کمال احمد رضوی بھی چل بسے

5672daae5a535
معروف مصنف اور اداکارجناب کمال احمد رضوی دل کا دورہ پڑنے سے کراچی میں وفات پاگئے ۔ ان کی عمر پچاسی سال تھی۔

کمال احمد رضوی یکم مئی 1930 کو بہار، بھارت کے ایک قصبے “گیا“ میں پیداہوئے۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے۔

سنہ 1951میں19سال کی عمر میں پاکستان آگئے۔ وہ اکیلے ہی پاکستان آئے جبکہ ان کا خاندان وہیں رہا۔ کچھ عرصہ کراچی میں رہے پھرلاہورمنتقل ہوگئے اور تصنیف و تالیف کے پیشے سے منسلک ہوئے ۔

متعدد انگریزی کتابوں جن میں ڈیل کارنیگی کی کتابیں سرفہرست ہیں کو اردو میں منتقل کیا۔ یہ کتابیں آج بھی شائع ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کچھ روسی ناولوں کا اردو ترجمہ کیا۔ ’’تہذیب‘‘، ’’آئینہ‘‘ اور ’’شمع‘‘ نامی رسائل کی ادارت کرتے رہے۔ بچوں کا ادب بھی لکھا۔ ’’بچوں کی دنیا‘‘، ’’تعلیم و تربیت‘‘ کی ذمے داری سنبھالی۔ ’’پھلواری‘‘ نامی پرچا نکالا۔

کچھ عرصے بی بی سی اُردو سروس سے بھی منسلک رہے۔1958 میں لاہور سے تھیٹر کا آغاز کیا جس میں ان کے ڈرامے ’بالا کی بد ذات‘ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔

اس کے بعد جب لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو وہ ٹی وی کی جانب آ گئے۔

انھوں نے ٹی وی کے لیے ’چور مچائے شور‘، ’میرا ہمدم میرا دوست‘، ’الف نون‘، ’مسٹر شیطان‘ اور ’آرٹ گیلری‘ جیسے سپر ہٹ ڈرامے لکھے۔ ان میں سے بعض میں انھوں نے اداکاری کے علاوہ ڈائریکشن بھی دی۔

سنہ 1965 میں لاہورٹی وی کے قیام کے بعد پہلی دفعہ الف نون شروع کیا جس میں انہوں نے خود الّن کا اوررفیع خاورنے ننھے کا کردار ادا کیا۔ دونوں کردار تاریخ ساز بن گئے۔ الف نون پی ٹی وی کا مقبول ترین پروگرام تھا مختلف سالوں میں چارمرتبہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں کمال احمد رضوی ختم ہوتے تھے وہاں سے الن شروع ہو جاتا تھا۔

کمال رضوی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ان کے خانگی حالات بہت ابتر ہوچکے تھے اور انھوں نے پی ٹی وی کے آغا ناصر سے کہا تھا کہ وہ الف نون دوبارہ کرنا چاہتے ہیں۔

الف نون لکھنے کے لیے قدرت نے موقعہ فراہم کیا ورنہ میں خود کشی کرلیتا، یہ قدرت کی جانب سے جذباتی سہارا تھا اس کے اچھے پیسے بھی ملتے تھے یہ ڈرامہ اتنا مقبول ہوا کہ ایک بار کراچی آ کر پیش کیا تو ٹکٹوں کی فروخت سے 72 ہزار رو پے ملے جس سے زمین خریدی اور بعد میں مکان بنوایا۔

اس ڈرامہ سیریل میں معاشرے کی خامیوں، رائج بدعنوانیوں اور سیاسی سماجی حالات پر تنقید کی جاتی تھی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک ہفتے تک انتظار کرتے تھے اور سب کام چھوڑکرالف نون دیکھا کرتے تھے۔

کمال رضوی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نامور شاعر فیض احمد فیض کو میرا یہ کردار پسند آیا اور انھوں نے بھی کراچی آرٹس کاؤنسل میں ایک بار کہا تھا ’ کمال تم تو مقبول عوامی شخصیت بن چکے ہو۔

کمال احمد رضوی کی دیگر مشہور ٹی وی سیریز میں آپ کا مضلص،صاحب بی بی غلام اور مسٹر شیطان کے نام سر فہرست ہیں ۔ انھوں نے تھیٹر اور ٹی وی کے جن ڈراموں میں اپنے فن کے جوہر دِکھائے، ان میں’’آدھی بات‘‘، ’’بلاقی بدذات‘‘، ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘، ’’جولیس سیزر‘‘، ’’کھویا ہوا آدمی‘‘، ’’خوابوں کے مسافر‘‘، ‘‘، ’’چور مچائے شور‘‘ اور ’’ہم سب پاگل ہیں‘‘ کے نام نمایاں ہیں ۔ ان میں سے بیش تر ڈرامے انھوں نے خود ہی لکھے تھے اور خود ہی ان کی ہدایات بھی دی تھیں ۔

کمال احمد رضوی منٹو کی تحریروں سے بہت متاثر تھے ۔ لاہور میں ان کی ملاقات منٹو سے ہوئی ۔کمال رضوی نے منٹو سے ان کے افسانے ’بادشاہت کا خاتمہ‘ کو سٹیج پر پرفارم کرنے کی اجازت مانگی تھی جو منٹو نے نہیں دی۔

کمال رضوی کے مطابق انھوں نے منٹو سے کہا تھا کہ اگر آپ اس وقت اجازت نہیں دو گے تو میں آپ کے مرنے کے بعد اس کو پرفارم کردوں گا۔

الف نون‘ ہو یا ’مسٹر شیطان‘ کمال رضوی نے معاشرے کی ساخت اور زندگی پر تنقید کے نشتر برسائے اور یہ وہ ہی دن تھے جب ملک پر آمر حکومتوں کا راج رہا۔

ویب ڈیسک

Tags: ,

Comments are closed.