“مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیئے ہیں”
جس کو سرپٹ دوڑانے کے لئے دونوں پہیوں کا متحرک ہونا ضروری ہے
ایک زمانہ تھاجب عورت کو دیوی مانا جاتا تھااورزرخیزی کے علامت کی حیثیت سے پوجا بھی جاتا تھا ہندو مت میں مرد دیوتا کے ساتھ عورت دیوی بھی ہے یہ انسان کا مدری دور تھا۔ پدری نظام کے آغاز اور طاقت پکڑنے کے ساتھ ہی مرد کا اگر سماج میں دیگر مردوں کے ساتھ برتری کا جھگڑا چل پڑا تھا اورہر مرد چاہتا تھا کہ اسے معاشرے میں دوسروں پر غلبہ حاصل ہو تمام اختیارات اور طاقت کا ارتکاز اس کے پاس ہو تو اس کے ساتھ ہی اس کی یہ سعی بھی رہی کہ اسے عورت پر بھی حاکمیت حاصل ہو۔
چنانچہ عورت کو اس کے مقام سے گرانے کے لئے کبھی حضرت آدم ؑ کے جنت سے نکالے جانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا گناہ کی پوٹلی اور پاؤں کی جوتی کہا گیا تو کبھی اس کی جسمانی کمزوری کو جواز کے طور پر پیش کیا گیاتاریخ بتاتی ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب ان خواتین پر جادو گرنیوں کا الزام لگا کر زندہ جلادیا گیا جنہوں نے اپنے مقام کی پامالی یا مرد کی بالادستی کے خلاف مزاحمت اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد یا زندگی کے کسی میدان میں اپنی عقل وشعور کا ثبوت دیا۔
جون آف آرک کی مانند کئی مثالیں اس حوالے سے موجود ہیں۔
عورت کوچاردیواری میں قید کرکے اس کو رفتہ رفتہ معاشی سرگرمیوں سے دور کیا گیاجس سے یہ مرد کی دست نگر ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ عورت کے خلاف طرح طرح کی من گھڑت کہانیاں بھی تراشی گئیں عورت کا سماجی مرتبہ گھٹانے اور اپنی حاکمیت کو مزید استحکام دینے کے لئے اس کی ناتجربہ کاری اور بے وقوفی کا ڈھنڈورا پیٹا گیااس مقصد کے حصول کے لئے جہاں اخلاقیات تو وہاں ادب وشاعری کا سہارا بھی لیا گیاجس نے اسے صنف نازک مشہور کردیااس کے ساتھ کئی توہمات وابستہ کی گئیں اور اس پر زور صرف کیا گیا کہ عورت ہر لحاظ سے مرد سے کم تر ہے مرد وں نے سماج کے لئے کچھ پیمانے بنائے سماجی اور اخلاقی اقدار پیدا کیں اور معاشرے کے درجے بناکر عورت کو کمتر اور نچلے درجے پر رکھا۔
عورت کو جب گھر میں مقید کردیا گیا تواس کی تمام دوڑ دھوپ اور کائنات اپنا گھر، اہل خانہ یا زیادہ سے زیادہ دیگر خاندانوں کی خواتین سے میل ملاپ تک محدود ہوکررہ گئی اور یہ میل ملاقات بھی شادی یا غمی کے خاص مواقع تک ہی رہتی تھی وہ فقط گھریلو مسائل پر آپس میں گفتگو کرتی تھیںیہی اس کا موضوع رہتا تھاجس سے یہ ایک ہی چکر میں گھومنے والی کولہو کا بیل بن گئی۔
جاگیرداری نظام کے فروغ کے ساتھ عورت کا سماجی مرتبہ گھٹتا گیامرد کی طاقت کے سامنے عورت کمزور پڑتی گئی اگرچہ اس دوران عورت کھیتی باڑی ، دور دراز مقامات سے پانی لانے اور جانور ڈھونے کے کام بھی کرتی رہی لیکن اسے زمین، معاش ،سیاست اور قبائلی امور سے پرے ہی رکھا گیاچونکہ عورت ان پابندیوں کے باوجود اپنی ذہانت کا اظہار کرتی رہی جسے بغاوت سے تعبیر کیاگیا یا اس کی جدوجہد کو سرد کرنے کے لئے حقوق کا ایک کھوکھلا تصور دیا گیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس انسان کو کمائی کے عمل سے دور رکھا گیا ہو وہ کیسے اپنے حقوق کی بات کرسکتا ہے ۔
عورت کومعاشی طور پر دست نگر بنانے سے مرد میں حاکمیت کے احساسات بھی جنم لینے لگے وہ گھر میں ایک آمر بن گیا جس سے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو بھی تقویت پہنچی کیونکہ پھر کھیت مزدور کواپنے آقا کی آمریت جائز لگنے لگی جب جاگیردار اپنے مفادات سے ہم آہنگ مذاہب کی تعریف و تشریح کرنے لگا اور مرد کو عورت کا حاکم بنادیا گیا تو جاگیردارانہ آمریت کے لئے خود بخود سماجی بنیادیں بھی فراہم ہوگئیں۔
