فرانسیسی جزیرے کورسیکا میں مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص ایک کمرے میں ایک ہجوم نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ فرانسیسی حکام نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
تشدد کا آغاز جمعرات کی شب اس وقت ہوا جب علاقے میں بعض افراد نے فائر بریگیڈ کے عملے پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ جمعے کو اس واقعے کے خلاف ایک مظاہرہ کیا گیا، جو کچھ دیر بعد پُر تشدد شکل اختیار کر گیا، اور اس دوران لوگوں نے نماز ادا کرنے کے لیے مخصوص ایک کمرے پر دھاوا بول دیا۔ فرانسیسی حکام نے اس واقعے کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اجاسیو نامی شہر کے ایک متوسط طبقے کے علاقے میں کرسمس کے روز ’متعدد نقاب پوش نوجوانوں‘ نے ایک پولیس افسر اور فائر بریگیڈ کے عملے کے دو افراد کو زخمی کر دیا تھا، جس کے بعد علاقے کی صورت حال خراب ہوتی چلی گئی۔
جمعے کی دوپہر تقریباً ڈیڑھ سو افراد علاقے کے پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے حملہ کرنے والوں کے خلاف اور پولیس کے حق میں مظاہرہ کیا۔ تاہم مظاہرین میں سے چند ان چھ سو افراد کے ہجوم سے جا ملے جن کا رخ اس علاقے کی طرف تھا جہاں پولیس اور فائر بریگیڈ کے اہل کاروں پر حملہ کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہجوم یہ نعرے لگا رہا تھا: ’عربو، علاقہ چھوڑ دو!‘ اور ’یہ ہمارا وطن ہے!‘۔
قریب ہی مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کا ایک کمرہ تھا۔ ہجوم میں سے بعض افراد نے اس کمرے کا شیشے کا دروازہ توڑ دیا اور وہاں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے قرآنی نسخوں کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی۔
سرکاری افسر فرانسوئے لالاں کے مطابق، ’’پچاس مذہبی کتابوں کو سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔ بعض مسودوں کے اوراق جل چکے تھے۔‘‘ ان واقعات کے بعد شہر میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے اس واقعے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ عمل ’ناقبل برداشت توہین ہے‘۔ انہوں نے سرکاری اہل کاروں پر کیے جانے والے تشدد کی بھی مذمت کی۔
ملکی وزیر داخلہ کا کہنا ہے جائے نماز پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فرانس میں ’نسل پرستی اور مہاجرین دشمنی‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فرانس کی مسلم تنظیم، فرینچ کونسل آف دا مسلم فیتھ نے ایک بیان میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں سے فرانس میں بین المذاہبی ہم آہنگی متاثر ہوئی ہے۔ حملوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، اور ان کی ذمے داری شدت پسند اسلامی تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
DW
♣