قاہرہ ۔2 دسمبر: مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ شام اور عراق سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم دولت اسلامی ‘داعش’ کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جامعہ الازہر کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الازہر نے کہا کہ ہر وہ شخص جو فرشتوں، کتاب اللہ (قرآن پاک)، دیگر آسمانی کتابوں تورات، انجیل کا انکار کرے وہ ایمان سے خارج سمجھا جائے گا اور جو شخص ایمانیات کے ان اجزاء کو مانتا ہو تو اسے کافر نہیں قرار دیا جا سکتا۔
”اس موقع پر ایک طالب علم نے ڈاکٹر احمد الطیب سے استفسار کیا کہ کوئی شخص کبائر کا ارتکاب کرے توہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے کیونکہ بہت سے ایسے مذاہب[مسالک] ہیں جن میں گناہ کبیرہ کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے اور اس پر اصرار کرتے ہوئے موت سے ہمکنار ہوجائے تو اسے خارج از ایمان و اسلام نہیں سمجھا جائے گا، البتہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔
شیخ الازہر نے قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا کہ کسی گروپ کو کافر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور دائرہ اسلام سے خارج کیے جانے کے کون کون سے بنیادی عوامل ہیں۔
داعش کے بارے میں انہوں نے اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کیا اور کہا کہ داعش ‘فساد فی الارض’ کی مرتکب ہو رہی ہے مگر ہم اسے کافر قرار نہیں دے سکتے۔اگر داعش سے وابستہ لوگ ایمانیات کی تمام بنیادی جزئیات کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ مسلمان ہیں مگر ظالم اور گناہ گار ہیں۔
مصر میں شیعہ ازم کی تبلیغ
اس سے پہلے پچھلے ماہ ڈاکٹر احمد الطیب نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے ملک میں اہل سنت مسلک کے نوجوانوں کو شیعہ مسلک کی طرف مائل کرنے اور مصر میں شیعہ ازم کی تبلیغ کیلئے بیرون ملک سے فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں۔
ہم نے متعدد مرتبہ بیرون ملک سے ہونے والی متنازعہ فنڈنگ پر اعتراض کیا۔ ایک سنی اکثریتی ملک میں اس نوعیت کے فنڈ فتنہ و فساد کو فروغ دینے اور خون خرابے کا موجب بن سکتے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جامع الازھر نے نفرت، فرقہ پرستی اور دیگر سماجی اور معاشرتی برائیوں کا موجب بننے والی غیرملکی رقومات کے خلاف آواز بلند کی مگر اس پر کھل کر بات اس لئے نہ کی جا سکی کہ یہ ملک میں خون خرابے کا باعث بن سکتی تھی۔
جامعہ الازھر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ناموس صحابہؓ کے دفاع کا بیڑا ہم نے آج نہیں اٹھایا اور نہ ہی یہ کوئی وقتی پالیسی ہے بلکہ آج کے دور میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرض عین ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تخریب کار عناصر ملک میں فرقہ واریت کے فروغ کیلئے شیعہ اور سنی مسلک کے نوجوانوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور بزرگان دین کی بنیاد پر لوگوں کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور ان سازشوں میں غیرملکی ادارے اور تنظیمیں ملوث ہیں۔
ڈاکٹر احمد الطیب نے کہا کہ اس وقت مصر کے گلی کوچوں میں شیعہ مسلک کی تبلیغ کے عام چرچے ہو رہے ہیں۔ آج اگر خطے کے علماء نے اپنی ذمہ داریاں انجام نہ دیں تو انہیں کل قیامت کو جواب دینا ہو گا۔
آج اگر کسی گروپ کی وجہ سے ملک میں فتنہ برپا ہوتا اور خون خرابہ ہوتا ہے تو اسے روکنا حکومت وقت کے ساتھ ساتھ علماء دین کی بھی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے سال رمضان میں ہم نے مصر کے تمام سنی اور شیعہ مسلک کے جید علماء پر مشتمل ایک فورم تشکیل دیا تھا۔
اس فورم نے اہل تشیع اور اہل سنت مسلک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قتل سے سختی سے منع کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمیں اس میں خاطر خواہ کامیابیحاصل نہیں ہوئی ہے۔
♦
Daily Siasat, Hyderabad, India