شمیم فیضی
جعفری صاحب اس مضمون سے آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساحرلدھیانوی گھٹیا شاعر ہے، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ کیفی اعظمی اچھا شاعر ہے۔
علی سردار جعفری ایک کثیر جہتی شخصیت کا نام ہے۔ وہ شاعر تھے، نقاد تھے، منفرد اسلوب کے حاصل نثر نگار، فلم ساز تھے۔ وہ ایک فعال عالم تھے۔ وہ اپنے نظریات پر اٹل تھے مگر مخالفین کے نظریات اورخیالات کو سننے او ران پر بحث کرنے سے کبھی انکار نہیں کرتے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ اگر ایک دور میں انتہا پسندی کے لئے بدنام ہوئے تو بعد میں ان پر مصلحت کے تحت سمجھوتہ کرنے کا الزام بھی لگا۔ تخلیقات کی حد تک کوئی بھی سردار جعفری پر شعوری سمجھوتہ کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود وہ ترقی پسند ادبی تحریک کی سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ خود بنے بھائی نے روشنائی میں لکھا ہے کہ سردار جعفری محض اختلاف برائے اختلاف کے اظہار کے لئے بھی انتہائی مدلل تقریر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
’’روشنائی ‘‘میں سجاد ظہیر نے ممبئی میں ہونے والی ہفتہ وار ادبی نشستوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عموماً ایسی نشستوں میں شرکا، ادیبوں اور شاعروں کی پیش کی گئی تخلیقات پر کھلے دل سے تنقید کرنے سے گریز کرتے تھے۔ یہ صرف ظ انصاری تھے جوہر تخلیق پر نکتہ چینی سے بحث کا آغاز کرتے۔ عام طو رپر سردار جعفری، ظ انصاری سے مختلف رائے رکھتے اس طرح یہ لازمی ہوجاتا کہ ظ انصاری کے فوراً بعد سردار جعفری ان سے اختلاف کا اظہار کریں۔
سردار جعفری اپنے اس مزاج کی وجہ سے جلد ہی تحریک اور انجمن میں ایک متنازعہ شخصیت بنتے گئے۔ یہاں تک کہ بہت سے رفقاء یہ محسوس کرنے لگے کہ سردار جعفری ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لکھنؤ سے ممبئی تک سردار جعفری کے ساتھ کام کرنے والے سید محمد مہدی نے ابتدائی دور میں سردار جعفری کے اس تنقیدی مزاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:۔۔۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب اردو ادب میں ایک نئی بیماری کا نام سنا گیا۔ جعفری فوبیا۔ اچھے خاصے نام ونمود والے کچھ شاعروں او رافسانہ نگاروں کو شکایت تھی کہ جعفری کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھ سکے یعنی جعفری نے ہمیں آگے بڑھنے نہ دیا۔
’’میں نے اکثر اس پر غور کیا کہ اس شکایت کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جن دنوں ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں مختلف ادیبوں کو دار پر کھینچا جارہا تھا تو سردار جعفری مرار جی بھائی کی جیل میں تھے۔ تو پھر ان شکایتوں کی کیا بنیاد ہوسکتی ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ سردار جعفری کی پوری شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی کہ جس محفل میں موجود ہوتے وہاں چھا جاتے تھے۔ ہر شخص ان کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ پھر ان کا مبلغ علم دوسرے ادیبوں کے مقابلے میں بہت وسیع تھا او رحافظہ بلا کا پایا تھا۔
وہ اپنی رائے پر بڑی شدت کے ساتھ جمے رہتے تھے اور چونکہ غیر معمولی قوت گفتار بھی پائی تھی اس لئے بحث میں ان سے بازی مارلے جانا آسان کام نہیں تھا۔ غالباً اسی وجہ سے کچھ ادیبوں میں ایک طرح کا احساس کمتری پیدا ہوگیا تھا او رپھر اسی کے ساتھ یہ بھی تھا کہ کچھ شاعروں خاص طور پر دو ایک ہم عصر شاعروں کے متعلق انہوں نے ذرا درشتی سے کام لیا۔ دراصل وہ نظریات کی حد تک بہت راسخ العقیدہ تھے او ریہ بات کبھی کبھی ادب کے میدان میں تنگ نظری کی طرف بھی بہالے جاتی تھی(چند تصویریں چند خطوط صفحات29-30)
