فیض صاحب

شاہد احمد دہلوی

taa
کوئی تیس سال پہلے کا ذکر ہے کہ دلی میں سجاد ظہیر ایک دفعہ آئے تو ڈاکٹر اخترحسین رائے پوری کی معرفت مجھ سے ملنے کے خواہشمند ہوئے۔ کتاب ’’انگارے‘‘ شائع ہوکر ضبط ہوچکی تھی۔ یہ ساجھے کی ایک باؤلی ہنڈیا تھی جو ادب کے چوراہے پر پھوٹی تھی۔ اس کے ایک ساتھی سجاد ظہیر بھی تھے اس لئے میں ان کے نام سے خوب واقف تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنے گھر چائے پر بلایا اور سجاد ظہیر سے ملوایا۔

بہت ہوش مند آدمی نکلے۔ لندن میں کئی سال رہ کر واپس آئے تھے۔ نہایت سنجیدہ اور بردبار، ہنستے بھی تھے تو خندہ دنداں نماسے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین دلی میں قائم کرنے کی تجویز پیش کی اور اس انجمن کے مقاصد بیان کئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ازراہ مہربانی مجھے اس کام کیلئے سب سے زیادہ موزوں قرار دیا۔ شاید اس وجہ سے کہ اس وقت ساقی کا سورج چڑھتا چلاجارہا تھا۔ میں نے کہا’’اگر ترقی پسندی اسی کانام ہے کہ ادب کو زندگی کا آئینہ دار بنایا جائے تو ٹھیک ہے۔ انجمن قائم ہوجائے گی ۔

اور انجمن انصارناصری اور فضل حق قریشی کی مدد سے قائم ہوگئی۔ دلی کے تقریباً سبھی بڑے ادیب، اُردو او رہندی کے اس کے جلسوں میں شریک ہونے لگے اور مضامین پڑھنے لگے۔ جلسے باری باری مختلف گھروں میں ہوتے تھے۔ کبھی میرے ہاں، کبھی ناصری صاحب کے ہاں ، کبھی خیری صاحب کے ہاں اور کبھی جتندرکمار کے ہاں۔ ایک ایسا جلسہ چاندنی چوک میں نیل کے کٹہرے کے پہلو میں ڈاکٹر شوکت انصاری کے بالا خانے میں ہوا۔ یہ ڈاکٹر صاحب مشہور کانگریسی لیڈر ڈاکٹر انصاری کے بہت قریبی عزیز تھے اور انہی کی طرح گاڑھے کے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ حالانکہ برسوں پیرس میں رہ کر آئے تھے۔

اس جلسے میں ایک طرف ایک ایسے صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جن سے ہم میں سے کوئی وقف نہیں تھا۔ ہماری انجمن کے دو ایک جلسوں کے بعد ہر جلسے میں دو ایک نئے آدمی آنے لگے تھے۔ پہلے تو ہم انہیں ادیب یا شاعر سمجھتے رہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سی آئی ڈی والے ہوتے ہیں۔ اگلی دفعہ میں نے انہیں جلسے میں سے نکال دیا اور ان کے محکمے کے افسر عبدالرحمن صاحب سے شکایت کی۔ وہ بھی گرگ باراں دیدہ تھے بولے’’ آپ کو روس سے کتنی رقم ملتی ہے؟‘‘میں نے کہا’’ کچھ بھی نہیں۔‘‘ بولے ’’تو پھر آپ ان کمیونسٹوں میں کیسے پھنس گئے؟‘‘ میں نے کہا’’روس یا کمیونسٹوں سے اس انجمن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ بولے۔’’آپ شریف آدمی ہیں اور آپ کا ریکارڈ بالکل صاف ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اس سے الگ ہوجائیں یا کوئی اور انجمن بنالیں۔ ورنہ آپ مصیبت میں پھنس جائیں گے۔‘‘

