سوال کی حرمت

sibte hasanسبط حسن گیلانی۔ لندن

اس دنیا کی بنی نوع انسان کی کوئی قیمتی متاع ہے تو وہ علم ہے۔ اور علم وادب جس بیج سے نمو پاتا ہے اس کا نام سوال ہے۔ اس لیے مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں سوال کی حرمت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ انسان کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اور اس حق کی باقاعدہ حفاظت کی جاتی ہے۔سوال اہم اور غیر اہم تو ہو سکتا ہے فضول اور گھٹیا نہیں ہوتا۔یہ بے وقت تو ہو سکتا ہے بے وقعت نہیں ہوتا۔

جو سچے اور کھرے انسان ہوتے ہیں وہ سوال کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ اس سے گھبراتے اور اس کا منہ نہیں چڑاتے۔جس وجہ سے آج سوال کی اہمیت اور اس کے بنیادی حق کا سوال اٹھا ہے ۔وہ خان صاحب کا ایک صحافی کے سوال پر بھڑکنا تھا۔ آپ نے سوال اور سوال اٹھانے والے دونوں کو بے وقعت قرار دے دیا۔جس پر ہماری صحافی برادری بھڑک اٹھی۔ ان کا بھڑک اٹھنا سراسر جائز ہے۔ اس لیے کہ نہ کوئی سوال بے وقعت ہوتا ہے اور نہ سوال اٹھانے والا۔

سچ کی راہ کے شہید اول اور عقلا کے امام سقراط نے تو فیصلہ ہی کردیا تھا۔ یہ بتا کر کہ ذہانت جواب میں نہیں سوال میں ہوتی ہے۔اگرچہ خان صاحب نے اپنی جھنجھلاہٹ پر معذرت کر لی ہے۔ جسے قبول کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انہوں نے ایک صحافی کو بے وقعت کہا ہو۔ پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ لیکن ہم اس بات کو قصہ ماضی قرار دے کر آگے بڑھتے ہیں۔

خان صاحب ہمیں جو سمجھتے ہیں سمجھتے رہیں لیکن ہم خان صاحب کو بے وقعت نہیں سمجھتے۔انہیں آنے والے وقت کا ایک کھیون ہار سمجھتے ہیں۔اسی لیے تو ہم نہیں چاہتے کہ خان صاحب کے دامن پر کوئی دھبہ دکھے۔ خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریحام کی بے عزتی نہیں چاہتے۔ یہی تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایک عورت کو ہر حال میں سرخرو ہونا چاہے اور مردوں کے معاشرے میں مرد کی طرح سر بلند۔اور ریحام ایک ایسی ہی عورت ہے۔ اس پر تنقید کی آڑ میں جو کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ اس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں حدودو قیود کا ہر حال میں خیال رکھا جانا چاہیے۔تنقید کو توہین کی حدود میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔توہین و تنقید کے درمیان حد فاصل کا ہر مہذب معاشرے میں خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ایک سیاست دان یا کسی بھی سطح کے انسان کی ذاتی زندگی کاتعلق ہے۔ اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ لیکن ایک سیاست دان اور ایک عام آدمی کی زندگی میں فرق ہوتا ہے۔

سیاست دان چونکہ عوامی ہوتا ہے اس لیے اس کی عام سی بات اور حرکت کو خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ عوامی ملکیت ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ایک مثال ہوتا ہے۔ وہ عام نہیں خاص ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ ہر لمحے سوالات کی زد میں رہتا ہے۔آج جو جو سیاست دان ہمارے پلے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت عوام کے سوالات کی چھلنی سے چھن کر نہیں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے۔

رہنما کی پہلی پہچان ہی تو یہی ہوتی ہے ۔ کہ وہ سوالات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ان کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرتا ہے۔ انگریز قوم کا کہنا ہے ۔ ہم نے صدیوں کی مشق کے بعد اپنے اندر یہ خاصیت پیدا کر لی ہے۔کہ جب ہم اور ہماری کارکردگی پر سوالات اٹھاے جاتے ہیں۔تو ہم ان سے گھبراتے نہیں۔ ان پر تہہ دل سے غوروفکر کرتے ہیں۔اگر وہ سوالات جائز ہوں تو ان کی روشنی میں اپنی اور اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔اگر وہ سوالات غیر اہم اور تنقید برائے تنقید ہوں تو ہم ان سے در گزر کرتے ہیں۔

لیکن ایسے سوالات اٹھانے والوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی کینہ نہیں پالتے۔لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ بڑی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے جو سوال اٹھانے والا ہوتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سوال اٹھانے والا جس خرابی پر سوال اٹھا رہا ہے ۔ کیا اس کا اپنا دامن تو اس خرابی سے آلودہ نہیں ہے؟۔

اگر وہ کسی ٹیکس نادہندہ پر سوال اٹھا رہا ہے۔تو کیا وہ اپنے واجبات پوری طرح ادا کر چکا ہے؟۔ اگر وہ جمہوری کلچر کے فقدان پر کسی ڈکٹیٹر کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کیا وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں جمہوریت پسند ہے؟۔جمہوری معاشرے میں تو ایسے ایسے معاملات پر سیاست دانوں پر سوال اٹھاے جاتے ہیں جو بظاہر ناجائز بھی نہیں ہوتے۔

مثلاً ابھی کل ہی کی بات ہے۔ جب برطانیہ میں ٹونی بلیر وزیر اعظم تھا۔ اس کی بیوی شیری نے ایک فلیٹ خریدا۔ جس پر میڈیا نے سوالات اٹھاے۔ جس پر وزیر اعظم نے اسمبلی میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں تمام قانونی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ تو میڈیا نے اس پر جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں ۔ ہمارا اعتراض تو اس بات پر ہے کہ ایک وزیر اعظم کی بیوی کو کسی ایسے انسان سے لین دین نہیں کرنا چاہیے جس کی کاروباری ساکھ بدنام ہو۔

2 Comments