ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے حکومتِ پاکستان کو معاملات طے کرنا ہوں تو ملاقاتیں ان دونوں کے مابین دوبئی میں ہوا کرتی ہیں۔ اسلام آباد کو غیر محفوظ قرار دے کر ان اداروں کے درمیانی سطح کے افسران کو بھی اس شہر کا سفر کرنے سے باز رکھا جاتا ہے۔ دیگر معاملات کے علاوہ اس فیصلے کے پیچھے سوچ یہ بھی ہے کہ خدانخواستہ اسلام آباد میں قیام کے دوران عالمی تنظیموں کے کسی نمائندے کو کچھ ہوگیا تو اس کے لواحقین میڈیا اور عدالتوں میں سوطرح کے سوالات اٹھادیں گے۔
عالمی میڈیا کے ”سامراجی تعصب“ سے قطع نظر ہمارے بہت ہی جگری یار چین کے صدر نے بھی جنوبی ایشیاءکا پہلا دورہ کرتے ہوئے اسلام آباد آنے سے گریز کیا تھا۔ وجہ اس کی وہ دھرنا تھا جو عمران خان نے ان دنوں اس شہر میں ”دھاندلی“ کی بنیاد پر بنی حکومت کے خلاف دے رکھا تھا۔ پاکستان نہ آنے کی وجہ سے انہیں جو اضافی دن ملا، اسے انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کے آبائی شہر جاکر صرف کیا۔
اتفاق سے اس روز نریندرمودی کی سالگرہ بھی تھی۔ چینی صدر نے اس کے ذاتی گھر جاکرمبارک باد وغیرہ دی۔ ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میڈیا میں عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے لگی رونق سے دل گرماتے رہے۔
میری بڑی خواہش تھی کہ ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کے ذریعے اسلام آباد میں جو گہماگہمی دو روز تک جاری رہی، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز کسی طرح یہ بات بھی اجاگر کرسکتے کہ بتدریج اور بہت قربانیوں کے بعد، پاکستان میں وہ ماحول اب یقینی طورپر لوٹ رہا ہے جو بین الاقوامی تناظرمیں میگا ایونٹرچانے کے لئے سازگار سمجھا جاتا ہے۔ میرے کسی ساتھی نے اس پہلو کو مناسب انداز میں پیش کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔ کئی برسوں سے صحافت کا مقصد اب فقط سیاپا فروشی بن چکا ہے۔ ٹی وی سکرینوںپر تجزیے نہیں اپنا گریبان چاک کرتی ماتم کنائی ریٹنگزکے حصول کے لئے لازمی قرار دی جاچکی ہے۔
اچھی بھلی چیزوں میں بھی کیڑے نکالنے کے لئے بھی کسی دیدہ بینا کی ضرورت ہوتی ہے اور راولپنڈی کی لال حویلی میں مقیم ایک منہ پھٹ عقلِ کل کو ہر وقت طعنے دیتی ساس والی آنکھ میرے ربّ نے دے رکھی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہوئے مشترکہ اعلامیے کے صرف 30منٹ بعد وہ ایک نہیں کم از کم تین ٹی وی سکرینوں پر سائنس کے کرشموں کی بدولت بیک وقت نظر آئے۔ ہم لوگوں کو یاد دلانے کہ لاہور سے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاوس پر تیسری بار نازل ہونے والے ”بزدل اور کاروباری“ نواز شریف نے ایک بار پھر امریکہ کے حکم پر پاکستان کے ازلی دشمن کے سامنے سرنگوں کردیا۔
فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ دسمبر کے آخر یا جنوری میں عزیر بلوچ نامی کسی شخص کا اعترافی بیان قوم کے سامنے آجائے گا۔ اس بیان کے بعد آصف علی زرداری کے خلاف قائم ہوں گے قتل کے مقدمات۔ ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سندھ حکومت کی چھٹی کروانا ہوگی۔ سندھ کی منتخب حکومت ختم ہوگئی تو ”جعلی مینڈیٹ“ کے ذریعے لاہور اور اسلام آبادمیں براجمان ”چورلٹیرے حکمران“ بھی اپنے عہدوںپر برقرار نہیں رہ پائیں گے۔
مارچ 2016ءسے پاکستان 1958’1969’1977اور 1999ءکے سالوں والا نظر آئے گا۔ اس اعلامیے پر لہٰذا غور کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں جو اپنی فراغت کے قریب پہنچی نواز حکومت نے مودی سرکار کی نمائندہ کے ساتھ طے کیا ہے۔