میں نے گھر آکر سجاد ظہیر کو پوری روداد لکھی اور پوچھا کہ اگر کل کلاں کو میں قید ہو گیا تو آپ میری کیا مدد کرسکیں گے؟ جواب آیا۔’’ہم کسی قسم کی مدد نہیں کرسکیں گے۔‘‘ ان کے اس خلوص سے میں اتنا خوش ہوا کہ میں نے دلی کی نجمن فوراً بندکردی اور اس کی بجائے’’انجمن تہذیب ادب‘‘ قائم کردی۔ جس نے اپنی پیش روانجمن سے کہیں بڑھ چڑھ کر کام کیا اور اس کے جلسوں میں سی آئی ڈی کے لوگ بھی نہیں آتے تھے۔

ہاں تو ڈاکٹر شوکت انصاری کے ہاں جلسے میں جو ایک اجنبی شخص نظر آیا تو میں نے ڈاکٹر صاحب کے قریب جاکر پوچھا ’’ یہ کون ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کسی قدر حیران اور شرمندہ ہوکر بولے’’ آپ انہیں نہیں جانتے؟ یہ فیض احمد فیضؔ ہیں۔ اسلامیہ کالج امرتسر میں پروفیسر ہیں۔‘‘ میں پھر بھی نہیں سمجھا اور اپنی لاعلمی چھپانے کیلئے خاموش ہورہا۔ جلسہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے صدارت کی۔ مضامین پڑھے گئے۔ ان پر گفتگو ہوئی۔ نظمیں پڑھی گئیں۔ واہ واہ ہوئی۔ آخر میں جناب صدر نے فیض صاحب سے کلام سنانے کی درخواست کی۔ انہوں نے ازراہ انکساری نہیں نکڑ کی۔ مگر جب انہوں نے اپنی ایک نظم سنائی تو ہم سب کے کان کھڑے ہوئے اور دیدے پھٹے کہ یہ پر بین شاعر اب تک کہاں چھپارہا؟ پھر تو چاروں طرف سے ایک اور ایک اور کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم سب ان کا کلام سن کر بہت خوش ہوئے اور وقت رخصت میں نے فیضؔ صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کی تعریف کی۔

یہ فیض صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔

اس کے بعد ، بلکہ تین چار سال بعد لاہور میں مشہور ادیب ایم اسلم صاحب کے مکان پر ڈاکٹر تاثیر مرحوم کے ساتھ فیض صاحب سے دوسری ملاقات ہوئی۔ وہ کم گو آدمی ہیں اور مجھے بھی زیادہ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ لہٰذا سلام دعا اور مزاج پر سی سے آگے بات نہ چلی۔ ان کے چلے جانے کے بعد اسلم صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر تاثیر کی میم صاحب کے ساتھ جوان کی ایک بہن آئی تھیں۔ ان سے فیض صاحب کی شادی ہوگئی ہے۔ لہٰذا تاثیر اور فیض اب ہم زلف ہوگئے ہیں۔

جب دوسری عالمگیر جنگ نے زور پکڑا تو یہ عجب کا یاپلٹ ہوئی کہ ہمارے بعض ادیب جو فرنگی حکومت کے سخت مخالف تھے فوجی دفتروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کیلئے ایک دم سے چولابدل کر حکومت کے وفادار ہوگئے۔ سب سے پہلے مجید ملک فوجی وردی پہنے نئی دلی میں دکھائی دئیے۔ مجھے تو جھٹکا سالگا مگر وہاں آنکھ پر میل تک نہیں تھا۔ ان کے بعد ڈاکٹر تاثیر ایک فوجی دفتر کے ڈپٹی ڈائرکٹربن کرگئے۔ انہیں دیکھ کر اور بھی زیادہ افسوس ہوا کیونکہ یہ تو کھدرکا کرتا اور کھدر کا پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ ان کے بعد فیض صاحب دکھائی دئیے کپتان کی وردی پہنے ہوئے حدیہ کہ کچھ دنوں بعد چراغ حسن حسرتؔ بھی وردی پہنے ایک فوجی اخبار کی ایڈیٹری کرنے لگے۔

