بھارت کی معروف صحافی برکھا دت نے اپنے ساتھ بچپن میں ہونے والی جنسی زیادتی کا کھُلے عام اعلان کر کے بہت زیادہ داد و تحسین وصول کی ہے۔
ایک قدامت پسند معاشرے میں ’شجر ممنوعہ‘ پر بات کر کے انہوں نے بے باکی کی ایک مثال قائم کی ہے۔
معروف صحافی اور اینکر برکھا دت کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن میں اُن کے ایک دور کے معمر رشتے دار نے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ برکھا نے اپنے اُس رشتے دار کو ایک وحشی درندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُس شخص نے اُنہیں جذباتی اور ذہنی ہیجان سے دو چار کیا ہے۔ اپنے ان جذبات کو وہ کراہت، بیزاری اور غُصے سے تعبیر کرتی ہیں۔
برکھا کے بقول، ’’ میں نے آخر کار اپنی ماں کو بتایا کہ میرے ساتھ بہت ہی وحشت ناک واقعہ ہوا ہے‘‘۔ بھارت کے ایک معروف ٹیلی وژن چینل این ڈی ٹی وی کی اینکر نے اپنی ایک نئی کتاب میں بچپن میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کتاب کے اقتباسات اس بھارتی تشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ہیں۔
برکھا دت لکھتی ہیں، ’’میرا حملہ آور فوری طور سے۔ میرے گھر سے نکال باہر کیا گیا اور میں نے اُن کراہت آمیز، وحشتناک لمحوں کو اپنی یادوں کی گہرائی میں کہیں چھپا لیا۔ میری دُعا ہے کہ اُس تاریک جگہ پر مجھے کبھی دوبارہ نہیں جانا ہو۔‘‘
دت کا کہنا ہے کہ اُن کا یہ بھیانک تجربہ بھارتی معاشرے میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے 2007 ء میں حکومت کی طرف سے کروائے جانے والے اُس سروے کا حوالہ دیا جس میں شامل کیے جانے والے تمام بچوں میں سے نصف نے یہی کہا کہ انہیں کسی نا کسی طریقے سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دت کے بقول بہت سوں نے شرم کے مارے خاموشی احتیار کی جس کے سبب اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو دندناتے پھرنے کا موقع مل گیا۔
بھارت کو 2002 ء میں نئی دہلی میں ایک طالبہ کے گینگ ریپ کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ گینگ ریپ کےاُس واقعے میں بھارتی طالبہ ہلاک ہو گئی تھی۔ تب سے اندرون ملک اور دنیا بھر میں بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والے خونریز تشدد اور جنسی زیادتیوں کی انتہا پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور نئی دہلی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے۔
برکھا دت کو سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر پر اُن کے مداحوں کی طرف سے اُن کی بےباکی پر بہت زیادہ تعریفوں سے نوازا جا رہا ہے۔ زیادہ تر کا کہنا ہے کہ دت کا یہ اقدام نہایت جراتمندانہ ہے۔ ایک ایسے قدامت پسند معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنا ہی بہت سے افراد کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک ٹوئٹ میں برکھا دت کے اقدام کو یوں سراہا گیا ہے،’’ اپنے تجربات کے بارے میں قلم اُٹھانے کا شکریہ۔ یہ دیگر متاثرین کو ایسی زیادتیوں کے خلاف کچھ کرنے کی راہ میں مددگار ثابت ہوگا۔‘‘
دت بھارت کی حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والی ایک شعلہ بیان سرگرم کارکن بھی ہیں۔ انہوں نے 1990 ء میں یونیورسٹی میں اپنے ایک ساتھی طالبعلم کےہاتھوں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات بھی عام کی ہیں۔ اُس طالبعلم نے انہیں ریپ کرنے کی کوشش کی تھی۔
DW