائرے کے اندر تھے اور قابل سفر سڑکوں کے ذریعے منسلک تھے میں مسلمان بلوائیوں کی پیدا کردہ بربادی دیکھ کر بالکل چکرا گیا۔
مدہب پاشا میں ایک زمیندارکے گھر پر تقریباً دو سو لوگ قتل کیے گئے اور چالیس زخمی ہوئے۔ مولادی کہلانے والا ایک علاقہ ایک ہول ناک جہنم کا شاہد ہے۔ جیسا کہ مجھے مقامی مسلمانوں بشمول چند افسران نے بتایا کہ صرف مولادی بندر میں مرنے والوں کی کل تعداد تین سو سے زیادہ تھی۔ میں نے مولادی گاؤں کا دورہ بھی کیا، جہاں مجھے کچی جگہوں پر لاشوں کے پنجرملے میں نے کتوں اور گدھوں کو دریاکنارے لاشیں نوچتے دیکھا۔ مجھے وہاں اطلاعات ملیں کہ تمام بالغ مردوں وسیع پیمانے پر قتل کرنے کے بعد، تمام نوجوان لڑکیاں غنڈؤں کے سرغنوں کے درمیان بانٹ لی گئیں۔ پولیس سٹیشن راجا پور کے تحت کیبر تخلی
کہلانے والے ایک علاقے میں63آدمی قتل ہوئے۔ اس تھانے سے چند قدموں کے فاصلے پر ہندوگھروں کو لوٹا، جلایا او رمکینوں کو قتل کیا گیا۔ بابو گنج بازار کی تمام ہندو دکانیں لوٹی او رپھر جلادی گئیں اور خاصی تعداد میں ہندوقتل کئے گئے۔ ہلاکتوں کی موصولہ تفصیل معلومات کے محتاط اندازے کے مطابق صرف باریسال ڈسٹرکٹ میں پچیس سوہلاکتیں ہوئیں۔ ڈھاکہ اور مشرقی بنگال کے فسادات پچیس سوہلاکتیں ہوئیں۔ ڈھاکہ اور مشرقی بنگال کے فسادات میں کل ہلاکتوں کا اندازہ تقریباً دس ہزار اموات تھا۔ عورتوں اور بچوں جن کا سب کچھ بشمول ان کے پیاروں کے چھن چکا تھا کی آہ زاری سے میرا دل پسیج گیا۔ میں نے خود سے فقط اتنا کہا’’اسلام کے نام پر پاکستان کے ساتھ کیاہونے والا ہے۔‘‘
معاہدہ دہلی کے نفاذ کی سنجیدہ خواہش کانہ ہونا:۔
۔(23)۔بنگال سے ہندوؤں کا وسیع پیمانے پر انخلاء مارچ کے اخیر میں شروع ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں تمام ہندو انڈیا ہجرت کرجائیں گے۔ بھارت میں جنگی نعرہ بلند ہورہا تھا۔ صورتحال خاصی نازک ہو چلی تھی۔ ایک قومی آفت ناگزیر نظر آتی تھی۔ تاہم متوقع تباہی 8اپریل کے دہلی سمجھوتہ سے ٹل گئی۔ دہشت زدہ ہندوؤں کے پہلے سے ہارے حوصلوں کی بحالی کے مطمع نظر سے میں نے مشرقی بنگال کا ایک بھرپور دورہ کیا۔ میں نے ڈھاکہ، باریسال، فرید پور، کھلنا اور جیسور اضلاع میں متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔ میں نے درجنوں بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور ہندوؤں سے کہا کہ حوصلے بنائے رکھیں اور اپنے بزرگوں کے گھر بار چھوڑ کر نہ جائیں مجھے یہ توقع تھی کہ حکومت مشرقی بنگال او رمسلم لیگی رہنما معاہدہ دہلی کی شرائط پر عمل درآمد کریں گے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے احساس ہونے لگا کہ نہ تو حکومت مشرقی بنگال او رنہ ہی مسلم لیگی قائدین معاہدہ دہلی پر عمل درآمد کرنے کے معاملہ میں حقیقی طو رپر سنجیدہ ہیں۔ مشرقی بنگال کی حکومت نہ صرف یہ کہ دہلی سمجھوتہ میں قیاس کردہ مشینری کی تشکیل پر تیار نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے لئے مؤثر اقدامات کرنے پر بھی آماد ہ نہیں۔ بہت سے ہندو جو کہ دہلی سمجھوتہ کے فوراً بعد اپنے آبائی قصبوں کو لوٹ آئے کوان کے گھروں اور زمینوں جن پر اس دوران مسلمان قابض ہوچکے تھے کاقبضہ نہیں دیا گیا۔