ایک صاحب تھے عارف آل انڈیا ریڈیو میں، انہوں نے بھی ریڈیو چھوڑ کر وردی پہن لی، ایک اور صاحب تھے بدرؔ ، وہ بھی وردی میں دکھائی دینے لگے۔ حدیہ کہ ن م راشد بھی ریڈیو چھوڑ کر وردی پوش ہوگئے۔ وردی میں سب سے ہنگم حسرتؔ مرحوم اپنے بے ڈول جسم اور فٹ بھرآگے چلنے والی توندکی وجہ سے لگتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے وردی کو نہیں بلکہ وردی نے انہیں پہن لیا ہے اور سب سے زیادہ افسوس فیض صاحب کو دیکھ کر ہوتا تھا کہ یہ شریف آدمی کیوں اس چکر میں پھنس گیا؟ اس وقت روایت یہ مشہور تھی کہ تاثیر نے فیض کو پھانسا ہے۔ تاکہ وہ فخر سے یہ نہ کہہ سکے کہ دیکھو میں نے خط غلامی نہیں لکھا مرحوم سے یہ کچھ بعید بھی نہیں تھا کہ
ہم تو ڈوبے ہیں صنم کوبھی لے ڈوبیں گے
کہہ کر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں۔

جنگ کے زمانے میں دلی میں ادیبوں کی اچھی خاصی کھیپ آگئی تھی۔ احمد شاہ بخاری (پطرس) ریڈیو میں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے اپنے گردادیبوں کا خاصہ بڑا حلقہ قائم کر لیا تھا۔ ن م راشد ، شوکت تھانوی، انصارناصری، عشرت رحمانی، غلام عباس، محمود نظامی، بہزاد لکھنوی تو جنگ سے پہلے ہی ریڈیو میں آچکے تھے ۔ جنگ کے زمانے میں چراغ حسن حسرتؔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ، منٹو، میراجی، اوپندرناتھ اشک، راجند رسنگھ بیدی، حامد علی خاں اور کرشن چندر بھی ریڈیو پر آگئے۔ فوجی دفتروں میں مجید ملک، تاثیر، فیض اور بدر آگئے تھے۔ سونگ پبلی سٹی میں حفیظ جالندھری تھے اور پولی ٹیکنک میں حمیداحمد خان۔

پطرس کے اشارے پر ایک اونچے درجے کا ادبی حلقہ نئی دلی میں بنایا گیا اور اس کے جلسے کبھی پطرس کی کوٹھی پر اور کبھی تاثیر کے بنگلے پر ہونے لگے۔ مجھے بھی خبر نہیں کیوں یاد فرما لیا جاتا تھا۔ پطرس اگر واقعی دل سے کسی کی عزت کرتے تھے تو وہ پروفیسر مرزا محمد سعید تھے۔ جن سے انہوں نے ایک زمانے میں پڑھا تھا۔ ان کی بے اندازہ علمیت کے پطرس قائل تھے۔ اور اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ حلقے کے پہلے جلسے میں مرزا صاحب بھی شریک ہوئے تھے۔ محمود نظامی نے‘ اردو شاعری میں عورت، کے عنوان سے مضمون پڑھا۔ اس پر گفتگو ہوئی اور کوئی بات ایسی نکلی کہ اس پر پطرس ، مرزا صاحب پر دوچار لفظ بول کر خاموش ہوگئے۔

پطرس نے فیض صاحب کو اشارہ کیا اور خبر نہیں انہوں نے دانستہ یا نادانستہ آغاز کلام اس فقرے سے کیا’’یہ تو مرزا صاحب آپ جانتے ہی ہیں کہ یونان کی تہذیب روا کی تہذیب سے قدیم ترہے۔ اتنا سننا تھا کہ مرزا صاحب کو جلال آگیا۔ چمک کر بولے‘‘ جی ہاں، میں جانتا ہوں اور اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں اور پھر جوان کے علم کے سمندر میں طوفان آیا ہے تو انہوں نے آدھ گھنٹے میں قدیم تاریخ کو کھنگال کر رکھ دیا۔ بخاری صاحب زیرلب مسکرامسکرا کر فیضؔ صاحب کی طرف دیکھتے رہے۔ جن کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جارہا تھا۔ پطرس نے چپکے سے میز پر چائے کا سامان لگوایا اور مرزا صاحب کو لکچرختم ہوتے ہی اعلان کردیاکہ’’آئیے حضرات چائے ٹھنڈی ہورہی ہے‘‘۔

