سبط حسن گیلانی۔ لندن
جمعہ30اکتوبر2015کی سب سے بڑی خبر یہی تھی۔ عمران خان اور ریحام خان کی شادی کا بندھن ٹوٹ گیا۔حقیقت یہ ہے کہ بندھن آج نہیں ٹوٹا۔اسے ٹوٹے ہوئے لگ بھگ ایک ماہ ہونے کو آیا ہے۔جیسے یہ شادی اس دن نہیں ہوئی تھی جس دن اس کے لڈو بٹے تھے۔
اس حوالے سے اس شادی کا آغاز اور انجام ایک جیسا ہی ہوا۔بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں۔ یہ ان کا نجی معاملہ ہے۔درست کہہ رہے ہیں۔مگر ایک لیڈر ،ایک بڑا کھلاڑی،ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ مشہور آدمی کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے وہ جیسا بھی ہو لیکن نجی ہر گز نہیں ہوتا۔ لیکن ایک انسان کی نجی زندگی اور پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ایک جیسا برتاو نہیں ہونا چاہیے۔
اس لیے کہ یہی تہذیب کا تقاضا ہے۔عمران خان ایک عام آدمی نہیں ۔ پہلے ایک مشہور کھلاڑی تھا۔اب ایک معروف لیڈر ہے۔لہٰذااس کی زندگی کے ہر پہلو پر تبصرہ تو ہوگا۔شادی اور طلاق کوئی جرم نہیں ہیں۔اس لیے اسے اس طرح بیان نہیں ہونا چاہیے جیسے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے۔
عمران کے سیاسی مخالفین کے لیے تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا معاملہ ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ تمام بڑے لیڈروں نے اسے نجی معاملہ قرار دیا ہے۔لیکن ان کا ایساکہنا عمران کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ سلسلہ چل نکلے۔ میاں نواز شریف نے جو کہاہے ۔ ایک شریف انسان کو ایسا ہی کہنا چاہیے ۔ لیکن ان کی جماعت کے دانیال عزیزجیسے لوگ اس بیان کو کتنے دن عزیز رکھتے ہیں؟۔ اگلے چند دن میں ہی ظاہر ہو جائے گا۔
ریحام خان اور عمران خان دونوں کی یہ دوسری شادی تھی۔لیکن پچھلا تجربہ دونوں کے کام نہ آیا۔ یا شاید شادی سرے سے تجربہ نہیں سمجھوتا ہوتی ہے۔آج کا دن اس خبر کے لیے جب کہ عمران کی جماعت چوبیس گھنٹوں بعدبلدیاتی انتخابات کے اکھاڑے میں اُترنے والی تھی۔کیوں چُنا گیا۔یاد رہے کہ اس دن کا چناو عمران خان نے نہیں ریحام خان نے کیا ہے۔ایک یہی اشارہ ہی بہت کچھ کہہ رہا ہے؟۔
ایک بات تو طے ہے ریحام جمائما ثابت نہیں ہو گی۔وہ آنے والے دنوں میں خان صاحب کے لیے خاصی مشکلات بھی کھڑی کر سکتی ہے۔اور کچھ نہ بن پڑا تو ایک آدھ کتاب بھی لکھ یا لکھوا سکتی ہے۔ویسے کالم لکھنے کا آغاز تو وہ کر ہی چکی تھیں۔اب دیکھیے کالم کو کتاب بنتے کتنے دن لگتے ہیں۔ اس کام کے لیے اسے وافر سرمایہ مُہیا کیا جاے گا۔اور لکھنے کا کام سرانجام دینے کے لیے بہت سارے بزرگوں کے پاس کھلااور وافر وقت موجود ہے اور تجربہ بھی۔
لیکن اگر یہ کتاب کبھی لکھی گئی تو عمران خان کی سیاست پر اتنی ہی اثر انداز ہوگی جتنی تہمینہ کی کتاب مصطفی کھر کی سیاست پرہوئی تھی۔جن معاشروں میں بد قماش اپنے خلاف خبر کی خود ہی تشہیر کرتے ہوں ۔ان معاشروں میں کتاب ویسے بھی اُلٹا اثر کرتی ہے۔میڈیا اتنا ہی خوش ہے جتنی ایک بھینس کافی دنوں تک خشک بھونسہ کھا کھا کر پھر اچانک ایک دن ساوے پٹھے دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
چھوٹی سے چھوٹی بات کا بتنگڑ بنانے کے عادی ملاں طبقے کے نمائندہ مفتی صاحب کا بیان حیرت انگیز حد تک مختصر تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طلاق فیس بک پر کومنٹ کرنے یا ٹویٹر پر ٹویٹ کرنے سے واقع ہو جاتی ہے۔ تو جواب تھا۔ جی ہاں۔ بالِکُل ہو جاتی ہے۔
جس کام سے عورت متنازع بنتی ہو یا اس کا مقام کم ہونے کا اندیشہ ہو۔ انہیں بہت بھلا لگتا ہے۔اسے کسی بھی شک و شبہ کی نظر ہونے سے بچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ایک غیر جانبدار تجزیے میں خان صاحب لگتا ہے ٹریپ ہو گئے تھے۔مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ معاملہ صرف ایک لاکھ حق مہر میں ہی نمٹ گیا ہے۔ اور ریحام خان کا یہ کہناکہ کوئی پیسے کا لین دین نہیں ہوا۔ بالکل بے بنیاد بات ہے۔یہ طلاق خان صاحب اور ان کے سیاسی مگر مالدار دوستوں کو تقریباً اٹھارہ سے بیس کروڑ میں پڑی ہے۔
لیکن خدشہ ہے کہ یہ پہلی قسط ثابت ہو گی۔یہ لین دین کتنا طول کھینچتا ہے ؟ جلد ہی ظاہر ہو جائے گا۔خان کے سیاسی مخالفین کا یہ کہنا کہ جو گھر کو نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کو کیسے سنبھالے گا؟۔ مشائدہ اور تاریخی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ گھر تو بانی ریاست سے بھی نہیں سنبھلا تھا۔ لیکن کیا وہ اپنے مشن میں ناکام ہو گئے تھے؟۔یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ گھر سنبھالنا ملک سنبھالنے سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔
فی الحال یہ شادی اور اس کا متوقع انجام کنویں کے اس ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ جس کی تہہ سے ابھی بہت کچھ برامد ہو گا۔لیکن جو بھی ہوگا وہ خان صاحب کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث نہیں ہوگا۔
دس ماہ سے بھی کم وقت کا یہ بندھن ان کی زندگی میں جھاڑی کے اس خوشنما پھول جیسا ثابت ہوا ہے جس کی کلیاں بہت جلد کھِل کر مرجھا جاتی ہیں لیکن کانٹے تادیر قائم رہتے ہیں۔ لیکن خان صاحب کو ایک کام بڑے دھیان سے کرنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مفتی صاحب کے مشورے کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُسی وقت نکال دینا ہے۔جو اس خبر کے ساتھ ہی انہیں ایک اور شادی کا مشورہ دے رہے تھے۔یہ مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کھائی سے کود کر بچ جانے والے کو پھر سے ایسا کرنے کو کہا جائے۔
One Comment