دنیاایک نئے بیانیہ کی تلاش میں

anbارشد نذیر

لبرل اور بورژوا دانشور وں کا خیال ہے کہ جمہوریت ، جو اچھے طرزِحکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کی ضامن ہوتی ہے، ہی کے ذریعے تمام سماجی اور سیاسی مسائل کا حل نکلا جا سکتا ہے۔ لبرلز یا روشن خیال سرمایہ داری کو معاشی نظام کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ معاشی ناہمواری کا خاتمہ اور سماجی انصاف کا حصول سب جمہوریت ، جمہوری رویوں اور اچھے طرزِ حکمرانی ہی کے ذریعے حاصل ہو سکتے ہیں ۔اپنی دلیل کی صداقت کے لئے وہ مغربی ممالک کی مثال پیش کرتے ہیں۔

روشن خیال جمہوریت کے دفاع میں جن مغربی ممالک کا ذکر کرتے ہیں وہ ان جمہوریت نواز ممالک کی تیسری دنیا کے خام مال کی لوٹ مار کے لئے ان کے ہاں پھیلائی جانے والی سماجی ، سیاسی اور معاشی بے چینی اور بد نظمی کا تسلی بخش جواب نہیں دیتے۔ اس حوالے سے بفرضِ دلیل اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ خام مال کی لوٹ مار نہیں تھی بلکہ مغرب کی علمی اور سائنسی ترقی کا ثمر تھاجس کی وجہ سے انہوں نے تیسری دنیا کے غریب ، جاہل اور پسماندہ ممالک سے ان کے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل اور ذرائع حاصل کئے ۔

لیکن پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ا ن کے معاشی اور معاشرتی انصاف کے تقاضوں کا اصول کہاں چلا گیا۔ کیونکہ قدرتی وسائل اور ذرائع پر قابض ہونے کی غرض سے وہاں کے سماجی اور سیاسی توازن میں بگاڑ پیدا کیا گیا۔ اسلحہ اور فریق و تقسیم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سماجی اور سیاسی بے چینی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے انہوں نے سیاسی بیانئے تخلیق کئے ۔ ان سیاسی بیانیوں کی جگالی کرنے کے لئے ان پسماندہ ممالک کے اندر ہی سیاسی لیڈر اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اہم کھلاڑی کے طور پر شامل کیا گیا۔ نوم چومسکی اسی سیاسی صورتحال کو استحصالیوں کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔

استحصالیوں کے یہ پٹھو آج بھی جنوبی امریکہ ، افریکا، جنوبی ایشیاء ، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں جن ممالک میں سوشلزم کا اثر و رسوخ تھا ان میں بھی جمہوری عمل کو بیان کردہ تمام تر جمہوری اصولوں کے خلاف کچلا اور روندا گیا۔ یہ دوہرے معیارات کا منہ بولتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ دانشور یہ بھی نہیں بتاتے کہ امریکہ نے ویت نام کی جنگ میں اتنی بربریت کن جمہوری اصولوں کے تحت پھیلائی ۔ 1978ء کے افغانستان کے ثور انقلاب کو روکنے کے لئے امریکہ نے جس طرح ضیاء الباطن اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ذریعے فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی یہ کس جمہوریت کے تحت تھا۔

امریکہ کے پاس عراق میں داخل ہونے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ بد مست ہاتھی کی طرح عراق میں داخل ہو گیا ۔ نتیجتاً آج مشرقِ وسطیٰ ، جنونی امریکہ ، افریکا ، پاکستان اور افغانستان کا امن بربادہو چکا ہے ۔ مستقبل قریب افغانستان میں نئی آفات اور مصائب کی خبر دے رہا ہے ۔ آنے والے دنوں میں پاکستان بھی اس کے اثرات سے نہیں بچ سکے گا۔ یہ روشن خیال بورژوا جمہوریت جمہوری نظام کی بقاء کے لئے جس طرح اعداد وشمار کا گورکھ دندھا پھیلاتے ہیں ۔ وہ بھی تضادات سے بھر پور ہے۔ جمہوریت کو بچانے کے لئے ٹرن اوٹ کی باتیں کی جاتیں ہیں۔ وہ ووٹرز جو ووٹ ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ۔ ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہ ان کی اس سسٹم پر بداعتمادی اور مایوسی کا اظہار نہیں ہے۔