مولانا اکرم خان کی اشتعال زدگی:۔
۔(24)۔لیگی لیڈران کے ارادوں بارے میرے شکوک اس وقت یقین میں بدل گئے جب میں نے مولانا اکرم خان، صوبائی مسلم لیگ کے صدر کا ایڈیٹوریل تبصرہ ’’محمدی‘‘ نامی ایک جریدے کے بیساکھ ایشو میں پڑھا، ڈاکٹر اے ایم ملک، پاکستان کے اقلیتی معاملات کے وزیر کے پہلے ریڈیو خطاب، جس میں انہوں نے کہا تھا’’حضرت محمد صلعم نے بھی عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی دی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اکرم خان نے کہا’’ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر ملک اپنی تقریر میں عرب کے یہودیوں بارے کوئی حوالہ نہ دیتے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں یہودیوں کو مذہبی آزادی مرحمت فرمائی، لیکن یہ تاریخ کا پہلا باب تھا، آخری باب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی ہدایات دیں جو کچھ یوں ہیں:’’تمام یہودیوں کو عرب سے نکال باہر کرو۔‘‘
ایک ایسا شخص جو مسلم کمیونٹی کی سیاسی، سماجی اور روحانی زندگی میں بہت اعلیٰ رتبہ رکھتا ہو کہ اس ایڈیٹوریل تبصرے کے باوجود میں نے کچھ توقعات وابستہ رکھیں کہ نورالامین وزارت اتنی غیر مخلص نہیں ہوگی۔ لیکن میری یہ توقعات اس وقت مکمل طو رپر بکھر گئیں جب مسٹر نورالامین نے دہلی سمجھوتہ کے حوالے سے جو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اقلیتوں کے دل میں اعتماد بحال کرنے کے لئے ان کے نمائندوں میں سے ایک کو حکومت مشرقی ومغربی بنگال کی وزارت میں لیا جائے گا، ڈی این براری کو اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے بطور وزیر چنا۔
نورالامین حکومت کی ریاکاری:۔
۔(25)۔میں نے اپنے ایک سرکاری بیان میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا کہ ڈی این براری کا بطور اقلیتوں کے نمائندہ وزیر کے تقرر نہ صرف یہ کہ اعتماد کی بحالی میں کوئی مدد نہیں کرے گا بلکہ اس کے برعکس التباسی توقعات اگر کوئی اقلیتوں کے ذہن میں نورالامین حکومت کے خلوص کے بارے میں ہیں تو انہوں خاک میں ملا دے گا۔ میرا ذاتی ردعمل یہ تھا کہ مسٹر نورالامین کی حکومت نہ صرف غیر مخلص تھی بلکہ دہلی سمجھوتہ کے حقیقی مقاصد کو ناکام کرنا چاہتی تھی۔ میں دوبارہ کہتا چلوں کہ ڈی این براری ماسوائے اپنی ذات کے کسی او رکی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ کانگریس کے ٹکٹ اور کانگریس کے مال وانتظام کے ساتھ کامیاب ہوکر بنگال قانون ساز اسمبلی میں پہنچے۔ انہوں نے اچھوت ذات فیڈریشن کے امیدواروں کی مخالفت کی۔ چناؤ کے کچھ عرصہ بعد وہ کانگریس سے دغا کرکے فیڈریشن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ جب انکا تقرر بطور وزیر کے ہوا تو وہ فیڈریشن کے ممبر بھی نہ رہے۔ میں جانتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے ہندو مجھ سے متفق ہوں گے کہ ازروئے جد، کردار اور کسب فہم، براری عہدہ وزارت رکھنے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے، جیسا کہ دہلی سمجھوتہ میں مقصود کیا گیا ہے۔