لال حویلی میں مقیم منہ پھٹ شخص خود کو جی دار ثابت کررہا ہے تو اس ملک میں موجود آزادی¿ اظہار کی نعمت کے طفیل۔ اظہار کی یہ آزادی ہمارے آئین نے فراہم کررکھی ہے اور اس آئین پر عملدرآمد کسی جمہوری حکومت کی بنیادی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ تھوڑا بہت جی دار ایک زمانے تک میں بھی ہوا کرتاتھا۔ اپنے بچوں کی قسم کھاکر مگر آج اعلان کرتا ہوں کہ آج کا پاکستان تمام تر ”جمہوری“ نظر آنے والے ماحول کے باوجود آزادی¿ اظہار کی نعمت سے بالکل محروم ہوچکا ہے۔
اظہار کی آزادی اگر واقعتا میسر ہوتی تو گزشتہ کئی ہفتوں سے عزیر بلوچ نامی شخص کی گرفتاری، پاکستان میں موجودگی اور اس کے اعترافی بیان کی داستانیں بیان کرنے والے اینکر حضرات تحقیقی جرنلزم کے حوالے سے معروف ہوئی اپنی صلاحیتوں کو یہ جاننے کے لئے بھی صرف کرتے کہ اس شخص کو کسی روز کسی ملک سے لاکر کون سے قانون کے تحت پاکستان کی کونسی عدالت کے روبرو پیش کرکے اب کون سی جیل میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت ہمارے کسی شہری کو کسی نامعلوم مقام پر ”یرغمالی“ کی صورت بند کیا ہی نہیں جاسکتا۔
فرض کرلیتے ہیں کہ کوئی عزیر بلوچ ہے جسے مناسب وقت آنے پر لوگوں کے سامنے لے آیا جائے تاکہ وہ بولے اور آصف علی زرداری کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہوجائیں۔ مسعود محمود بھی تو 1977ءمیں بہت کچھ بولا تھا۔ اعترافی بیان دیا اور بعدازاں پاکستان چھوڑ کر امریکہ میں بہت آرام سے رہتے ہوئے اپنی طبیعی عمر کے اختتام کے بعد خالق حقیقی سے جاملا۔
موصوف کے کسی قریبی عزیز، بیٹی، بیٹے اور بھانجے، بھتیجی سے ملنے کا مجھے کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ نہ ان میں سے کسی کا ذکر میڈیا میں دیکھنے یا سننے کو ملا۔ جس شخص کو اس کے اعترافی بیان کی بدولت تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی چڑھایاگیا اس کی بیٹی البتہ اس ملک کی دوبار وزیر اعظم ضرور بنی۔ وہ قتل ہوئی تو اس کے شوہر پاکستان کے پانچ سال تک صدر رہے۔ عزیر بلوچ کے ”اعترافی بیانات“ بالآخر جو گل کھلائیں گے انہیں بھگتنے کو شاید میں زندہ نہ رہوں۔ ان سے وابستہ تماشے میرے بعد آنے والی نسلیں ہی دیکھ پائیں گی۔
فی الوقت تو میری آپ سے التجا ہے کہ تھوڑا وقت نکال کر یہ حقیقت پوری طرح جان لیں کہ امریکہ، چین اور بہت سارے اہم ممالک نے باہم مل کر اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا منعقد ہونا یقینی بنایا ہے اور یہ اہتمام بھی کیا کہ افغان صدر اور بھارتی وزیر خارجہ اس اجلاس میں ہر صورت موجود ہوں۔
افغان صدر کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم نے جو تفصیلی ملاقات کی اس کے آخری مراحل میں امریکی اور چینی نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اس ملاقات کے بعد چینی وزیر خارجہ ہمارے آرمی چیف سے ملنے گئے اور پھر جنرل راحیل شریف افغان صدر سے ایک تفصیلی ملاقات کے لئے اسلام آباد آئے۔
اعلیٰ ترین سطحوں پر ہونے والی ان ملاقاتوں کی ترتیب اور کڑی سے کڑی جوڑتی زنجیر بہت ہی پیچیدہ اور گھمبیر معاملات کا ”آخری حل“ ڈھونڈنے کے لئے گہرے پانی میں ڈوبتے کسی شخص کی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاوں مارنے والی کوشش کی طرح نظر آتی ہے۔ انہیں سُرخ ہوئے تلوں والے کلچے کے ساتھ کھد (سری) کھانے کے بعد جی داری دکھانے کو بے چین مفکر کی لن ترانیوں کے ذریے ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔
روزنامہ نوائے وقت، لاہور