سامراجی تباہ کاریوں کے علاوہ 2008ء کے معاشی بحران نے یورپی ممالک ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے اب وہ چاہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر جنگوں کا آغاز نہیں کر سکتے۔ لیکن سرمایہ داری اپنے پھیلائے گئے وسیع مفادات سے دست کش بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے آنے والا وقت سامراجی قوتوں کی گرتی ہوئی معیشتوں کے باوجود انہیں مشرقِ وسطیٰ ، جنوبی ایشیاء میں دخل درمعقولات کے لئے مجبور رکھے گا۔ لیکن ساتھ ہی سامراجی ملکوں کے اپنے محنت کش بھی اس پالیسیوں سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے اندر اس جنگ کے بے معنویت ، اسلحہ کی فروخت اور ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کا احساس زور پکڑ رہا ہے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے وہاں بھی کسی حد تک مذہبی اور ثقافتی امتیاز کو ہوا دی جارہی ہے تاکہ ان کے اپنے محنت کش ان لاحاصل جنگوں کے بارے میں سوال نہ اٹھا سکیں۔ وہ اسلاموفوبیاجو سامراج نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں پیدا کیا تھا آج ان کے اپنے ملکوں میں بھی ایک ردِعمل کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ان تمام سوالات کا جواب ان نام نہاد روشن خیالوں اور بورژوا دانشوروں کے پاس نہیں ہے۔

ماحولیاتی آلودگی جو کرہ عرض کے وجود کے لئے خطرہ ہے اُس میں ان جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کا رویہ نہ صرف غیر سائنسی اور غیر جمہوری ہے بلکہ انتہائی غیر اخلاقی اورغیر انسانی ہے۔ سوا سات ارب نفوس پر مشتمل افراد کی اس دنیا کا کل مجموعی پیداوار آج صرف 3.4% ہے۔ دوسری طرف دنیا کی نصف سے زیادہ دولت صرف پانچ صد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے قبضہ میں ہے۔ آج بھی دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی صحت، صفائی ، تعلیم ، علاج اور رہائش کی سہولتوں سے محروم ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تخمینے کے مطابق دنیا میں بے روزگاروں کی تعداد 2019 ء تک 212 ملین پہنچ جائے گی۔ یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اس طرح کے تخمینوں کا انحصار سرکاری اعداد و شمار پر ہوتا ہے جو اکثر غلط ہوتے ہیں۔ حقیقی معاشی صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔

ماحولیات کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اس کرہِ ارض کا درجہ حرارت دو ڈگری بڑھ گیا ، تو ہماری یہ زمین تباہ ہو جائے گی یہاں زندگی قائم نہیں رہ سکے گی۔ ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار یہ ترقی یافتہ ممالک اور ان کے سرمایہ داروں کی بے جا منافع خوری کی پالیسیاں ہیں لیکن اس ماحولیات کے براہِ راست اور بلواسطہ منفی اثرات تیسری دنیا کے غریب عوام اور محنت کش برداشت کر رہے ہیں۔ نہ یہ ترقی یافتہ ممالک اور نہ ہی ان کے سرمایہ داری اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سرمایہ داروں کے یہ روشن خیال اوربورژوا دانشور اس بارے میں بھی کوئی استدلال نہیں پیش کرتے۔

ان روشن خیال اورلبرل بورژوا معیشت دانوں اور دانشوروں کی عقل جب تمام مسائل کا کلیت میں تجزیہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے ، تو یہ مسائل کو علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھتے ہیں اور نئے بیائیے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک اور نکتہِ نظر اسلامائزیشن کا ہے۔ اسلام کے سیاسی مفکرین دو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ایک دھڑا جس کا خیال ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنے کے لئے ریاست کا کنٹرول بذریعہ طاقت حاصل کیا جائے ۔ دوسرے دھڑے کا خیال ہے کہ تبلیغ و اشاعت کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کی جائے پھر یہی لوگ ریاست اور ریاستی مشینری میں شامل ہو کر اسلامی نظام کے قیام کی عوامی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔یہ دوسرا دھڑا شیعہ ، سنی، وہابی ، دیوبندی ، بریلوی وغیر ہ جیسے مسالک میں بٹاہوا ہے۔