۔(26)۔میں نے اس منصب کے لئے مسٹر نورالامین کو تین نام تجویز کئے۔ ایک شخص جس کا نام میں نے تجویز کیا، ڈھاکہ ہائی کورٹ کا ایم اے، ایل ایل بی وکیل تھا۔ وہ بنگال میں فضل الحق کی پہلی وزارت میں چار سال سے زائدعرصہ وزیر رہ چکا تھا۔ وہ تقریباً چھ سال تک کوئلہ کان ذخیرہ بورڈ کلکتہ (coal Mines stowing Board) کا چیئرمین رہا۔ وہ اچھوت ذات فیڈریشن کا سنیئرنائب صدر تھا۔ میرا دوسرانامزد ایک بی اے، ایل ایل بی تھا۔ وہ قبل از اصلاحات دور حکومت میں قانون ساز کونسل کا سات سال تک ممبر رہا۔ میں جاننا چاہوں گا کہ مسٹر نورالامین کے لئے ایسی وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی منتخب نہ کیا اور ان کی بجائے ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جس کی بطور وزیر تقرری کی۔ میں نے بہت مناسب سوچ بچار کی بنا پر بڑی شدت سے مخالفت کی تھی۔ بغیر کسی مخالفت کے خوف کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مسٹر نورالامین کا براری کو دہلی سمجھوتہ کی بنیاد پر بطور وزیر منتخب کرنے کا فعل، اس امر کا قطعی ثبوت تھا کہ حکومت مشرقی بنگال دہلی سمجھوتہ کی شرائط بارے اپنے عہد پر ن ہی سنجیدہ ہے او رنہ ہی مخلص، جس کا بنیادی مقصد ایسے حالات بہم پہنچانا تھا جو ہندوؤں کو ان کی زندگی، جائیداد، عزت اور مذہب کے تحفظ کے احساس کے ساتھ مشرقی بنگال میں اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل بنائیں۔
ہندوؤں کو کچلنے کا حکومتی منصوبہ:
۔(27)۔اس سلسلے میں میں اپنے یقین محکم کی یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ حکومت مشرقی بنگال ہندوؤں کو صوبے سے نکال باہر کرنے کی سوچی سمجھی پالیسی پر ابھی بھی عمل پیرا تھی۔ آپ کے ساتھ میری گفتگو میں ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے اپنے اس نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہندوؤں کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کی یہ پالیسی مغربی پاکستان میں مکمل طو رپر کامیاب ہوچکی ہے اور مشرقی پاکستان میں بھی تکمیل کے قریب ہے۔ ڈی این براری کا بطور وزیر تقرر اور حکومت مشرقی بنگال کا اس سلسلے میں میری سفارشات پر غیر رسمی اعتراض صحیح معنوں میں اس نام سے مطابقت رکھتا ہے جسے یہ اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ پاکستان ہندوؤں کو کامل طمانیت وتحفظ کا مکمل احساس بہم نہیں پہنچا سکا۔ یہ اب ہندو دانشوروں سے نجات چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کسی بھی طرح ان سے متاثر نہ ہوسکے۔
مخلوط طرز انتخاب کو سردخانے میں ڈالنے کی حیلہ جوچالیں:۔
۔(28)۔ میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوچکا ہوں کہ طرز انتخاب کے سلسلہ کا ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں کی ذیلی کمیٹی کا تقرر کئے اب تین سال ہوگئے ہیں۔ مخلوط یا جداگانہ طرز انتخاب کا سوال گذشتہ دسمبر میں منعقدہ ایک کمیٹی کی میٹنگ میں غوروخوص کے لئے پیش ہوا، جب پاکستان کی مسلمہ اقلیتوں کے تمام نمائندگان نے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ پسماندہ اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کی حمایت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہم نے اچھوت ذاتوں کی جانب سے مخلوط طرز انتخاب کے ساتھ اچھوت ذاتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ دوبارہ گذشتہ اگست میں منعقدہ ایک میٹنگ میں غوروخوص کے لئے پیش ہوا۔ لیکن اس پر بغیر مباحثہ کئے میٹنگ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اس سلسلے میں پاکستانی حکمران کی طرف سے ایسے اہم معاملے پر ایسی مائل بہ گریز قسم کی چالیں چلنے کے پیچھے کیا محرک ہے۔