فیض صاحب کی طرح ہم سب کو بھی مرزا صاحب کی تقریر میں مزہ آگیا اور ہمیں اندازہ ہوگیا کہ پطرس جو عزت مرزا صاحب کی کرتے ہیں واقعی مرزا صاحب اس کے مستحق ہیں۔ اس ایک جلسے کے بعد مرزا صاحب پھر کسی جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان جلسوں میں فیض صاحب کاکلام اکثر سننے میں آجاتا تھا۔ ایک دفعہ دلی کے ٹاؤن ہال میں ایک بہت بڑا مشاعرہ ہوا تھا۔ جس کی صدارت پطرس نے کی تھی۔ اس میں فیضؔ صاحب نے’’برفاب سے جسم‘‘ والی نظم سنائی تھی۔ ایک صاحب جو میرے برابر بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے پوچھنے لگے کہ’’برف سے جسم تو ہوتے تھے یہ برفاب سے جسم کیا ہوتے ہیں؟ میں نے کہا۔’’جو برف جیسے نہیں بلکہ برف کے پانی جیسے ہوں،‘‘ بولے’’لاحول ولاقوۃ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ جو لطف برفاب میں ہے وہ برف میں کہاں، سترسال پہلے غالبؔ بھی توکہہ گئے ہیں۔

’’خس خانہ وبرفاب کہاں سے لاؤں؟‘‘ کوئی توبات ہے جو انہوں نے برف نہیں باندھا۔ برفاب باندھ گئے۔‘‘ ناراض ہوکر منہ پھیرلیا۔

جنگ کا ہی زمانہ تھا کہ کرشن چندرایک شام کو کتب خانہ علم وادب پر اردو بازار میں آئے۔ یہاں مغرب اور عشاء کے درمیان ادیبوں اور شاعروں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ جامع مسجد میں جب عشاء کی اذانیں ہونے لگیں۔ تو ہم سب اپنے اپنے گھر جانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کرشن چندر مجھے باتوں میں لگا کر ایڈورڈپارک لے گئے اور بہت پس وپیش کے بعد بولے کہ’’میں ایک ناول لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے شائع کریں گے؟‘‘ میں نے کہا۔’’ضرور شائع کروں گا‘‘ بولے۔’’توکیا ممکن ہے کہ آپ مجھے اس کی قیمت ایک ہزار پیشگی دے دیں؟‘‘ میں نے کہا’’روپیہ کب چاہئے؟’’بولے’’جب آپ دے سکیں۔ میں کشمیر جاکر ایک مہینے میں ناول لکھ لاؤں گا۔‘‘ اور واقعی میں جب ایک مہینے بعد وہ کشمیر سے واپس آئے تو انہوں نے میرے گھر آکر’’شکست‘‘ کا مسودہ میرے حوالے کردیا۔ ڈھائی مہینے بعد یہ ناول شائع ہوگیا اور اس کی دھوم مچ گئی۔ ڈاکٹر تاثیر نے ایک فرضی نام سے اس پر تنقید لکھی، جس کاالٹا اثر ہوا کہ ناول کی شہرت اور بھی زیادہ ہوگئی۔

اب جسے دیکھئے وہ کہہ رہا ہے کہ میں بھی ناول لکھوں گا۔ اشک نے کہا’’ میں نے بھی ناول لکھنا شروع کردیا ہے مگر میں پندرہ سولوں گا۔’’میں نے کہا۔ اگر شکست سے بہتر لکھو گے تو پندرہ سوہی دوں گا۔ مگر وہ ناول نہیں لکھا گیا۔ عصمت چغتائی نے’’ٹیڑھی لکیر‘‘ لکھنا شروع کردیا۔ منٹو نے ایک ناول دھرگھسیٹا اور خود ہی اسے ناپسند بھی کردیا۔ سنا کہ ڈاکٹر تاثیر ناول لکھنے کو کہہ رہے ہیں۔ ان سے مل کر دریافت کیا تو کہنے لگے کہ’’ارادہ تو ہے۔ مگر آپ فیض سے لکھوائیے‘‘ فیض صاحب سے ان کے فوجی دفتر میں ملا، بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ بولے۔’’چھ سوروپے پیشگی دیدیجئے۔‘‘ میں نے چیک وہیں ان کے حوالے کیا۔

