ریاست جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کا کشمیر پر تازہ ترین بیان کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ نے اپنے دیرانہ موقف کا زرہ نئے اور واضح انداز میں اظہار کیا ہے۔مگر اس پر رد عمل بڑا دلچسب ہے۔اس بیان پر اب تک درجن بھر رد عمل سامنے آئے ہیں۔اتنے زیادہ اور مختلف رد عمل اس تلخ حقیقت کا اظہار ہیں کہ مسئلہ کشمیر کس قدر پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے اور اس پر متعلقہ حلقوں میں کتنا اختلاف رائے ہے۔
پہلا رد عمل ان بھارتی حلقوں کی طرف سے ہے جو مسئلہ کشمیر پر سخت گیر موقف کے حامی ہیں۔اس حلقے کا موقف یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر بس اتنا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے جسے وہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل یہ ہے کہ کشمیر کا یہ حصہ یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان سے لیکر بھارت میں شامل کیا جائے۔ یہ اگرچہ اس حلقے کا دیرینہموقف اور خواہش ہے مگر یہ حلقہ خوب جانتا ہے کہ ان کی اس خواہش کی عملی صورت گری ناممکن ہے۔
کسی مسئلے کے ایک ناممکن حل پر اصرار کا مطلب ہوتا ہے کہ مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ موجودہ صورت حال جوں کی توں رکھی جائے۔ یہ بنیادی طور پر یہ جنگ باز اور رجعت پسند قوتوں کی خواہش اور ضرورت ہے۔
دوسرا رد عمل ان بھارتی حلقوں کی طرف سے جو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کے خواہشمند ہیں۔ان لوگوں نے فاروق عبداللہ کے بیان کی تائید کی ہے۔ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جو عسکری اور سیاسی پوزیشن بن چکی ہے اس میں کسی ایک سے کشمیر کا کوئی علاقہ خالی کر کے دوسرے کے ساتھ ملانا ممکن ہے۔ لہذا موجودہ حالات اور زمینی حقائق کی روشنی میں کوئی ایسا درمیانی حل نکالا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ان لوگوں کے نزدیک اس مسئلے کا سب سے زیادہ قابل عمل حل مشرف واچپائی فارمولہ ہے۔
تیسرا رد عمل ان کشمیری حلقوں کی طرف سے ہے جن کا خیال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ بھارت کو کشمیر سے نکال کر پاکستان میں شامل کر دیا جائے۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ فارق عبداللہ کم محب وطن ہیں اور بھارت کے مفادات کی بات کرتے ہیں۔
چوتھا رد عمل ان کشمیری حلقوں کی طرف سے ہے جو پاکستان و بھارت کے درمیان ریاست جموں کشمیر کی بندر بانٹ کے خلاف ہیں۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر چھوڑ دیں اور ریاست جموں کشمیر کا انتظام خودکشمیری لوگوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔
پانچواں رد عمل پاکستان کی طرف سے ہے۔یہ ردعمل اس حلقے کی طرف سے ہے جو روائتی طور پر اس موقف کا حامل ہے کہ پوری ریاست جموں کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ حلقہ فاروق عبداللہ جیسے کشمیریوں کو ، جو ریاست کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں ،کوغدار تصور کرتا ہے۔ ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر بس یہ ہے کہ بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں نکال کر اسے پاکستان کے حوالے کردے۔یا اگر ضروری ہے تو رسمی کاروائی کے لیے یہاں رائے شماری کروا لی جائے۔ان لوگوں کے خیال میں رائے شماری تو محض اہتمام حجت ہے چونکہ سارے کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔
فاروق عبداللہ کے بیان پر یہ رد عمل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس مسئلے کا کوئی سادہ اور آسان حل موجود نہیں ہے۔ ۔پاکستان، بھارت اور کشمیر کی امن پسند اور روشن خیال قوتیں روائتی اعتبار سے مسئلہ کشمیر کے کسی ایسے با عزت حل کی حامی رہی ہیں جس میں کشمیری عوام کی آزادانہ مرضی شامل ہو۔ دوسری طرف جنگ باز اور رجعت پسند قوتیں یا تو اس مسئلے کا ناقابل عمل حل پیش کرتی رہی ہیں یا پھر سٹیٹس کو یا جنگ میں سے کسی ایک آپشن پر زور دیتی رہی ہیں۔
یہ سلسلہ تقسیم بر صغیر کے وقت سے جاری ہے۔ ابتدا میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھارت اور کشمیرکی طرف سے پنڈت جواہر لال نہرو اور شیخ محمد عبداللہ جیسے روشن خیال اور ترقی پسند لیڈر جڑے تھے۔ان رہنماوں کی بے پناہ مقبولیت اور دانشمندی پر کوئی کلام نہیں۔مگر مسئلہ کشمیر کے باب میں یہ لوگ ہندو نیشنلسٹ اور اسلامی بنیاد پرستوں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی نفرت و تعصب کی دیواریں پھلانگنے میں نا کام رہے۔ برسوں بعد اٹل بہاری واچپائی کی قیادت میں ہندو نیشنلسٹ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر تیار ہوئے کہ کشمیر کاروائتی موقف سے ہٹ کر اس کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی طرف سے لیڈر شپ کا قصہ دوسرا رہا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے بلا شرکت غیرے رہنما تو ضرور تھے مگر ملک پاکستان کی کسی پالیسی میں ان کا کوئی دخل نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ نوکر شاہی نے پہلے دن ہی ان کو کارنر کر دیا تھا۔بعد کے فوجی حکمران اپنے من پسند حل کے لیےمہم جوئی کرتے رہے اور کشمیر کا حل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوتا گیا۔منتخب حکمرانوں میں ذولفقار علی بھٹو واحد رہنما تھے جن سے کسی خیر کی توقع کی جا سکتی تھی۔ مگر اس نابغہ روزگار شخص کو بھی روائتی قوتوں نے گھیرا ڈال کر تختہ دار تک پہنچا کر دم لیا۔
پرویز مشرف نے جو فارمولہ پیش کیا تھا وہ نیا تھا اور پاکستان کی روائتی پالیسی سے ہٹ کر تھا۔اپنے اوپر غداری اور ملک دشمنی کا الزام لگوائے بغیر یہ کام کوئی حاضر سروس فوجی سالار ہی کر سکتا تھا۔یہ کوئی مکمل، مثالی اور بے داغ فامولا نہیں تھا۔مگر یہ ایک نیا اور ترقی پسند فارمولہ تھا اور اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کوئی مقدس آیت نہیں ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
فاروق عبداللہ کے بیان اور اس پر سامنے آنے والے ردعمل کو اسی تاریخی تناظر اور زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ رہا کشمیر تو اس پرحق حکمرانی صرف کشمیری عوام کو حاصل ہے اور جس دن خود کشمیری عوام کو اس بات پر یقین آگیا اس دن یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
♥