اسی طرح تبلیغ و اشاعت کے ذریعے ذہن سازی کی بات کرنے والے ان گروہوں کا جدید علوم ، سائنس و ٹیکنالوجیز کے حوالے سے رویہ بالعموم انتہائی منفی ہے۔تاہم ان کا سارا زور شریعت کے نفاذ پر ہے ۔ شریعت کے نفاذ کے حوالے سے بھی دونوں دھڑے جدید تقاضوں اور جدید علوم سے نہ صرف نابلد ہیں بلکہ اس حوالے سے دل سے جدید علوم کو بے مصرف اور بے معنی خیال کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے سعودی عرب ، ایران اور دیگر اسلامی ممالک بشمول پاکستان کے مفتیان کے سماجی اور سائنسی تحقیقات کے بارے میں دیئے گئے فتاویٰ کا جائزہ لیں کر دیکھ لیں۔ مزید برآں انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان کے فیصلے بھی ان کے ذہنی ابہام کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے ہاں پایا جانے والا سیاسی بیانیہ بالکل وہی ہے جو کچھ نام نہاد لبرلز اور روشن خیال دانشوروں کا ہے۔ وہ طالبان، القاعدہ اور اب داعش کی اس وجہ سے دبے لفظوں میں حمایت کرتے ہیں کہ ان کی یہ کارروائیاں مغرب کے ظلم اور زیادتی کا ردِعمل ہیں۔ اس طرح مذہبی دانشور اور یہ نام نہاد لبرل ادوار کے بدلنے اور اس کے مطابق اپنے سماج کو ڈھالنے کی سماجی ، علمی ، معاشی اور سیاسی ذمہ داری سے بالکل مبرا ہو جاتے ہیں۔ اور دونوں ہی نئے بیانیوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔

دوسری طرف بائیں بازو کے دانشور اور سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ کیونکہ جمہوریت خود کوئی نظام نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری نظام کو چلانے کا ایک طریقہ ہے۔ سرمایہ داری انسانیت اور اخلاقیات سے عاری ایک نظام ہے جو منافع اور شرحِ منافع کی بنیاد پر چلتا ہے ۔ منافع خوری محض خود غرضی، بے حسی اور لالچ کو جنم دیتے ہیں۔ خود غرضی، لالچ اور بے حسی جیسی انسانیت سے عاری خصوصیات میں انسانی برابری ، معاشرتی اور معاشی مساوات اور انصاف جیسی اوصاف پروش پاہی نہیں سکتیں۔ اس سے غیر منصفانہ مسابقت اور مقابلہ بازی، جس کو یہ جمہوریت نواز شخصی آزادی اور انفرادی صلاحیتوں کی پرورش قرار دیتے ہیں ، میں جرائم پلتے ہیں۔

قانون کے اندر جرائم کے خاتمے اور میڈیکل کے شعبے سے بیماری کے خاتمے کی روح اورجذبہ ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر سرمایہ کی ایک اور سرشت بھی ہے ۔ اُسے اپنے پھیلاؤ اور تحفظ کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ طاقت جمہوری طرزِ حکمرانی میں ریاستوں کے ذریعے سے فراہم ہوتی ہے ۔ ریاستیں اپنی باقی ریاستی مشینری کو چلانے کے لئے ان سرمایہ داروں کے سرمائے پر پلتی ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ گٹھ جوڑ محنت کشوں ، غریبوں اور کمزوروں کا قانون کی آڑ میں استحصال کرتا ہے ۔ محنت کشوں اور مزدورں کی پیدا کردہ قدرِ زائد سے یہ سرمایہ دار اپنے استحصال کو مزید پیچیدہ سے پیچیدہ انداز میں پھیلاتا چلا جاتا ہے

حقیقی انسانی ترقی کا یہ خواب ذرائع پیداوار کو محنت کشوں کے براہِ راست جمہوری کنٹرول میں دے کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس پر روشن خیال اور بورژوا دانشوروں ، معیشت دانوں اور لبرلز کا یہ اعتراض ہے کہ سابقہ سویت یونین میں یہ نظام اپنی متوقع حاصلات دینے میں ناکام رہا ہے۔ سٹالن ازم کی افسرشاہی کو وہ سوشلزم کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اعتراض برائے اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس اعتراض کے باوجود سرمایہ داری آج جس نہج پر پہنچ چکی ہے اور جس طرح کا استحصال یہ کر رہی ہے ، اس کا تسلی بخش جواب ان کے پاس نہیں ہے۔

3 Comments