ہندوؤں کے لئے تاریک مستقبل:۔
۔(29)۔اب آئیے موجودہ صورتحال اور مشرقی بنگال میں دہلی سمجھوتہ کے نتیجہ میں بننے والے ہندوؤں کے مستقبل کی جانب، مجھے کہنا چاہئے کہ موجودہ صورتحال نہ صرف غیر اطمینان بخش ہے بلکہ قطعاً مایوسانہ ہے اور یہ کہ مستقبل مکمل طور پر تاریک اور ہولناک ہے۔ مشرقی بنگال میں ہندوؤں کا اعتماد ذرا سا بھی بحال نہیں ہوا۔ حکومت مشرقی بنگال اور مسلم لیگ نے یکساں طور پر معاہدہ کے ساتھ محض ردی کے کاغذ کا برتاؤ کیا ہے۔ خاص بڑی تعداد میں ہندو تارکین وطن، زیادہ تر چھوت ذات کا شتکاروں کی مشرقی بنگال میں واپسی اس بات کی علامت نہیں کہ اعتماد بحال ہوچکا۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا قیام اوربحالی مغربی بنگال یا انڈین یونین میں کہیں او رممکن نہیں۔ پناہ گزین زندگی کی صعوبتیں انہیں اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر منقولہ اشیاء اٹھانے اور غیر منقولہ جائیداد کو نبیڑنے یا بیچنے کے لئے لوٹ رہے ہیں۔ مشرقی بنگال میں اگر حالیہ کوئی سنگین فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا تو اسے دہلی سمجھوتہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی سمجھوتہ یا معاہدہ نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی یہ بالکل جاری نہیں رہتا۔
۔(30)۔یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ دہلی معاہدہ فی نفسہ ماحصل نہیں تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان متعدد تنازعات او رکشمکش کے حل میں مؤثر طور پر معاون ہوسکیں۔ لیکن سمجھوتے کے بعد چھ ماہ کے اس عرصہ کے دوران کوئی تنازع یا کشمکش حقیقتاً حل نہیں ہوسکا۔ اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے اندرون اور بیرون ملک فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ اور ہندوستان دشمن پروپیگنڈہ زور وشور سے جاری ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان بھر میں یوم کشمیر منانا پاکستانی فرقہ وارانہ ہندودشمن (Anti India)پروپیگنڈہ کا واضح ثبوت ہے۔ گورنر پنجاب (پاکستان) کا حالیہ تقریر میں یہ کہنا کہ پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے، نے پاکستان کے انڈیا کی طرف حقیقی رویے کا بھانڈا پھوڑ ڈالا ہے۔ یہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھائے گا۔
مشرقی بنگال میں آج کیا ہورہا ہے:۔