حسرت صاحب سے ملاقات ہوئی تو بولے’’مولانا یہ آپ نے کیا ناول شائع کیا ہے؟’’ میں نے کہا آپ لکھیے نا’’بولے‘‘ دوسوروپے پیشگی دے جائیں‘‘ ان کی خدمت میں بھی چیک پیش کردیا۔ دوتین مہینے بعد فیض صاحب نے روپیہ واپس کردیا کہ ناول نہیں لکھا گیا۔ حسرتؔ صاحب نے نہ ناول دیا اور نہ روپے واپس کئے۔ بلکہ ان روپوں کا کبھی بھول کر بھی ذکر نہیں کیا اور میں نے بھی انہیں اس خوف سے یاددلانا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں وہ سچ مچ ناول لکھ ہی دیں۔ فیض صاحب کی تنہامثال ہے کہ انہوں نے روپیہ واپس کردیا۔ور نہ کم وبیش پندرہ ہزار روپیہ انہی پیشگیوں میں ڈوبا اور پاکستان آنے کے بعد تو میں نے پبلشنگ کے کام سے توبہ ہی کرلی۔
رہا کھٹکانہ چوری کا، دعادیتا ہوں رہزن کو

فوجی خدمت سے سبکدوش ہونے کے بعد فیض صاحب ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر ہوگئے۔ چراغ حسن حسرتؔ بھی اسی دفتر میں آگئے تھے۔ ان حضرات نے اسی اخبار کو چار چاند لگا دئیے۔ عام اخباروں سے اس کی نمود مختلف تھی۔ خبروں کے علاوہ اس کاادبی حصہ بھی بڑا جاندار ہوتا تھا۔ یہ اخبار بڑھتا ہی چلاگیا۔ جہاں تک کہ سب اردو کے اخباروں سے بازی لے گیا۔انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی فیض صاحب ہی تھے۔ اردو کے مضامین توفیض صاحب کے لکھے ہوئے شاذہی دیکھنے میں آئے۔ البتہ انگریزی کے مضامین کئی دفعہ دیکھنے میں آئے۔ بہت سلجھے ہوئے اور پر مغز ہوتے تھے۔

افسوس ہے کہ فیض صاحب نے نثر لکھنے کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اپنی تمام اعلیٰ قابلیت کے باوجود اب تک کوئی مستقل تصنیف پیش نہیں کرسکے۔ اور مجھے انجیل مقدس کا وہ قصہ یاد آتا ہے کہ ایک آقا جب سفر پر جانے لگا تو اپنے تین غلاموں کو ایک ایک سونے کا سکہ دے گیا۔ ایک غلام نے اسے خرچ کرڈالا۔ دوسرے نے اسے زمین میں گاڑدیا اور تیسرے نے سکہ بھی پیش کردیا اور وہ منافع بھی جو کاروبار میں اسے لگانے سے حاصل ہواتھا۔ آقا اس سے بہت خوش ہوا۔ اس کی ستائش کی اوراسے انعام بھی دیا۔ کاش فیض صاحب بھی اپنے ٹیلنٹ کو بروئے کار لاتے اور دوسرے کو اس سے مستفیض ہونے کا موقع دیتے۔