ترقی پسند ادبی تحریک کے تنگ نظری کے دور میں سردار جعفری اردو کی حدتک تحریک اور تنظیم کے سروسرابن گئے تھے۔ حالانکہ بھیونڈی کانفرنس کے بعد انجمن کے جنرل سیکریٹری تو کرشن چندر بن گئے تھے۔ مگر بنے بھائی کے پاکستان چلے جانے کی وجہ سے علی سردار جعفری کو کمیسار کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اسی تنگ نظری کے دور میں ہی ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی ہوئی۔ انتہا پسندی اپنے عروج پر تھی۔ اس کی صراحت کرتے ہوئے سید سبط حسن جو سردار جعفری کے ساتھ کام کر چکے تھے، لکھتے ہیں:۔
’’بھیمڑی یا لاہور کانفرنس کی جو شدت پسندی تھی وہ اس وقت کے معروضی حالات کا ردعمل تھی۔ اسی وقت عوامی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ فاشزم کو شکست فاش ہوچکی تھی۔ مشرقی یورپ میں سوشلسٹ حکومتیں قائم ہوگئی تھیں۔ انقلاب روس اپنی جڑیں مضبوط کرچکا تھا او رانقلاب چین کی فتح ہوچکی تھی۔ سامراجیت کی طاغوتی طاقتیں پسپائی اختیار کررہی تھیں۔ ہر جگہ انقلابی سوچ رکھنے والے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ انقلاب سڑک کے کونے تک آپہنچا ہے بس ایک ذرا سا زورلگانے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، کوریا، ویت نام، الجیریا اور دوسرے ملکوں میں مسلح جدوجہد شروع ہوچکی تھی۔ خود ہندوستان میں تلنگانہ مسلح جدوجہد سے گزررہا تھا۔ ساری دنیا کے انقلابیوں میں بائیں بازو کی انتہا پسندی عود کر آئی تھی جس کا شکار ہم بھی ہوئے اور ادب برائے سوشلزم کا نعرہ اپنایا گیا جو ایک فاش غلطی تھی‘‘۔(ادب اور روشن خیالی صفحات151-152)
یہی وہ دور ہے جب ادبی فتوے جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وامق جو نپوری اور بابا نیاز حیدر تو ساری عمر یہ شکوہ کرتے رہے کہ ترقی پسند ادبی تحریک کو سب سے زیادہ نقصان شدت پسندی کے اس دور میں علی سردار جعفری کی ’’کمیساری‘‘ کی وجہ سے ہوا۔ آپ اس دور میں ممبئی میں ہونے والی ہفتہ وار ادبی نشستوں میں کیا ماحول تھا،رفعت سروش ان محفلوں کے شرکا میں شامل تھے انہوں نے ان نشستوں میں علی سردار جعفری کی انتہا پسندی پر بہت کچھ لکھا ہے:۔
’’ادیبوں اور شاعروں کی گرفتاریوں سے ان کی عظمت او رمقبولیت میں اور اضافہ ہوتا تھا اور عوام میں جو ش وخروش کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ اس امر کا سب سے شاندار مظاہرہ سردار جعفری کی گرفتاری کے موقع پر ہوا۔ دیودھر اسکول میں انجمن کی ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ رمیش سنہا نے کہا کہ سردار جعفری رہائی تحریک چلائی جائے۔ شاہد لطیف نے ایک چھوٹا سا تاثراتی مضمون پڑھا جس کا ایک جملہ میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔’’آج ایسا لگتا ہے کہ کرشن چندر، سردار جعفری کے بغیر تقسیم ہوگئے۔‘‘
’’دیودھر ہال میں ہی انجمن کا وہ جلسہ ہوا جس میں عصمت چغتائی نے قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا خاکہ اڑایا تھا اور پوم پوم ڈارلنگ کے عنوان سے عینی کے فن اور افسانہ نگاری کو نشانہ ملامت بنایا تھا اور سب ترقی پسندوں نے بغلیں بجائی تھیں۔ عصمت کے اس مضمون کی بہت دنوں تک دھوم رہی۔
’’ان ہی دنوں عصمت نے منٹوکی کتاب سیاہ حاشیے پر جلے کٹے لفظوں میں سخت تنقید کی تھی۔ دیودھر ہال ہی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا وہ جلسہ ہوا جس میں خواجہ احمد عباس کی خبر لی گئی تھی اور انہیں رجعت پرست قرار دیا گیا تھا اور جب سب سننے کے بعد خواجہ احمد عباس نے جوابی تقریر میں کہا تھا ساتھیو! اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھو تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ کہاں تک درست ہے۔‘‘ تو گیت کار شلیندر نے کڑوے لہجے میں کہا تھا۔‘‘ ضمیر کو دیکھنے کے لئے کون سی سرچ لائٹ ہوتی ہے ہمیں معلوم نہیں۔