۔(31)۔مشرقی بنگال میں آج کیا حالات ہیں؟ دیش کے بٹوارے سے اب تک تقریباً پچاس لاکھ ہندو چھوڑ چھاڑ کر جاچکے ہیں۔ گذشتہ فروری کے فسادات کے علاوہ ہندوؤں کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی کی کئی اور وجوہات ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ہندو وکلاء، طبیبوں، دکانداروں، تاجروں اور بیوپاریوں کے بائیکارٹ نے ہندوؤں کو اپنے ذریعہ معاش کی تلاش کے لئے مغربی بنگال کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ہندو مکانات پر بڑی تعداد میں قبضہ وہ بھی بغیر کسی قانونی طریقے پر عمل کئے اور مالکان کو کرایہ کی عدم ادائیگی، جو بھی کہہ لیں، نے انہیں ہندوستانی پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ ہندو مالکان کو کرایہ کی ادائیگی بہت پہلے ہی بند ہوچکی تھی مزید برآں انصار جن کے خلاف مجھے ہر طرف سے شکایات موصول ہوئیں، ہندوؤں کے تحفظ اور سکیورٹی کے لئے دائمی خطرہ تھے۔ تعلیمی معاملات اور تعلیمی اتھارٹی کے اختیار کردہ طریقہ ہائے کار سے استنباط نے سیکنڈری سکولوں اور کالجوں کے تدریسی عملہ کو اپنے پرانے شناساگردوپیش سے باہر نکلنے کے تصور نے خوفزدہ کردیا۔ وہ مشرقی بنگال چھوڑ گئے۔ اس کے نتیجہ میں زیادہ تر تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔
مجھے یہ اطلاعات مل چکی تھیں کے کچھ عرصہ پہلے تعلیمی مقتدرہ نے سیکنڈری سکولوں میں تمام کمیونسٹ اساتذہ اور طلباء کے لئے سکول کاکام شروع ہونے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت میں لازمی شرکت کے حکم نامہ کا مراسلہ جاری کیا تھا۔ ایک اور مراسلہ سکول ہنڈماسٹروں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بلڈنگ کے مختلف حصوں کو بارہ ممتاز مسلمانوں کی توقیر میں، جیسے کہ جناح، اقبال، لیاقت علی اور ناظم الدین وغیرہ کے نام سے پکاریں۔ ڈھاکہ میں ابھی پچھلے دنوں منعقدہ تعلیمی کانفرنس میں، صدر نے یہ منکشف کیا کہ مشرقی بنگال میں پندرہ سو(1500)انگلش ہائی سکولوں میں سے صرف پانچ سو (500) کام کررہے ہیں۔ طبی معالجین کی نقل مکانی کے سبب، بمشکل ہی مریضوں کے مناسب علاج کا کوئی طریقہ رہ گیا ہے۔ تقریباً تمام پنڈت جو ہندو گھروں میں گھریلو دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے تھے چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ پوجا کے اہم استھان تج دئیے گئے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ مشرقی بنگال کے ہندوؤں کے پاس بمشکل ہی وہ اسباب ہیں جن سے وہ اپنے مذہبی اشغال کی پیروی اور سماجی تقریبات کی بجا آوری کرسکیں، جیسا کہ شادی جہاں پنڈت کی خدمات ضروری ہیں۔ صناع کار جو دیوی دیوتاؤں کے بت بناتے تھے بھی چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ یونین بورڈز کے ہندو صدور کا مقام جبری اقدامات کے ساتھ ساتھ پولیس اور سرکل آفیسرز کی عملی مدد اور چشم پوشی کے ذریعے مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے۔ سکولوں کے ہندو ہیڈماسٹروں اور سیکرٹریوں کی جگہ مسلمانوں کو دی جاچکی ہے۔ چند ہندوسرکاری ملازمین کی زندگی اس درجہ بد حال بنادی گئی ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو یا تو ان کے مسلمان جونیئرز نے کچلا ہوا ہے یا پھر بغیر کسی مناسب یا کسی بھی وجہ کے ملازمت سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں چٹاگانگ کے ایک ہندو پبلک پراسیکیوٹر کو آمرانہ طو رپر ملازمت سے ہٹادیا گیا ہے جیسا کہ سری جکتا نیلائی سین گپتاکے دیے گئے بیان سے واضح ہوچکا ہے جن کے خلاف مسلم دشمنی ، تنگ نظری، تعصب یا بعض کاکوئی الزام نہیں۔
