صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور صحافی اِ س چوتھے ستون کے ناصرف وہ معمار ہیں جنہوں نے ہر دور میں اِس ستون کی بنیادوں میں اپنا لہو دیا بلکہ اَن گنت قربانیاں دیں،بے شمار تکلیفیں اُٹھائیں ،کال کوٹھریوں میں دردناک صعوبتیں برداشت کیں،جیلیں میں قیدیں کاٹیں،ناقابلِ بیان تشددکا سامنا کیا،آمروں کے کوڑے کھائے،جمہوری ڈکٹیٹروں سے ہڈیاں پسلیاں تڑوائیں،ریاستی فورسز سے سر پھڑوائے،دہشت گردوں سے سر کٹوائے ۔
آمر ضیاء الحق کے جرنیلی دورِ حکومت میں فخرصحافت ،سینئر صحافیوں ناصر زیدی ،خاورنعیم ہاشمی اور اقبال جعفری جن کی جرأت ،بہادری اور جمہوریت پسندی آج بھی صحافیوں کے لئے باعثِ فخر اور قابلِ تقلید سمجھی جاتی ہے کو تختہ پر لٹکا کر کوڑے مارے گئے تو اِن کے منہ سے سی تک نہ نکلی بلکہ کوڑے کھانے کے بعد جب تختہ سے اُترے توچہروں پر کوڑوں کی تکلیف کی بجائے آمریت کے خلاف فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر درباری بھی سر پیٹتے رہ گئے۔
کوڑے کھانے والے اِن تینوں قابلِ فخر صحافیوں نے وقت کے جابرآمر حکم پر کوڑے تو کھا لئے مگر نہ جُھکے،نہ بِکے اور نہ ہی آمری درباری کے درباری بنے۔ظلم و ستم کی یہ کہانی ابھی تک ختم کہاں ہوئی ہے،آج بھی لاتعداد صحافی سچ بولنے اور عوام تک سچ پہچانے کی پاداش میں اپنا نام ” لاپتہ افراد” کی فہرست میں لکھوا چکے جبکہ متعدد راہ حق کے مسافروں کو تو شہید کر دیا گیا کئی کی تشدد شدہ اور مسخ شدہ لاشیں کئی دِنوں اورمہینوں بعد ملی۔
کون نہیں جانتا کہ سلیم شہزاد اغواء ہوئے،لاپتہ کئے گئے اور پھر بدترین تشدد شدہ نعش عہدِ صحافت کے منہ پے زوردار طماچے کی طرح دے ماری گئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ہڈیاں پسلیاں تک ٹوٹی ہوئی بتائی گئیں،قاتل کون ہے ؟ آج تک پتہ نہیں چل سکا۔
نوجوان صحافی ولی خان بابر کے سرمیں سرِ راہ گولیاں مار دی گئیں۔چار دِن کا احتجاج ،اخباروں پر مقتول کی تصویر والے فیچرز،ٹی وی چینلزدو چار دِن شہید کے کی شہادت کے پیکیجز اور قاتلوں کو پکڑنے کے حکومتی اعلان اور لواحقین کو جھوٹی تسلیاں اور بس۔
سینئر صحافی حامد میر نے آئینہ دکھایاتو بڑے بڑے ناراض ہوئے۔دھمکی آمیز کالوں سے ڈرایا دھمکایا گیا،کامیاب نہ ہوئے تواُنکی گاڑی کے نیچے بم لگایا گیامگر وہ دیا کیا بُجھے جسے روشن خُدا کرے کے مصداق بچ نکلے۔پھر بھی اُن کے قلم کمان سچ اُگلنا نہ چھوڑا تو کراچی میں دِن دیہاڑے سیکڑوں لوگوں کی روانی میں اُنکی گاڑی پر“نامعلوم” افراد کی جانب سے قاتلانہ حملہ ہوا۔حملہ آوروں نے اپنی بندوقوں میں بھرے پورے کے پورے بارودی میگزین خالی کئے اوراپنی طرف سے انہیں مار کے اطمنان سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے چل دئیے۔
مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے کے مصداق ایک بار پھر موت کو شکست دے کر جیون کی بازی جیت گئے۔پھر ہی احتجاج ،رونا دھونا ہوا اور پھر وہی حملہ آوروں کو پکڑنے کے حکومتی اعلان اور پھر سب بھول گئے مگرجسم پر چھ گولیوں کے نشان آج بھی میر صاحب سے سوال کرتے ہوں گے کہ کیا اُنکے حملہ آور گرفتار ہوئے؟اِس سب کچھ کے باوجودکیا یہ نڈر صحافی ڈر گیا ؟نہیں حامد میر آج بھی اُسی طرح نہ صرف سچائی کی راہ پر گامزن ہیں جیسے کے پہلے بلکہ شاید اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ نڈر ہوگئے ہیں۔
