سید نصیر شاہ
روشنی، روشن خیالی، اعتدال پسندی اور جمہوریت یہ سب الفاظ بالعموم پورے عالم اسلام میں اور بالخصوص ’’ اسلام کے قلعہ‘‘ پاکستان میں بے معنی ہو رہے ہیں۔ قائداعظم کے پاکستان کے ہر شہر میں درندے دندناتے پھر رہے ہیں وحشت اور بربریت کا عریاں رقص جاری ہے انسانوں کے لیے کہیں کوئی عافیت گاہ نہیں زندگی کنکروں سے بھی ارزاں ہو رہی ہے، آدمی کا لہو جوہڑوں کے گندے پانیوں سے زیادہ بے وقعت ہو رہا ہے روزانہ گیلنوں خون بہہ جاتا ہے تہذیب و تمدن کی ہر روایت شرمندگی سے چہرہ ڈھانپ رہی ہے، صدائیں سنگسار ہو رہی ہیں اور زبانیں پتھر۔
آؤ اپنی آنکھیں خود ہی نکال کر پھینک دیں کہ منظر شعلہ بداماں ہیں اور نظر یں دھواں دھواں ۔ آؤ اپنے قلم ٹکڑے ٹکڑے کر کے سڑکوں پر بکھیردیں کہ یہ لفظوں سے قلاش ہو گئے ہیں ان سے منظر نامے رقم نہیں ہو سکتے۔ آؤ کوئی نئی لغت تلاش کرنے شہر چھوڑ کرجنگلوں میں نکل جائیں کہ بھیڑئیے ہماری زبان نہیں جانتے۔ آؤ اپنے سینوں میں اپنے خنجر بھونک کر اپنے کلیجے نکالیں اور انہیں کا غذوں پر بکھیردیں۔
میں یہ لفظ لکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیوں لکھ رہا ہوں کس کے لیے لکھ رہا ہوں اور کیا لکھ رہا ہوں؟میں 27دسمبر2007کی شام کے پانچ بج کر پینتیس منٹ کے آتشناک لمحے کی گرفت سے نہیں نکل سکا اور شاید میرے ملک کی تاریخ بھی اسی میں قید ہو گئی اور پابہ زنجیر سہمی کھڑی ہے شاید وہ برسوں اس سے نہ نکل سکے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلوس پر جس طرح وحشیانہ حملہ کیا گیااور جس طرح ان کی جان لی گئی اور ان کے ساتھ اور کئی لاشوں کو خاک وخون میں تڑپا دیا گیا اور فوراً واردات کے نشانات مٹا دئیے گئے۔ یہ ہیں وہ لمحات جو ہزاروں سلگتے سوالات اپنے ماتھے پر چپکائے منجمد کھڑے ہیں اور ہم انہیں کچھ نہیں بتا سکتے ،پوری قوم کچھ نہیں بتا سکتی اور شاید کبھی کچھ نہ بتا سکے۔ یہ سوال یونہی بے جواب رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ سوال ہی سوال ہے کہیں کوئی جواب نہیں۔ ایسے جواب تلاش کرنے کے لیے ہم کمیٹیاں قائم کرتے ہیں کمشن بٹھاتے ہیں اٹکل پچو رپورٹیں تیار ہوتی ہیں اور پھر یہ رپورٹیں خفیہ تہہ خانوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور یہ پاتال میں چلی جاتی ہیں۔ یوں اس قوم کو پچھلا سوال بھول جاتا ہے کیونکہ آگے بہت سے سوالات پیدا ہو چکے ہوتے ہیں ۔
یہ حملہ بلاشبہ سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا ۔کس نے سازش کا تانا بانا تیار کیا؟کسے معلوم؟کیا واقعی انتہا پسندوں کا ’’کارنامہ‘‘ ہے؟ان انتہا پسندوں کو اتنی رقم اتنا اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ان انتہا پسندوں کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا عداوت تھی؟کیا وہ ان لوگوں کو ختم کر چکے تھے جنہوں نے بزعم خویش انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کمرہمت باندھ رکھی ہے اور اپنی اس جنگ کے لیے امریکہ سے رقم لے رہے ہیں ۔کیا اس سازش کے پیچھے ان لوگوں کے ہاتھ ہیں جو مسلم خواتین کو خولوں میں بند رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ ان لوگوں کی سازش ہے جنہیں محترمہ کے میدان انتخاب میں ہونے سے عبرتناک شکست کا خطرہ تھا اور جو آئندہ سالہا سال تک حاکم رہنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں؟ یہ اور اس جیسے کئی سوال ہیں مگر ہم تو صرف چپ رہ کر روسکتے ہیں ۔