ہندوفی الواقع راندہ درگاہ:۔
۔(32)۔چوریوں اور ڈکیتیوں کا حتیٰ کہ قتل کے ساتھ ارتکاب پہلے کی طرح جاری تھا۔ ہندوؤں کی طرف سے کی گئی آدھی شکایات کا اندراج بھی تھانوں میں شایدہی کیا گیا۔ الغرض ہندو لڑکیوں کے اغواء اور ریپ کو اس درجہ گھٹا دیا جاتا، جس کی واحد وجہ یہ لگتی کہ مشرقی بنگال میں آج کل بارہ سے تیس سال کی ہندو ذات کی کوئی لڑکی نہیں رہتی۔ دیہاتی علاقوں میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے والی نچلے طبقے کی لڑکیوں کو بھی مسلمان غنڈوں نے نہیں بخشا۔ مجھے مسلمانوں کے اچھوت ذات لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے متعدد واقعات کی اطلاعات مل چکی ہیں۔ منڈی میں ہندوؤں کی فروخت کردہ پٹ سن اور دیگر زرعی اجناس کی قیمت کی مکمل ادائیگی مسلمان خریدار شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ درحقیقت جہاں تک ہندوؤں کا تعلق ہے، پاکستان میں قانون، انصاف اور عدل کی عمل داری نہیں۔
مغربی پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب:۔
۔(33)۔مشرقی پاکستان کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اب مجھے مغربی پاکستان خاص طور پر سندھ کا حوالہ دینے دیجئے۔ بٹوارے کے بعد مغربی پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ اچھوت ذات لوگ تھے۔ شاید یہ نوٹ کیا گیا ہو کہ ان کی خاصی بڑی تعداد کو اسلام قبول کرالیا گیا۔ صاحبان اقتدار کو بار بار کی عرضیوں کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی اغواء کردہ ایک درجن اچھوت ذات لڑکیوں میں سے صرف چار کو بازیاب کرایا جاسکا ہے۔ ان لڑکیوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اغواء کنندگان کے نام بھی حکومت کو دیے جاچکے ہیں۔ مغویان لڑکیوں کی بازیابی کے انچارج آفیسر کی طرف سے دیے گئے حالیہ آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’اس کاکام ہندو لڑکیوں کی بازیابی تھا اور’’اچھوت‘‘( شیدولڈ کاسٹ ) ہندو نہیں۔‘‘ ہندوؤں کی محدود تعداد کی حالت زار جو ابھی تک سندھ اورکراچی، پاکستان کے درالخلافہ میں رہ رہی ہے، انتہائی تاسف انگیز ہے۔ مجھے کراچی اور سندھ کے363 ایسے ہندو مندروں اور گردواروں کی ایک فہرست(جوہرگزمکمل نہیں ہے) موصول ہوچکی ہے جو ابھی تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں۔ کچھ مندر چمارکی دوکانوں، مذبح خانوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کئے جاچکے ہیں اور کسی ہندو کو واپس نہیں ملے۔ ان کی اراضی املاک کا قبضہ بغیر کسی نوٹس کے ان سے چھین کر مہاجر اور مقامی مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دو سو سے تین سو ہندوؤں کو تحویل داروں نے کچھ عرصہ پہلے ہی غیر تارک وطن قرار دے دیا تھا۔ لیکن تاحال ان میں سے کسی کو بھی جائیدادیں واپس نہیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ کراچی پنجراپول کا قبضہ اس کے متولیوں کو واپس نہیں کیا گیا۔ ہر چند کہ اسے کچھ عرصہ پہلے غیر تارکِ وطن پراپرٹی قرار دیا گیا تھا۔ کراچی میں مجھے بہت سے بدقسمت ہندو باپوں اور خاوندوں کی طرف سے ہندو لڑکیوں زیادہ تر اچھوت ذاتوں کے اغواء کی عرضیاں موصول ہوئیں۔ میں نے صوبائی حکومت ثانی کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں یا بہت کم تھا۔ میں نے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اطلاعات موصول کیں کہ اچھوت ذاتوں کی ایک خاصی بڑی تعداد جو ابھی تک سندھ میں رہائش پذیر ہے کو جبراً مسلمان بنالیا گیا ہے۔