’’انجمن کا ایک ایساہی جلسہ صابر صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں منعقد ہوا اور موضوع بحث تھا اختر الایمان، ظ انصاری، میرا جی اورمدھو سدن کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ’’خیال‘‘۔ انجمن نے سرکلر جاری کردیا تھا کہ خیال رجعت پرست رسالہ ہے اور اس میں کوئی ترقی پسند ادیب نہ لکھے۔ ہال کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ سردار جعفری کی صدارت میں جلسے کی کارروائی شروع ہوئی او رصاحب صدر نے شروع میں ہی اپنی ذاتی حیثیت میں’’خیال‘‘ اور اس کے مواد کے خلاف شعلہ بار تقریر کی او رمجمع نے کئی بار تالیاں بجائیں۔ اختر الایمان بھی کچھ کم درجے کے مقرر نہیں تھے۔
اختر نے نہایت اثر انگیز جوابی تقریر کی او رکہا کہ کیا ادب پر پارٹی ڈسپلن عائد ہوتا ہے؟ یا ہونا چاہئے؟ ایک یہی ایسی بات تھی جس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشور میں کہیں نہیں ہے کہ انجمن کمیونسٹ پارٹی کے مقرر کردہ اصولوں پر چلے گی۔ یہ ادیب کا ذاتی معاملہ ہے کہ وہ کیا سیاسی نظریہ رکھتا ہے۔ چونکہ خواجہ احمد عباس پر پہلے یلغار ہوچکی تھی۔ اس لئے آج وہ بھی اختر الایمان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بھی بہت عمدہ تقریر کی۔ بہرحال جلسہ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوگیا۔ اختر الایمان نے بعد میں ایک بہت دلچسپ بات کہی کہ میں آج سے اپنے نام کے ساتھ رجعت پرست لکھا کروں گا دیکھیں کوئی میرا کیا بگاڑتا ہے۔
’’ادیبوں اور شاعروں کی ذاتی اور نجی زندگی کے اختلافات نے بھی انجمن کی ساکھ کو بعض دفعہ نقصان پہنچایا۔ ہمارے ہر دلعزیز شاعر ساحرلدھیانوی او رکیفی اعظمی ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتے تھے۔ لیکن کسی ادبی معاملے میں نہیں بلکہ بالکل ذاتی معاملے میں دونوں کی چشمک شروع ہوگئی۔ ساحرلدھیانوی نے کیفی کو نیچادکھانے کے لئے اس کی ادبی شرکت کو داغدار بنانے کا منصوبہ بنایا اور ایک بھرپور مضمون ردکیفی میں قلمبند کیا او رمضمون لکھنے سے پہلے لابی تیار کی اور جس دن کو ٹھاری مینشن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے میں وہ مضمون پڑھا ۔
اس دن ساحر کے حامیوں کی بڑی تعداد جلسے میں موجود تھی۔ علی سردار جعفری جلسے کی صدارت کررہے تھے۔ ساحر نے یک رخامضمون پڑھا جس میں کیفی شاعر ہی نہیں ہے او راگر ہے تو گھٹیا درجے کا۔ اہل محفل نے مجموعی طور پر مضمون پرواہ واہ کی۔ کچھ بحث ہوئی۔ خاص طور سے صاحب صدر نے جوشیلی تقریر کی او ران کی ان تحریروں کا حوالہ دیا جو ساحر نے اپنے رسائل میں بحیثیت ایڈیٹر کیفی کی تعریف میں لکھی تھی ساحر نے برجستہ کہا: وہ میری ذاتی رائے نہیں تھی کمرشیل نوٹ تھے، صاحب صدر ساحر کی تحریر کا طلسم نہ توڑ سکے۔
’’انجمن کی انگلی نشست میں سردار جعفری نے ساحر کی شاعری پہ مقالہ پڑھا۔ سردار کا مضمون بھی یک رخا تھا۔ انہوں نے ساحر کی مشہو رنظم’’تاج محل‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نظم میں ہمارے قومی ورثے کا مذاق اڑایا گیا ہے اور یہ رجعت پرستانہ ہے۔ سردار جعفری نے اس مضمون پر اپنا زور قلم صرف کیا تھا۔ مگر جب مضمون ختم ہوگیا تو ساحرلدھیانوی اپنے پورے قد کے ساتھ اٹھے او ربولے:’’جعفری صاحب اس مضمون سے آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساحرلدھیانوی گھٹیا شاعر ہے، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ کیفی اعظمی اچھا شاعر ہے۔ ساحر کے ایک ہی جملے نے سردار جعفری کے مضمون کا اثر زائل کردیا۔‘‘