اسی راولپنڈی میں وہ پھانسی گھاٹ بھی تھا جہاں بے نظیر کا والد اور غریب مزدوروں، کسانوں طالب علموں سنجیدہ اور عوام دوست سوچ رکھنے والے دانشوروں کا ’’ قائد عوام‘‘ جھول گیا تھا، وہ کچھ بھی تھا لیکن یہ کریڈٹ اسے پہنچتا ہے کہ اس نے عوام کے شعور کی بیداری میں انقلاب آفریں کام کیا تھا اور اسے اسی جرم کی سزا دی گئی تھی۔اس نے اپنی اسی بیٹی کو جیل سے جو خطوط لکھے ان سب سے ایک خط میں یہ جملے بھی تھے ’’پیاری بیٹی بلاشبہ تمہاری اگلے جہان کی جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے مگر اس دنیا کی جنت غریب عوام کے قدموں کے نیچے ہے میں چاہوں گا کہ میری بیٹی دونوں جنتیں حاصل کرے‘‘ اور بیٹی نے شاید دونوں جنتیں پالیں مگر اس کے غریب ملک کے بدنصیب عوام کو کچھ نہ ملا۔ انہیں صرف ماتم کرنے کے لیے ایک اور لاش مل گئی ایک اور قبر مل گئی ۔
ہمارے دانشوروں نے آئیڈیل میزان پر اسی بے نظیر بھٹو کو با رہا تو لا اور اسی پر تنقید کی بلکہ تنقیدیں کی وہ ہمارے نزدیک سچی اور کھری سوشلسٹ نہیں تھی مگر اس نے کب کہا تھا کہ وہ سچی اور کھری سوشلسٹ ہے اس نے صرف جمہوریت کااور جمہوری حقوق کا نام لیا تھا۔ اُسے دو دفعہ جو حکومت دی گئی وہ جس طرح لولی لنگڑی اور مفلوج واپاہج تھی اس سے بھی ہمارے دانشور اچھی طرح واقف ہیں۔ اس نے تو اتمام حجت کی خاطر خداوندانِ اقتدار سے سمجھوتے بھی کئے تھے مگر یہ سمجھوتے وہ عوام کے حقوق کی قیمت پر نہ کر سکی۔
اس لیے اس کا منظر سے ہٹنا ضروری تھا ۔ ہمیں بے نظیر بھٹو اور اس کی پیپلز پارٹی سے اس لیے پیار ہے کہ یہ بڑی حد تک روشن خیال ہیں ان میں ملائیت کی تنگ نظری نہیں۔ہم محترمہ پر تنقید کرتے تھے کہ وہ دھندلے سویروں کی بات کرتی ہیں۔ ان کی بات روشن سویروں کی بات نہیں مگر اب تو تاریک رات چھا گئی ہے۔ وہی تاریک رات جس میں وہ امیدوں کے چراغ جلائے بیٹھی تھی اب بے رحم آندھیوں کے ایک ہی ہلے نے وہ سب کچھ ختم کر دیا۔ اتنا گھپ اندھیرا چھا گیا کہ ہمیں اپنی بصارتیں اور بینائیاں جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں ہمارا میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ بھٹو خاندان کی دشمنی میں اپنا جوش دکھاتے رہے کیا اب وہ مطمئن ہیں؟
مرے چارہ گرکونوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر سوحساب ہم نے چکا دیا
آج شاید ان بونے لیڈروں کو احساس ہو گیا ہو گا کہ بے نظیر بھٹو پر رونے والی تو ساری دنیا ہے مگر ان پر کوئی آنکھ تر نہیں ہو گی بلکہ خلق خدا اللہ کا شکر ادا کر ے گی کہ زمین نے اپنی نجاست چاٹ لی۔
نیا زمانہ جنوری2008
One Comment