پاکستان ہندوؤں کے لئے نحوست زدہ:۔
۔(34)۔جہاں تک ہندوؤں کا معاملہ ہے، پاکستان کی عمومی تصویرکا خلاصہ کرتے ہوئے، میں یہ کہنے میں غلط نہیں ہوں گا کہ پاکستان کے ہندوؤں کو ان کے اپنے گھروں میں تمام مضمرات کے ساتھ بے وطن کردیا گیا ہے۔ ان کا اس کے علاوہ اور کوئی قصور نہیں کہ وہ ہندو مذہب کے پیروکار ہیں۔ مسلم لیگی قائدین کی طرف سے بار بار ایسے اعلانات کرنا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے اور ہوگی۔ اسلام کو تمام دنیوی برائیوں کے لئے بطور اکسیر علاج کے تجویز کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم کی بے موازنہ جدلیات میں، آپ نشاط آور اسلامی مساوات اور بھائی چارے کا جمہوری امتزاج پیش کرتے ہیں۔ شریعت کے اس پرشکوہ بندوبست میں، مسلمان اکیلے ہی حکمران ہوں گے جبکہ ہندو اور دوسری اقلیتیں ذمی، جو کہ قیمتاً تحفظ کی حقدار ہوں گی، اور جناب وزیراعظم آپ دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں کہ وہ قیمت کیا ہے۔
ایک متوحش اور طویل جدوجہد کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ہندوؤں کے رہنے کی جگہ نہیں اور یہ کہ ان کا مستقبل تبدیلی مذہب اور کاروبار کی بیخ کنی کی نحوست سے تاریک ہوچکا ہے۔ اعلیٰ طبقہ کے ہندوؤں اور سیاسی طو رپر باشعور اچھوت ذاتوں کی بڑی تعداد مشرقی بنگال چھوڑ کر جاچکی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ہندو جو پاکستان میں مطعون ٹھہرائے جاتے رہیں گے تو تدریجی مراحل اور منصوبہ بند طریقوں سے یا تو مسلمان کرلیا جائے گا یامکمل طو رپر نابود، یہ واقعی حیران کن ہے کہ آپ جیسا تعلیم یافتہ، متمدن اور تجربہ کار انسان ایک ایسے نظریہ کا شارح بن چکا ہے جو انسانیت کے لئے بہت بڑے خطرے سے معمور اور مساوات اور فہم عامہ کو پائمال کرنے والا ہے۔
میں شاید آپ اور آپ کے رفقار کاروں کو بتا سکوں کہ چاہے جو بھی برتاؤ یا بہکاوا ہو، ہندو خود کو پیش نہیں کریں گے کہ ان کی جنم بھومی میں ان کے ساتھ ذمیوں کا سا سلوک روارکھا جائے۔ آج وہ شاید،خوف اور دہشت کی وجہ سے اپنا گھر بار ترک کردیں اور کئی کر چکے ہیں۔ کل وہ زندگی کی اقتصادیات میں اپنی صحیح جگہ کے لئے جدوجہد کریں گے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والے پل کی کوکھ میں کیا ہے؟ جب میں قائل ہوگیا کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں میرے اقتدار کا تسلسل ہندوؤں کے لئے کسی طور معاون نہیں، پاکستان کے ہندوؤں اور غیر ممالک کے عوام کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر پیدا کرکے کہ ہندویہاں اپنی زندگی، جائیداد اور مذہب کے حوالے سے عزت اور احساس تحفظ کے ساتھ رہ سکتے ہیں، میں اپنا ضمیر مطمئن نہیں رکھ سکتا۔
مسلمانوں کے لئے بھی کوئی شہری آزادی نہیں:۔
