مہر جان
” میں ان لوگوں (ریاستی اداروں)کو یہی سمجھاتا رہتا ہوں کہ کہ لیڈر شپ بنائی نہیں جاتی بلکہ پیدا ہوتی ہے“۔ یہ الفاظ الیکشن سے پہلے محمود خان اچکزئی کے تھے جب تک کہ وہ “سلیکشن” کے مرحلہ سے گزر کر اپنے پورے خاندان کو کرسیاں ریوڑیوں کی طرح نہیں با نٹتے تھے۔
محمود خان اچکزئی ریاستی اداروں کو سمجھاتے رہے لیکن بلاخر وہ خود سمجھ گہے کہ اقتدار کا رستہ “بوٹ پالشی” میں ہی مضمر ہے اور آج وہ کوئٹہ میں شراب خانہ پہ قبضے سے لے کر خندقوں کی کھدائی تک کے پیسے بغیر کسی ڈکار کے ہضم کر بھی رہے ہیں اور پورے خاندان کو یوں نواز رہے ہیں کہ نواز شریف بھی شرما گئے ہیں۔
ان کاغالبا یہ مشہور تاریخی نعرہ” چترال دا بولان” اقتدار کی وادیوں سے کچھ تبدیل ہوا اور اب یوں ہے چترال دا بولان… محمود خان محمد خان حامد خان وہ مسلم لیگ کی گود میں اس طرح بیٹھ گئے ہیں کہ سعد رفیق کو ثناءاللہ زہری سے ان کے دونوں بھائیوں کی ضمانت لینا پڑی کہ ان کو نہیں ہٹایا جاے گا۔
محمود خان جس کو سننے کے کے لیے لوگ قہوہ خانوں کو چھوڑ کے پارلیمنٹ کا رخ کرتے تھے لیکن اقتدار کے بعد وہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کی اس صف میں شامل ہوگئے کہ اب لوگ ان کو سننے کے بجاے قہوہ خانون کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی سیاست قوم پرستی سے شروع ہو کر خاندان پرستی تک ختم ہوگئی۔ اسٹیبلشمنٹ سے یاری میں مولانا فضل الرحمن سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ۔
بوٹ پالشی کا وطیرہ اپنا کر عمران خان کو بھی حیران کردیا کوئٹہ کے تمام پبلک علاقوں پہ اپنے لوگوں کو بیٹھاکر لوگوں سے بھتہ کے مترادف پارکنگ کے نام پہ پیسے بٹور رہے ہیں۔اب تو نیشنل پارٹی والوں کی طرح انکے کارکنوں کے لیے بھی نظریاتی منجن فروشی کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔
ایک وقت تھا پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے کارکن سینہ تان کے قوم پرستی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف منجن بیچتے تھے لیکن جس دن سےمندوخیل صاحب کا نوشکی وچاغی سے ایم این اے کی سلیکشن ہوا یہ ان کااور اسٹیبلشمنٹ دوستی کا وہ ثبوت ہے جو وہ کبھی نہیں جھٹلا سکتے ۔
جب پہلے پہل مندوخیل صاحب کو اس سیٹ پہ الیکشن لڑنے کا کہا گیا تو وہ پارٹی سے کافی نالاں تھے اور محمود خان اچکزئی ان کو دلاسے دیتے رہے( خدا خیر کہی)یعنی خدا خیر کرے گا۔ سلیکشن کے بعد بھری محفل میں مندوخیل صاحب نے محمود خان اچکزئی سے کہا گر خدا نے اس طرح خیر کرنا تھا تو مجھے خضدار سے الیکشن لڑاتے۔۔
یہ بلوچستان کے وہ قوم پرست ہیں جو اداروں کی آشیر باد سے بلوچستان کے لوگوں پہ مسلط کر دیے گئے ہیں چاہے ڈاکٹر مالک ہوں یا ثناء اللہ زہری لیکن جمہوریت کا راگ الاپنےوالے یوں ہی راگ الاپتےرہیں گےاور ریاستی ادارے اپنے لوگ لاتے رہیں گے۔
محمود خان اچکزئ اپنی چادر کو چاہے جیسے بھی لپیٹں لیکن ان کی بوٹ پالشی اور مسلم لیگی ہونا کبھی بھی نہیں چھپ سکتا۔اور اب ریاستی ادارے ان کو بخوبی سمجھا سکتے ہیں کہ واقعی ہم قیادت پیدا تو نہیں کرسکتے لیکن تاریخ کے اوراق میں قیادت کو زمین بوس ضرور کر سکتے ہیں۔