عورت کو چار دیواری میں قید کرنے سے اس کی تمام دنیا چند کمروں، دیواروں،برتنوں اور بچوں پر مشتمل ہوگئی اس پر باہر کے دروازے بند ہونے سے اس کا جسم کمزور اور ذہنی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہ مل سکااور وہ ایک طرح سے مفلوج ہوتی گئی جب وہ بے بس اور دست نگر ہوگئی اسے سماجی اور اخلاقی زنجیروں میں جھکڑ لیا گیا تو اس کے خلاف اقدامات کرنا مرد کے لئے آسان تر ہوگیاحالانکہ عورت نے وقتاً فوقتاً ثابت کیا کہ وہ مرد سے کم تر نہیں ہے وہ نہ تو جسمانی اور نہ ہی ذہنی لحاظ سے اس سے پیچھے ہے اور یہ حقیقت مرد نے بھی تسلیم کی ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ کارفرمارہا ہے مختلف ادوار میں انتہائی نامساعد حالات میں عورت نے اپنی ذہانت کا لوہا بھی منوایا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قاضی القضا اور بڑے بڑے بادشاہوں کو اہم فیصلے کرتے وقت اپنے خواتین کی ضرورت پڑتی رہتی تھی اورا نہوں نے بھی پیچیدہ سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل کے حوالے سے ایسے مشورے دئیے جن کی بازگشت آج بھی دنیا میں گونج رہی ہے اس میں شک نہیں کہ دیہاتی ماحول میں مرد کی ذہنی صلاحیتیں عورت سے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ اسے کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ حجروں، محفلوں اور میل ملاقات کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ان محافل میں کھیتی باڑی کے مسائل کے علاوہ دیگر امور پر بھی بات چیت کی جاتی ہے۔
تاہم جاگیرداری نظام کی پسپائی اور سرمایہ دارانہ تعلیمات کے فروغ نے عورت کے لئے بھی راہ ہموار کردی ہے اور وہ فرسودہ بندھنوں کو توڑنے کی سعی کررہی ہے شہروں میں تو اس نے اپنی صلاحیتوں کو منوالیا ہے اور یہ مفروضہ غلط ثابت کردیا ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کم تر اور صنف نازک ہے
اسی طرح جن دیہات میں جدید صنعتی تہذیب رفتہ رفتہ اپنے قدم جمارہی ہے جاگیردارانہ بندھن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی پڑھنے لکھنے کے مواقع مل رہے ہیں وہاں عورت کے حوالے سے تعصبات، توہمات اور کمتری کے خیالات دم توڑ رہے ہیں دیہاتی عورت کی سوچ کے زاوئیے بھی بدل رہے ہیں۔اپنے گھریلو مسائل اور بچوں کے علاوہ وہ دیگر مسائل پر بھی معنی خیز گفتگو کرنے لگی ہے گو ابھی اس کی سوچ اتنی وسیع نہیں ہوئی ہے تاہم وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اگر اسے مزید مواقع ہاتھ آتے رہے تو وہ یقیناً اپنی خفتہ صلاحیتوں کو اجاگر کرسکتی ہے۔
زمانے کے تقاضے تبدیل ہورہے ہیںآبادی اور ذرائع آمد و رفت کے باعث شہر اوردیہات ملتے جارہے ہیں دیہات میں بھی تعلیم عام ہو رہی ہے تعلیم یافتہ اولاد اپنے ناخواندہ والدین کی سوچ و فکر میں انقلاب لا رہے ہیں جس سے دیہاتی مرد کے عورت کے حوالے سے تصورات بدل رہے ہیں نئی تعلیمات کے ساتھ نئی اقدار بھی جنم لے رہی ہیں چنانچہ دیہاتی مرد اور عورت کی معاملہ فہمی، فکر و شعور اور ذہانت کے بند دریچے وا ہوتے جارہے ہیں اور گرلز سکولوں کے قیام سے تو دیہاتی معاشرے کی ہیت ہی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اس قسم کے اقوال کی گونج اب دیہات میں بھی سنی جاتی ہے کہ ایک ملک اور قوم بنانے کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے کیونکہ عورت کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے اور عمارت کی پہلی اینٹ کا مضبوط ہونا زیادہ ضروری ہوتاہے گو کہ دیہاتوں میں عورتوں کے بارے میں اب بھی یہ تاثرات عام ہیں کہ وہ بے وقوف اور عقل سے عاری ہے اور اگر عورت کی ناک نہ ہوتی تو وہ گندگی بھی کھا تی لیکن یہ ان دیہات یا گھرانوں میں ہے جہاں ابھی نئے تعلیم کی روشنی نہیں پہنچی ہے یا پھر کبھی کسی نے یہ جاننے کی کبھی زحمت گوارانہیں کی کہ ایسا کیوں ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں پیچھے رہ گئی حالانکہ عورت اور مرد کے کام اور حالات کا موازنہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ عورت سوجھ بوجھ میں مرد سے پیچھے کیوں ہے ۔
اگر عورت ذہنی لحاظ سے پسماندہ ہے تو دیہاتی مرد کی بھی یہی حالت ہے اس کی ذہنی سطح بھی محدود ہے کیونکہ یہ کھیتی باڑی کرتا ہے جس میں مغز کھپانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی ہے بیٹا باپ سے سیکھ لیتا ہے کہ کیسے بیج بویا اور پانی دیا جاتا ہے اور کٹائی یا بوائی کی جاتی ہے جبکہ عورت کا ماحول اس سے بھی زیادہ تنگ ہوتا ہے اس پرعلم اور تجربے کے دروازے بند ہیں چنانچہ اسی نسبت سے اس کی ذہنی پرواز بھی ہوتی ہے لیکن نئے حالات کسی دریا کی مانند عورت کے حوالے سے ناقص تصورات کو بہائے لئے جارہے ہیں اور وہ وقت اب دور نہیں رہا جب پاکستان اور افغانستان کی ریاستوں میں مرد کے شانہ بشانہ عورت بھی ترقی کی رفتار تیز کرنے میں نظر آنے لگے گی۔
♣