پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی صرف مذمت کافی نہیں۔ یہ مذمت واضح، دوٹوک، واشگاف اور غیر مشرودط ہونی چاہیے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔سوشل اور متبادل میڈیا پر ایسی ارائیں گردش کر رہی ہیں جو مذمت سے گریزاں ہیں۔
ان میں پہلے قسم ان لوگوں کی ہے جو اس واقعے کوجہاد تصور کرتے ہیں۔یہ لوگ کسی قسم کے بہانے یا معذرت کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔۔ان کے نزدیک کافروں اور مشرکین کے خلاف جہاد قرانی حکم ہے۔ان کے خیال میں پورا مغرب شیطانی سماج ہے جس کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے۔ان کے نزدیک پیرس کا واقعہ ان کے جہاد مسلسل کی ایک تازہ ترین کڑی ہے۔
یہ لوگ اگرچہ بہت بڑی تعداد میں نہیں ہیں۔لیکن اسلامی ممالک میں یہ لوگ قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔بعض جگہوں پر یہ اچھے خاصے وسائل کے مالک ہیں۔اور اپنے گردوپیش میں رائے عامہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بعض اسلامی ممالک میں ان لوگوں نے اپنی باقاعدہ درس گاہیں اور عبادت گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ان جگہوں کو وہ نظریات و خیالات کے پر چار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ نرسریاں ہیں جہاں سے دہشت گرد یا ان کے حامی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا دہشت گردی کے خلاف جتنا ڈھنڈورا مرضی پیٹ لے لیکن جب تک دہشت گردی کی ان نرسریوں کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جاتا اس وقت تک دہشت گردی کا یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتا۔
دہشت گردی کے حامیوں میں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔یہ شدت پسند نظریات رکھتے ہیں۔ان نظریات کی اساس مذہبی شدت پسندی ہے۔اپنے شدت پسندانہ مذہبی و سیاسی نظریات کے پر چار کے لیے یہ دنیا بھر میں مسلمانوں سے جڑے ہوئے سیاسی اور قومی مسائل کا سہارا لیتے ہیں۔چنانچہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ان مسئلوں کا سہارا لیکر یہ مسلسل اپنی نفرت، بغض ، تعصب اور عداوت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ان کی باتوں کو اگر غور سے سنا جائے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ ان لوگوں کو کشمیری یا فلسطینی مسلمانوں سے اتنی ہمدردی نہیں جتنی ان کو یہودیوں یا ہندوؤں سے نفرت ہے۔یہ لوگ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کی آڑ میں اپنی اس بے پناہ نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔چنانچہ وہ ان مسائل کے ایسے ایسے حل تجویز کرتے رہتے ہیں جو نا ممکن اور نا قابل عمل ہیں۔یہ لوگ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ایک ہی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک اس دنیا میں اسرائیل اور بھارت کا وجود ہے اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی توقع عبث ہے۔گویا ان کا اصل مقصد کشمیر یا فلسطین کی آزادی نہیں بلکہ بھارت اور اسرائیل کی تباہی ہے۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہے وہ اس حقیقت سے صرف نظرکر رہے ہیں کہ اگر اس دنیا میں یہ دو مسئلے نہ بھی ہوتے پھر بھی بھارت اور اسرائیل کے خلاف جہاد کسی نہ کسی شکل میں ضرور چل رہا ہوتا۔چنانچہ ان دو مسائل کے حل کے بعد بھی اس ذہانت کے لوگ اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔دہشت گردی کے مستقل حل کے لیے اس مائنڈ سیٹ میں تبدیلی ضروری ہے۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو دہشت گردی کی تو مذمت کرتے ہیں لیکن گھوما پھرا کر دہشت گردوں کو مختلف جواز فراہم کرتے ہیں۔یہ نیم مذہبی قسم کے لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی کارکن کا روپ دھار کر مختلف سیاسی جماعتوں میں پنا لے رکھی ہے۔یہ بظاہر کلین شیو یا بغیر حجاب کے ہوتے ہیں لیکن ان خیالات بے حد شدت پسندانہ اور رجعتی ہوتے ہیں۔ان لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مگربی ممالک میں آباد ہے۔لیکن یہ مغربی تہذیب، اخلاقیات اور طرز زندگی کے سخت مخالف ہیں۔مغرب کے خلاف ان کے دلوں میں بہت بڑا بغض ہے جس کا اظہار وہ وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں۔ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد یہ کوئی نئی کانسپیریسی تھیوری لے آتے ہیں۔
یہ نیویارک اور پیرس جیسے واقعات کو اسرائیل کی کاروائی قرار دیتے ہیں۔دہشت گردوں کو بری الذمہ قرار دینے یا ان کی اس حرکت کو جواز فراہم کرنے کے لیے ان کی منطق یہ ہوتی ہے کہ داعش اور القاعدہ جیسے تمام گروہ خود مغرب کے پیدا کردہ ہیں، چنانچہ دہشت گردوں کی مذمت کرنے کے بجائے یہ لوگ خود مغرب کو اس کا مورد الذام ٹھہراتے ہیں۔
چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو ان کاروائیوں کو مغربی سامرج کے خلاف مزاحمت کا نام دیتے ہیں۔یہ لوگ سیاسی طور پر قرون اولی میں رہتے ہیں۔یہ لوگ عقیدہ پرستوں سے بھی بڑے بنیاد پرست ہیں، ذہنی طور پر ماضی میں رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک نہیں رکھتے۔دہشت گردی کے مستقل خا تمے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ مذکورہ بالا مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کے طریقوں پر غورکی ضرورت ہے۔
3 Comments