کیلفورنیا میں رونما ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ ہر ہو ش مند شخص ا س کی مذمت کر رہا ہے۔آنے والے کئی دنوں اور ہفتوں تک مذمت اور افسوس کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔مغرب میں آباد مسلمانوں کا رد عمل پہلے کی طرح بہت زیادہ خود کار اور مشینی ہے۔ہر ایسے واقعے کے بعد کئی قسم کے رد عمل سامنے آتے ہیں۔
اس میں پہلا رد عمل ان لوگوں کا ہوتا ہے جو یہ منترا دہرانا شروع ہو جاتے ہیں کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔دہشت گرد مسلمان نہیں مجرم ہیں۔اور میرے نام پر سب کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔دوسرے وہ لوگ ہیں جو ایسے واقعات پر پر اسرار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔تیسرے وہ ہوتے ہیں جو اس سلسلے میں سامنے آنے والی سازشی تھیوریوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔وہ ان واقعات کی ذمہ داری خود امریکہ یا سرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو سر ڈال دیتے ہیں۔ان کے خیال میں یہ عالم اسلام کے خلاف کروسیڈ اور صہیونی سازشوں کی تازہ ترین کڑی ہے۔
چوتھے وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کو جہاد سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ موقع اور محل وقوع دیکھ کر دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں اور گاہے وقت کے تقاضوں کے مطابق خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔پانچویں وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں۔وہ اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اسلام امن ا مذہب ہے یا جنگ کا۔لیکن ان میں سب سے زیادہ پریشان کن رد عمل خود پاکستان کے اندر سے ہوتا ہے۔اس رد عمل کی ترجمانی پاکستان کے میڈیا کا ایک سیکشن اور خود ملاں کرتا ہے۔
دنیا میں رونماہونے والے متعدد واقعات کی طرح کیلیفورنیا کے واقعہ کا تعلق بھی واضح طور پاکستان سے جڑا تو ارباب اختیار سمیت میڈیا اور ملاں کا رد عمل حسب روایت ہی تھا۔نمونے کے طور پر چھ دسمبر کے روز نامہ میں پاکستان کے ایک سنئیر ترین کالم نویس کا کالم پڑھنے کی چیز ہے۔یہ کالم پاکستانی دانشور کے ذہن میں موجود تضادات کا شاہکار ہے۔
سیکولر اور روشن خیال سمجھنے والے اس کالم نویس نے کیلیفورنیا کے اس دہشت گردی کے سیدھے سادے واقعے کی سادہ الفاظ میں مذمت کے بجائے جو تجزیہ پیش کیا وہ تضادات کا مجموعہ ہے اور پہلے سے کنفیوزڈ عام اخباری قاری کو مزید کنفیوزڈ کرنے کا ایک اعلی نسخہ ہے۔ اس موقعہ پر موصوف نے بر سبیل تذکرہ یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ نائن الیون کا واقعہ دراصل امریکی حکومت کا اپنا کارنامہ تھا۔
گویا اگر قارئین کو یہ باور کروایا جا سکتا ہے کہ نائن الیون امریکی حکومت خود کرو اسکتی ہے تو پھر کیلیفورنیا کا واقعہ کیوں نہیں ؟ کیلی فورنیا کے اس ہولناک واقعے پر صرف ایک سطر لکھنے کے بعد موصوف دور کی کوڑی لانے کے طویل سفر پر نکل پڑے۔نائن الیون سے لیکر اسامہ بن لادن کے قتل تک کے تمام بڑے واقعات کے بارے میں بنیاد پرستوں کی سازشی تھیوریوں کو درست قرار دینے کی کوشش کی۔داعش کے باب میں اس کی وحشت اور درندگی کی مذمت کے بجائے اس کو بھی مغربی دنیا کی سازش قرار دیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ سب دراصل عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کی ایک تازہ ترین کڑی ہے۔
یہ ایک بڑے اخبار کے ایک سنےئر ترین کالم نویس کا قصہ ہے۔مگر اس کا اطلاق تقریبا پچانوے فیصد کالم نویسوں پر ہوتا ہے۔دہشت گردی کا جب کبھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو چند الفاظ میں اس کی مذمت کے بعد یہ لوگ اس کی وجوہات کا ایک طویل سلسلہ پیش کرنے کے بعد اس کا جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں اور گھوما پھرا کر آخر کار خود مغرب کو ہی اس کا ذمہ دار قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔یہ دہشت گردی کی حمایت کا نسبتاً لمبا اور محفوظ راستہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بنیاد پرستی اور شدت پسندی کو فروغ اور تحفظ دینے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
رہا سوال ارباب اختیار کا تو یہ لوگ صرف کنفیوزڈ ہی نہیں خوف زدہ بھی ہیں۔یہ لوگ مغرب سے تو خوفزدہ ہیں ہی لیکن اس سے بھی زیادہ یہ مُلا، میڈیا اور اپنے عوام سے خوفزدہ ہیں۔ریاست اور مذہب کے سوال پر ان کے نظریات کسی پرائمری سکول کے طالب علم کی سطح کے ہیں۔ یہ باآواز بلند یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود ، کوئی آثار نہیں۔لیکن خود ان کااپنا تنخواہ دار سرکاری مسجد کا امام بابنگ دہل داعش کی حمایت کا علان کرتا ہے۔مسجد میں بیٹھ کر داعش کے حق میں تقاریر کرتا ہے اور مغرب کے خلاف زہر اگلتا ہے۔
کیلیفورنیا کے واقعے کے تانے بانے جا کر اس سے ملتے ہیں، داعش سر عام اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے لیکن حکمران طبقات کا خوف انہیں کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے۔ اس موضوع پر زبان کھولنے سے بھی روکتا ہے۔
یہ سلسلہ اب اتنا اگے بڑھ چکا ہے کہ پاکستان میں بنیاد پرستی اور قانون کی حکمرانی ایک دوسرے کے مدمقابل اور آمنے سامنے ہیں جس طرح ضرب عضب سے پہلے ریاست کی رٹ اور شدت پسندی ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ریاست نے با امر مجبوری اپنی رٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اب ارباب اختیار کو مجبوراً ہی سہی مگر فیصلہ کرنا پڑے گا بصورت دیگر شام اور عراق جیسی صورت ہی ان کا مقدر ہے۔
One Comment