۔(35)۔اور ان مسلمانوں بارے میں کیا کہوں جو لیگ حکمرانوں اور ان کی کرپٹ او رنااہل بیوروکریسی کے دلکش حلقے سے باہر ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی شے مشکل سے ہی ہے جسے شہری آزادی کہا جاسکے۔ مثال کے طور پر، خان عبدالغفار خان، جن سے زیادہ پارساکسی مسلمان نے کئی سالوں سے اس زمین پر قدم نہیں رکھا او ران کے جواں مرد محب وطن بھائی ڈاکٹر خان صاحب کا مقدر، قبل ازیں پاکستان کی شمال مغربی اور مشرقی پٹی کے لیگی لیڈران کی ایک بڑی تعداد کو بھی بغیر کسی مقدمہ کے حراست میں رکھا گیا۔ حسین شہید سہروردی جو بنگال میں لیگ کی بڑے پیمانے پر فتح کے حقدار ہیں، عملی طو رپر پاکستانی قیدی ہیں، جنہیں اجازت سے نقل وحرکت کرنی پڑتی ہے اور احکامات کے تابع لب کشائی۔ مسٹر فضل الحق جن کی بنگال کے بڑے بوڑھے کے طور پر دل وجان سے تکریم کی جاتی ہے، جو اس وقت مشہور قرار داد لاہور کے مصنف ہیں، ڈھاکہ ہائی کورٹ میں انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اورنام نہاد اسلامی منصوبہ بندی اتنی ہی بے رحم ہے جتنی کہ کامل۔
مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے بارعمومی طور پر جتنا کم کہا جائے اتنا بہتر ہے ان کے ساتھ آزاد ریاست کی خود مختار ومقتدر اکائیوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس انہیں ملا کیا؟ مشرقی بنگال پاکستان کے مغربی حصے کی کالونی میں بدل گیا، حالانکہ اس کی مشمولہ آبادی پاکستان کے تمام یونٹوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ یہ کراچی کا ایک کمزور وغیر موثر ماتحت تھا جو آخر الذکر کے ارشادات کی تعمیل اور احکامات کی بجا آوری کررہا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان اپنی ولولہ انگیزی میں، رزق چاہتے تھے اس کے برعکس انہیں اسلامی ریاست اور شریعت کے پر اسرار عمل سے سندھ اور پنجاب کے بنجر ریگستانوں سے پتھر ملے۔
میرا اپنا المناک اور تلخ تجربہ:۔
۔(36)۔پاکستان کی عمومی حالت زار اور دوسروں کے ساتھ روارکھی گئی بہیمانہ وظالمانہ ناانصافی کو ایک طرف رکھتے ہوئے، میرا اپنا تجربہ کم افسوسناک، تلخ اور قابل دید نہیں۔ آپ نے وزیراعظم او رپارلیمانی پارٹی کے قائد کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے مجھے ایک بیان جاری کرنے کو کہا، جو میں نے گذشتہ 8ستمبر کو کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں غلط بیانیوں اور آدھی سچائیوں پر مشتمل کوئی بیان جاری کرنے پر رضامند نہ تھا، جو کہ غلط بیانیوں سے زیادہ بدتر تھے۔ میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ میں آپ کی درخواست رد کرتا جب تک کہ میں آپ کے ساتھ، آپ کی قیادت میں بطور وزیر کام کررہا تھا۔ لیکن میں مزید اپنے ضمیر پر جھوٹے ڈھونگ اور غلط بیانی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ او رمیں نے آپ کی وزارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو میں یہیں آپ کے حوالے کررہا ہوں، مجھے اُمید ہے آپ بغیر کسی تاخیر کے منظور کرلیں گے۔ یقیناًآپ اس منصب کو اُس طرح جیسے آپ کی اسلامی ریاست کے مقاصد کے لئے مناسب اور مؤثر طو رپر موزوں ہو، تقسیم یا ختم کرنے کے مجاز ہیں۔
آپ کامخلص
جے این منڈل
آٹھ اکتوبر1950ء