پیرس حملے: اس بار یہ جنگ ہے

ڈوئچے ویلے

151114073144-03-attacks-paris-1114-super-169

پیرس کے اخبار ’لے پاریزین‘ نے گزشتہ روز 128 افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے ہولناک دہشت گردانہ واقعات کو حقیقی جنگ قرار دیا ہے جبکہ فرانسیسی میڈیا کا ردعمل خوف کے ساتھ ساتھ پُرعزم نظر آ رہا ہے۔

مرکز سے دائیں طرف جھکاؤ والے اخبار ’ لے فیگارو‘ نے بھی اسی قسم کی شہ سُرخی استعمال کرتے ہوئے جمعے کو رونما ہونے والے خونریز واقعات پر تبصرہ کیا ہے۔ ’ لے فیگارو‘ نے پیرس کے متعدد مقامات پر ’قتل عام‘ کے مناظر کے بارے میں اپنی رپورٹ کی سُرخی میں تحریر کیا ہے’مرکزی پیرس میں جنگ‘۔ فرانس کے متعدد اخبار اس کٹھن وقت میں قومی اتحاد پر زور دے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ روشنیوں اور خوشبوؤں کا یہ رومانوی شہر سال رواں جنوری میں ہونے والے جہادی حملوں کے بھیانک مناظر بھی بھول نہیں پایا ہے۔ تب ہونے والے دہشت گردانہ واقعات میں 17 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

اخبار ’لے پاریزین‘ تحریر کرتا ہے، ’گزشتہ روز کے حقیقی شہدا، بے قصور معصوم متاثرین اور اس جمہوریہ کے نام پر فرانس متحد کھڑا ہے‘۔ بائیں طرف جھکاؤ والے لبریشن ڈیلی ’ لے فیگارو‘ کی شہ سُرخی کچھ یوں ہے،دہشت گرد بربریت نے ’تاریخی لکیر‘عبور کر لی ہے۔ اس اخبار نے تاہم فرانسیسی عوام سے باعزم رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی اخباروں نے جمعے کو پیرس میں چھ مقامات پر ہونے والے پرتشدد حملوں کے تانے بانے جنوری میں فرانسیسی طنزیہ ہفت روزہ چارلی ایبدو پر ہونے والے حملوں سے جوڑنا شروع کر دیے۔ ان تازہ حملوں میں کم سے کم 120 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ عوامی جذبات کا بھرپور مظاہرہ سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر پر دیکھنے میں آیا۔ زیادہ تر ٹوئٹس ہیش ٹیگ ’میں چارلی ہوں‘ کے ساتھ ہی گردش کر رہے ہیں۔

پیرس کے ایک مقامی اخبار ’ریپُبلک دے پیرین‘ لکھتا ہے،’ہم چارلی تھے، ہم پیرس ہیں‘۔

دریں اثناء فرانس میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پیرس کے فٹ بال اسٹیڈیم، کنسرٹ تھیٹر اور ریستوراں سمیت چھ مختلف علاقوں میں مسلح افراد نے حملے کیے جن میں مبینہ خود کش دھماکے بھی شامل ہیں۔ خبر رساں اداروں نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ خود کش حملوں کا آغاز ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ چار سیاہ پوش خودکش حملہ آوروں نے جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ اے کے 47 سے لیس تھے جب وہ مشرقی پیرس میں میں جائے وقوع میں داخل ہوئے اور انہوں نے باضابطہ مگر نہایت خاموشی سے کنسرٹ جانے والے سینکڑوں شائقین پر فائر کھول دیے۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان پُر تشدد واقعات کے اختتام تک کم از کم 8 حملہ آور بھی ہلاک ہو چُکے تھے۔ عینی شاہدین نے کہا ہے کہ حملہ آور اُس وقت ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے جب انہوں نے کنسرٹ ہال میں یہ سفاکانہ کارروائی کی۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور ساتھ ہی شام کے بحران میں فرانس کی عسکری مداخلت کی مذمت بھی کر رہے تھے۔

پولیس کے وقوعہ پر پہنچتے ہی تین خود کُش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ چوتھا پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہوئے گرا اور اس کی خود کش جیکٹ دھماکے سے پھٹ گئی۔

وقوعہ پر موجود صحافیوں نے بتایا کہ ہر طرف خون بہہ رہا تھا اور لاشیں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں، چیخ و پکار کی صدائیں گونج رہی تھیں، ہر کوئی جان بجا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ 2004 ء میں میڈرڈ میں ٹرین میں ہونے والی بمباری کے واقعے کے بعد یہ اب یورپ میں ہونے والے اب تک کے خوفناک ترین دہشت گردانہ واقعات ہیں۔

Comments are closed.