کسی سیاستدان پر ایک کنکربھی آن گرے تو وہ خوف کے مارے سو نہیں پاتے راتوں کی نینداور دن کا چین گنوا لیتے ہیں اور پھر کسی پُر سکون ملک میں جا کر سیاسی پناہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔کسی جاگیردار اور صنعتکار کو کوئی جھوٹی دھکی ہی سہی مگر جان بچانے بیرون ممالک بھاگنا اولین ترجح سمجھتے ہیں۔مگریاریہ صحافی بھی پتہ نہیں کس چکنی مٹی کے بنے ہوئے ہوتے ہیں،نہ اِن پر جان سے مارنے کی دھمکیاں اَثر کرتی ہیں اور نہ ہی گولیاں اَثر انداز ہوتی ہیں۔زبان کھینچوا لیتے ہیں مگرسچ بولنا نہیں چھوڑتے۔سر کٹوا لیتے ہیں مگر وقت کے فرعونوں اورقارونوں کے آگے اپنا سرہرگزہرگز نہیں جُھکاتے۔
بات دور نکل نہ جائے،فرمانِ عالی شان ہے کہ مزدور کی اُجرت اُسکا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کیا جائے۔مگر ہائے رے صحافی تیری قسمت،تُو نے بھی تقدیر پائی ہے۔جِس ادارے کے لئے جان ہتھیلی پہ رکھ کے اِتنی تکلیفیں برداشت کرتا ہے ۔کڑکتی دھوپ زدہ دِن ہو یااندھیری راتین،گرمیوں کی شکر دوپہر ہو یا دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی راتیں،شدید دھندیں ہوں یا طوفانی بارشیں،زلزلے ہوں یا تباہ کُن سیلاب،کرفیو کی سنسانیاں ہوں یا دہشت گردوں کی تڑتڑاتی گولیوں کا دہشت ناک شور،باردروں پرٹینکوں توپوں کے بارودی گولوں کی گن گرج ہو یا مارٹر گولوں کی بارش،پولیس کی لاٹھیاں ہوں یا آنسو گیس کی شیلنگ، جنگ کے میدان ہوں یا آفات زدہ علاقے غرض کہیں بھی صحافی پیچھے نہیں ہوتا بلکہ ہر محاز پر سب سے آگے اور سب سے پہلے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کراپنے فرائض کی ادایگی کے لئے اور عوام کو باخبر رکھنے کے لئے سچائی سے آگاہ کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں اور کس کے لئے ؟؟؟
کیا صحافیوں کے ماں باپ،بیوی بچے،بہن بھائی،خاندان نہیں ہوتے ؟ کیا انہیں بھوک پیاس نہیں لگتی ؟ کیا ان کی معاشرتی ذمہ داریاں نہیں ہوتی؟ کیا ان کی عیدیں ،شبراتیں اور چاند راتیں نہیں ہوتیں؟ یعنی ایک صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے سب رشتے ناطے ،دِن دیہاڑ اورخوشیوں غمیوں کے لمحات تک کی قربانی دیتا ہے مگر جب معاوضے کی باری آتی ہے تومہینوں تک اِن کو انپے اداروں سے تنخواہ نہیں ملتی۔اور اگر کئی ماہ بعد مالکان سخاوت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے جو معاوضہ دیتے ہیں اِس سے زیادہ تو وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں اپنے قیام کے دوران ویٹر کو ٹِپ دے دیتے ہیں۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم صحافی آخر کب تلک آزادیء صحافت اورآزادیء اظہارِ رائے کے لئے ڈانگیں اور سوٹے اور گولیاں کھائیں گے ؟؟ کب تک عیدوں اور بکرعیدوں پر اپنے گھروں میں صرف اِس لئے نہیں جائیں گے کہ ماں باپ،بیوی بچوں کی پُرامید نظریں ہمیں سوالیاانداز میں دیکھیں گی تو ہم اُن نظرویں کیسے ملائیں گے۔کب تک ہم اپنی سفید پوشی کو چُھپانے کے لئے بِلا معاوضہ اور مفت میں اپنے اخباری و ٹی وی مالکان کے لئے دِن رات کام کرتے رہیں گے؟
صحافیوں دِن رات کی اپنی محنت سے مالکان کو توکروڑ پتی بنا دیامگر انہوں نے ہر محاز پر عامل صحافی کو کوڑیوں کا محتاج بنانے کے حربے استعمال کئے۔ایک سے لے کر آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ تک کی ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ میڈیا مالکان خود تو پیسے کی دوڑ میں ایک ہیں مگر صحافیوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کی ہر سازش کے پیچھے اِنہی کے مکروہ چہرے چُھپے نظر آتے ہیں۔خود تو وہ آرام و آسائش بھری شہنشائی زندگی گذار رہے ہیں مگر جب عامل صحافی کی بات آئے تو کہتے ہیں صحافی خوشحال،مگر کیوں ؟؟
♣