حال ہی میں آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کی ایک کتاب ” میں ملالہ نہیں: میں مسلمان ہوں، میں پاکستانی ہوں“ کے عنوان سے منظرعام پر لائی گئی ہے۔اس کتاب کے پس منظر میں یہ بات اکثر زیر بحث آتی رہی ہے اور بہت ہی شدومد سے یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ چونکہ نجی تعلیمی ادارے بنیادی طور پر منافع بخش کاروباری ادارے ہیں اس لئے وہ شاید اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ملالہ بندوق پر حرف و قلم کی برتری کا سانس لیتا استعارہ ہے۔ اس کی قلمی مزاحمت ہمیں سبق دیتی ہے کہ کسی کو شکست دیے اور دشمن بنائے بغیر بھی جیتا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کے بہت سارے مندرجات سے اختلاف نہ کرتے ہوئے میں یہاں ادب کے ساتھ صرف یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ مانا کہ کسی حد تک نجی تعلیمی ادارے بنیادی طور پر منافع بخش کاروباری ادارے ہیں، اس لئے وہ اس بات کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ وہ حرف و قلم کی برتری کو مقدم رکھیں ، لیکن کیا سرکاری تعلیمی ادارے کوئی مختلف ذہنیت کے افراد پیدا کر رہے ہیں؟ کیا ماضی قریب کے بہت سارے انتہا پسندی کے واقعات کے ماسٹر مائینڈ ہمارے سرکاری اداروں بشمول سرکاری جامعات کے فارغ التحصیل طلباء نہیں ہیں؟
عام طور پر تعلیمی سہولیات کا عام آدمی کی دسترس میں نہ ہونا اور تعلیمی معیار کی تنزلی کو ہی شدت پسندی کے بڑھنے کا اہم سبب سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر نام نہاد اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے بھی اپنے طلباء میں رواداری اور ذہنی و قلبی وسعت پیدا نہ کر سکیں تو خیال آتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور نام نہاد اعلیٰ معیار کے علاوہ بھی ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی اور ایسی کمی یا غلطی رہ گئی ہے جو ہمیں مذہبی، ثقافتی اور صنفی لحاظ سے وسعت پسندی اور رواداری سے اتنا دور لے آئی ہے کہ آج ہم اپنے آپ کو بین الاقوامی تناظر میں ڈھال نہیں پاتے، اور شاید اسی لئے ہم گلوبل سٹیزن نہیں ہو سکے۔
میرے خیال میں اس ساری صورتحال کی اصل وجہ تعلیمی مواقع اور معیار سے زیادہ نصاب میں موجود وہ تضادات ہیں جو ہمیں دوسرے کے مذہبی، ثقافتی ، صنفی حطٰ کہ ہر طرح کی رواداری سے مانع رکھتے ہیں۔ آج ہم اِسی تفریقی مواد کی وجہ سے خود پسندی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب و مسلک اور اپنے ریِت و رواج سے تال میل نہ کھاتا ہوا ہر مرد و زن جینے کا حقدار نہیں لگتا۔ اِس تفریقی نصاب نے ہمیں دوسروں کے اختلافی نقطہِ نظر کا احترام کرنے سے بھی مانع رکھا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ہم آپس میں بھی دست و گریباں ہیں اور دوسروں کے لئے بھی ڈر و خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
یہ اپنی جگہ اہم کہ ہم بہت ہی اعلیٰ روایات کے امین ہیں ، پر اگر یہ سب پڑھ لینے کے بعد ہم میں عجزوانکساری کے بجائے سب سے اعلیٰ وارفع ہونے کا اتنا تکبروغرور سما جائے تو یقین جانئے غلطی کہیں اور نہیں پر نصاب کے مواد اور اس کی پیش کش میں ہے جس نے ہمیں ساری دنیا سے الگ ایک عجوبہ بنا دیا ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر نصاب کو اس طرح سے ترتیب دیا جائے جو ہمیں ساری دنیا کے افراد سے عزت و احترام سے پیش آنے کی ترغیب دے اور جیو اور جینے دو کے تحت برداشت و رواداری کاحوصلہ پیدا کرے۔
اس لیے محض اس بات کی ضرورت ہے کہ ریاست اپنا بیانیہ اور اپنی ترجیحات کا رُخ تبدیل کرلے۔ یہ حکومتیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے تعلیمی نظام اور سماجی اصلاحات سے اپنے شہریوں کی سوچ اور ملک کے باقی دنیا سے تعلقات کا وژن طے کرتی ہیں اور دور رس نتائج کی حکمتِ عملی بناتیں ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر سنتوش کمار، ڈویلپمنٹ ورکر ہیں ۔انسانی حقوق اور بین المذاہب مکالمے اورتعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