سناہے کہ ان کا ایک چھوٹا سا مجموعہ چند مضامین کا کبھی شائع ہوا تھا۔ اب تو وہ کہیں دیکھنے میں نہیں آتا اور اکثر لوگوں کو اس کانام بھی یاد نہیں رہا۔ انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کی ادارت بھی فیض صاحب ہی کو سونپی گئی تھی۔ اس کے بعد ایک بڑا شاندار ہفتہ وار پرچہ’’لیل ونہار‘‘ بھی امروز اور پاکستان ٹائمز کے ادارے سے شائع ہونا شروع ہواتھا۔ اس کے ایڈیٹر بھی فیض صاحب ہی مقرر کئے گئے تھے مگر ان کا نام شاید برائے نام ہی دیدیا گیا تھا۔ لیل ونہار‘‘ میں نہ تو فیض صاحب بالا لتزام کچھ لکھتے تھے اور نہ انہیں اس پرچے کے دفتر میں کبھی کام کرتے دیکھا۔

ایک اور معروف ادیب وصحافی تھے۔ سبط حسن یہی اس پرچے کا ساراکام کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد سبط حسن کو علیحدہ کردیا گیا۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ کمیونسٹ مشہور ہوگئے تھے۔’’لیل ونہار‘‘ جس تیزی سے بڑھا تھا۔ ان کی علیحدگی کے بعد اسی تیزی سے گرنا شروع ہوگیا۔ پروفیسر صوفی تبسم نے اسے بہت سنبھالنے کی کوشش کی لیکن صوفی صاحب کا عہد’’لیل ونہار‘‘ کا سنبھالا ثابت ہوا اور ایک لائق فخر ہفتہ وار جریدہ موت کی آغوش میں جاسویا۔

کمیونسٹ تو فیض صاحب بھی مشہور ہوگئے تھے۔ مگر ان کی تخریبی سرگرمیاں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ وہ تو ایک خاموش اور مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے اور ہیں۔ مگر کمیونسٹ ہونے کاکلنک کاٹیکا اگر ایک دفعہ کسی کے لگ جائے تو شاید پھر ساری عمر چھٹائے نہیں چھوٹتا۔ غالباً اسی ’’داغ بدنامی‘‘ کی وجہ سے فیضؔ صاحب ’’پاکستان ٹائمز‘‘ سے احمد ندیم قاسمی’’امروز‘‘ سے اور سبط حسن ’’لیل ونہار‘‘ سے علیحدہ کردےئے گئے۔

جب راولپنڈی سازش کیس میں بعض بڑے فوجی افسروں کے ساتھ فیض صاحب بھی گرفتار کرلئے گئے تو میری طرح بے شمار لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ شریف آدمی اس نرغے میں کیسے آگیا؟ یہ کوئی بہت اُونچے درجے کی سیاست ہے۔ جسے معمولی عقل کے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ لہٰذا ہم نے
رموز ملکیت خویش خسرواں دانند
کہہ کر صبر کرلیا۔ غالباً تین ساڑھے تین سال فیض صاحب قید وبند میں رہے اس زمانہ میں انکی بیگم نے مردانہ وار ابترحالات کا مقابلہ کیا۔ ملازمت کی اور اپنی بچیوں کے معیار زندگی میں فرق نہیں آنے دیا۔ ان کی تعلیم بھی جاری رہی۔ اور ان کے اجلے خرچ بھی چلتے رہے۔ میں نے بیگم فیض کو اخبار کے دفتر میں پسینے میں شرابور نہایت انہماک سے کام کرتے دیکھا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان کے قریب جاکر انہیں ا س حوصلے کی داد دیتا۔ دور سے انہیں دیکھا اور بھاری قدموں کے ساتھ چلا آیا۔ بارے یہ ابتلا کا دور بھی ختم ہوگیا اور فیض صاحب بری ہوکر اپنے گھر آگئے۔ ان کے جیل میں رہنے کا ایک فائدہ فیض صاحب کو ہوا ہو یانہ ہوا ہو ہمیں یہ ہوا کہ ان کی منظومات کے دو مجموعے ’’زنداں نامہ‘‘ اور ’’دست صبا‘‘ ہمیں مل گئے۔

