بھارت کی ممتاز سوشل ایکٹوسٹ ارون دتی رائے نے بھی قومی ایوارڈ واپس کردیا ہے۔ بھارت میں ادیبوں، لکھاریوں کے اس ردعمل پر بھرپور بحث جاری ہے۔ کچھ نے یہ ایوارڈ واپس کرنے سے انکار کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ ایوارڈ ملک نے دیا ہے حکومت نے نہیں۔
تجزیہ نگاروں کے نزدیک جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں ذرائع ابلاغ پر قابض کانگریس نواز دانشوروں اور صحافیوں کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف ایک پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی گئی تھی۔ مودی عوام کے ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اور ان دانشوروںکو عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔
مرکزی ڈپٹی وزیر داخلہ مسٹر کرن رجیجو نے کہا کہ حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی ذمہ داری اتر پردیش ‘ ہماچل پردیش اور کرناٹک کی حکومتوں کو قبول کرنی چاہئیں ۔
مسٹر رجیجو نے ایوارڈ یافتگان کی جانب سے ایوارڈز واپس کئے جانے کے واقعات کو مرکزی حکومت کو بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش قرار دیا ۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں دادری کے مقام پر ایک شخص کے قتل ‘ کرناٹک میں کنڑ ادیب ایم ایم کلبرگی کے قتل اور ہماچل پردیش میں گائے منتقل کرنے والے ایک ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کے واقعات کی ذمہ داری ان ریاستوں کی حکومتوں کو قبول کرنی چاہئے ۔
یہ واضح کرتے ہوئے کہ لا اینڈ آرڈر ریاستوں کا مسئلہ ہے انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اس طرح کے واقعات کیلئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات اتر پردیش ‘ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں پیش آئے ہیں اور ان کیلئے مرکزی حکومت کو کس طرح ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان واقعات کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور انہیں یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر ریاستوں کی ذمہ داری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اسی وقت مداخلت کرتی ہے جب لا اینڈ آرڈر ایک بڑا مسئلہ بن جائے اور اس سے داخلی سلامتی کے امور وابستہ ہوجائیں۔
مرکزی وزیر نے ملک میں عدم رواداری کے ماحول کی وجہ سے مصنفین اور ادیبوں کی جانب سے ایوارڈز کو واپس کئے جانے کے طریقہ کار کی تائید نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ واپس کرنے کا فیصلہ در اصل مرکزی حکومت کو رسوا اور بدنام کرنے کی کوشش ہے ۔
آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے کہا کہ سیاستدانوں کی ترغیب پر مٹھی بھر افراد نے اپنے ایوارڈس واپس کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ عدم تحمل کی آڑ میں آر ایس ایس کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن آر ایس ایس خود ساختہ آزاد خیال سیکولر عناصر کا نشانہ بننے کا موقع نہیں دے گی۔
انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ مصنفین، فلمساز اور سیاستدان اسوقت کیوں خاموش تھے جب گودھرا ٹرین کو جلادینے کا واقعہ اور کشمیری پنڈتوں پر حملے کئے گئے تھے۔ آر ایس ایس لیڈر نے الزام عائد کیا کہ مرکز میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت تشکیل دیئے جانے کے بعد مذہبی عدم رواداری کا ہوّا کھڑا کرنے کی سیاسی سازش کی جارہی ہے لیکن حقیقت برعکس پائی جاتی ہے۔
بعض لوگوں کو ملک میں تبدیلی ہضم نہیں ہورہی ہے جبکہ یہ تبدیلی بہتری، قوم پرستی اور مادر وطن کے وقار کی سربلندی، معیار زندگی اور ترقی کی سمت گامزن ہے۔ چونکہ تبدیلی کی وجہ سے ان کی نظریاتی دکانات بند ہوگئی ہیں لیکن وہ خبروں کی سرخیوں میں رہنے کیلئے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں بصورت دیگر عوام انہیں فراموش کردیں گے۔
راشٹریہ سیوم سیوک لیڈر نے کہا کہ خود ساختہ دانشور اپنے آپ کو یکا و تنہا محسوس کررہے ہیں اور سیاسی محرکات پر مبنی اقدامات کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں انہوں نے ایسا کیا ہے۔ عدم تحمل کی فضاء گزشتہ 60سالوں سے جاری ہے لیکن اس طرح کے لوگ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ وادی کشمیر میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کردیا گیا یہ لوگ اسوقت کہاں تھے اور کارسیوکوں کو زندہ جلادیا گیا۔لیکن ان لوگوں نے احتجاجی آواز بلند نہیں کی تھی۔
مسٹر دتاتریہ ہوسبلے نے کہا کہ دادری کا واقعہ کرناٹک میں ایک ادیب پر حملہ غیر بی جے پی ریاست میں پیش آیا ، یہ لوگ اُتر پردیش اور کرناٹک میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے نریندر مودی حکومت کو مورد الزام کیوں ٹھہرا رہے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس طرح کے تمام واقعات کی آر ایس ایس نے مذمت کی ہے۔
دوسری طرف نئی دہلی میں عدم تحمل کے ماحول پر مصنفین کی جانب سے ایوارڈس کی واپسی کے اعلان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سکھ احتجاجیوں کے ایک گروپ نے 1984 میں مخالف سکھ فسادات پر ادیبوں کی خاموشی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کتابوں کو جلادیا۔
اس احتجاج کی قیادت گروچرن سنگھ بابر نے کی تھی جنہوں نے 1984 کے فسادات پر بعنوان ’سرکاری قتل عام ‘ ایک کتاب قلمبند کی تھی نے آج یہاں جنتر منتر پر اس کتاب کی 50کاپیاں جلادیں تاکہ 1984 کے فسادات کیسز میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا جائے۔
اس موقع پر گروچرن سنگھ بابر نے کہا کہ ملک بھر میں عدم رواداری کی فضاء کے خلاف جن ادیبوں نے ایوارڈس واپس کئے ہیں ان سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ32سال سے کہاں تھے اور 1984ء کے فسادات کے وقت اس طرح کا احتجاج اور غم و غصہ کیوں نہیں کیاگیا جبکہ آج تک فسادات کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔
سنہ 1984 کے فسادات پر مسٹر بابر کی تصنیف 4زبانوں ہندی، انگریزی، پنجابی اور اردو میں شائع کی گئی نے کہا کہ فراہمی انصاف میں تاخیر نے عدالت کا وقار مجروح ہوگا۔
روزنامہ سیاسست حیدر آباد انڈیا