سردار جعفری کی اس دور کی شدت پسندی کی وجہ سے نیاز حیدر اور وامق جو نپوری ساری عمران سے ناراض رہے اور بعد میں تو اسے ذاتی عناد کا درجہ حاصل ہوگیا۔وامق جو نپوری نے اپنی آپ بیتی میں اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور سردار جعفری کی70ویں سالگرہ کے موقع پر انہوں نے روزنامہ ’’قومی آواز‘‘ میں جعفری کے خلاف سلسلہ وار مضامین بھی لکھے۔ اس زمانے میں بابا نیاز حیدر حضرت مستثنیٰ کے قلمی نام سے ہفتہ وار حیات میں کالم لکھتے تھے۔ انہوں نے بھی اس کالم میں سردار جعفری کو نشانہ بنایا تو جعفری نے اپنے دفاع میں ایک طویل خط مجھے روانہ کیا اور اس کی نقل پارٹی قیادت کو بھی بھیج دی۔
اتنا ہی نہیں بابا نیاز حیدر نے تو دہلی میں شنکر شاد کے مشاعرے کے وقت، جے این یو کے بعض طلبہ کو لے کر سردار جعفری کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔ اس وقت بابا کی شکایت یہ تھی کہ سردار جعفری شاہ ایران کے سرکاری استقبالیہ میں شریک ہوئے تھے۔ مظاہرین میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے موجودہ جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علی جاوید بھی شامل تھے۔
انتہا پسندی کے دور سے باہر آنے کے بعد سردار جعفری نے خود کو بڑی حد تک تنظیمی امو رسے الگ کرلیا تھا۔ انہوں نے تخلیقی امو رپر توجہ مرکوز کی تو ان قابل قدر تخلیقات نے جنم لیا جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے۔ اقبال پر تو وہ لمبے عرصہ سے کام کررہے تھے، اسی دور میں انہوں نے صوفی ادب پر کام کیا۔ بڑے شاعروں پر سیریل بنائے۔ رسالہ گفتگو کے ذریعہ ادبی تحریک کا دائرہ وسیع کیا۔ ان کی خلاقانہ شخصیت کے سارے پہلو اسی دور میں اجاگر ہوئے۔ اس کے باوجود بعض معاصرین کو ان سے شکایت رہی۔ مثلاً ڈاکٹر محمد حسن لکھتے ہیں’’اب اگر سردار جعفری جیسا مجاہد تھک جائے تو پھر کیا ہوگا اس ملک میں آئیڈیلز کا۔‘‘
واجپائی کے ہاتھوں انعام قبول کرنے پر وہ تڑپ اٹھے اور افسوس کے ساتھ لکھا۔
’’جب وہ شاعر نہیں تھا محض نعرے باز تھا تو وہ ہمارا تھا۔ او رہم اس کے تھے۔ پھر وہ جب شاعر ہوا تو ارباب اقتدار والے ہمارے غنیموں کے ہاتھ آگیا او ران کی مصلحت میں ایسا اسیر ہوا کہ انہی کے لئے اپنی دلنوازلے میں گانے لگا۔ پھر جب اس کے فن میں پختگی اور شاعری میں کچھ نغمگی اور کیفیت آئی تو وہ کنول کا شیدائی ہوا او رتعصب او رتنگ نظری کے علمبرداروں کے ہاتھوں انعام واکرام قبول کرنے لگا۔ اقتدار کے ہاتھوں فروخت ہوگیا(ذہن جدید میں ارجمند آراء کے مضمون کے حوالے سے)۔
ڈاکٹر محمد حسن کی شکایت بالکل بے جا نہیں ہے مگر اس سے علی سردار جعفری کی شاعرانہ عظمت کم نہیں ہوتی جس کا اعتراف خود ڈاکٹر محمد حسن کو بھی ہے۔ انہوں نے علی سردار جعفری کو یکسر مسترد کرنے سے انکار کردیا۔ یہ کام اس شخص نے کیا جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سب سے پہلے زندہ شاعر پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کی ابتداء کی۔ جعفری پر داؤد کاشمیری کاتھیسس پھر بھی متوازن ہے، مگر بعد میں انہوں نے علی سردار جعفری کی شاعری فن یا مدفن کے نام سے جو کتابچہ شائع کیا وہ سراسر ہر زہ سرائی ہے۔ اس میں جعفری کی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے جس کی ہمیشہ مذمت کی جائے گی۔ اپنی تمام تر کوتاہیوں او رکمیوں کے باوجود علی سردار جعفری ترقی پسند ادبی تحریک کے ایک جید رہنما تھے۔ وہ باکمال شاعر، نقاد، منفراسلوب کے حامل نثر نگار تھے اور اسی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ماہنامہ حیات، دہلی