بے روزگاری کے زمانے میں فیض صاحب نے ایک فلم کے مکالمے وغیر ہ لکھے تھے اور اس پر بین الاقوامی انعام ملا تھا۔ مگر فلم سازی اور فلم بازی سے کسی بھلے آدمی کو کیا سروکار؟ فیض صاحب دراصل تعلیمی سلسلے کے آدمی تھے۔ مگر کسی یونیورسٹی نے کوئی پیش کش نہیں کی۔ شاید اہل اختیار انکے کلنک کے ٹیکے سے ڈرتے تھے۔ بارے جب لاہور میں آرٹس کونسل کی شاخ قائم ہوئی تو فیض صاحب اس کے سیکرٹری مقرر ہوگئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انھیں لینن پرائز دیئے جانے کا اعلان روس نے کیا ۔

یہ تقریباً وہی زمانہ تھا جب پاسٹر ناک کو اس کی کتاب ڈاکٹر ژواگو پر نوبل پرائزدیئے جانے کا اعلان ہوا تھا اور حکومتِ روس نے اس بوڑھے مصنف کی حالت کتے سے بدتر کردی تھی۔ اب اسی کمیونزم کے منبع سے فیض صاحب کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سب نے دم سادھ لیا کہ اللہ خیر کرے۔ دیکھے اب کیا گل کھلتا ہے؟ مگر حکومت پاکستان نے اس غیر ملکی اعزاز پر روس کی طرح تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور شکر ہے کہ ہمارے اندیشے غلط ثابت ہوئے۔ جب فیض صاحب انعام لینے کے لئے روس جانے لگے تو کراچی ٹھہرتے ہوئے گئے۔ پاکستان رائٹر زگلڈنے آرٹ کونسل میں ان کے اعزاز میں ایک بہت بڑا جلسہ کیا اس جلسے کی صدارت کا فخر مجھے حاصل ہوا۔

منجملہ اور باتوں کے میں نے اپنی صدارتی تقریر میں اپنی حکومت سے شکوہ کیا کہ فیض صاحب کو اپنی حکومت سے اب تک کوئی انعام نہیں ملا اور سات سمندر پار کے ایک بہت بڑے ملک نے انہیں امن کے اتنے بڑے انعام کا مستحق سمجھا۔ شاید ہمارے ملک میں زندہ ادیبوں کی قدردانی کا دستور نہیں ہے۔ جبھی تو پاکستان کا سب سے ہردلعزیز شاعر محروم التفات ہے۔

جب فیضؔ صاحب روس روانہ ہوگئے تو یہاں افواہ اڑنی شروع ہوگئی کہ واپس آتے ہی گرفتار ہوجائیں گے۔ مگر ایسا کوئی جارحانہ اقدام نہیں کیا گیا اور فیضؔ صاحب شادوبامراد واپس آگئے۔روس سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد سناکہ فیض صاحب لندن چلے گئے ہیں اور پاکستانی کلچر پر مواد جمع کرکے کتاب لکھیں گے۔ خاصے طویل عرصے تک وہ لندن میں رہے اور یہاں واپس آکر بھی انہیں خاصی مدت ہوگئی مگر وہ کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی۔ شاید ان کی شاعرانہ سہل انگاری مانع ہے۔

سال ڈیڑھ سال پہلے سناتھا کہ فیض صاحب کراچی یونیورسٹی میں انگریزی کے صدر شعبہ بنائے جارہے ہیں۔ اس خبر سے خوشی ہوئی تھی کہ یہ جگہ ان کیلئے موزوں بھی تھی اور خود بھی یونیورسٹی کے لئے بھی لائق فخر، مگر پروفیسر احمد علی کی طرح فیض صاحب کو بھی ارباب وکشاد نے مناسب نہیں سمجھا۔ مگر جو جوہر قابل ہوتے ہیں انہیں قدرداں مل ہی جاتے ہیں۔ اب وہ ایک بہت بڑے مشاہرے پر ہارون کالج کراچی کے پرنسپل ہیں۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع ہوتی ہے۔ فیض صاحب تعلیمی سلسلے کے آدمی تھے۔ پھر تعلیمی سلسلے ہی میں آگئے۔ حق بہ حق داررسید۔

Comments are closed.