ہمگام
جنوبی ایشیاء ، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے عین وسط میں واقع خطہ مقبوضہ بلوچستان 27 مارچ 1948کو پاکستانی قبضے کے بعد سے لیکر آج تک بدترین ریاستی جارحیت کا شکار رہا ہے ۔ قبضے کے بعد سے بلوچ اب تک پانچ بڑی تحریکوں کی صورت میں اپنی آزادی کیلئے سر اٹھا چکے ہیں اور ہر بار طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے پاکستانی فوج بلوچستان کو خون میں نہلا کر ان تحریکوں کو دباتی رہی ہے۔
لیکن بلوچستان میں جاری موجودہ تحریک سابقہ تحریکوں سے مختلف ہے یہ نا صرف اب تک کی طویل ترین تحریک ہے بلکہ شدید ترین بھی ہے ، موجودہ تحریک باقی کسی بھی بلوچ تحریک کے نسبت زیادہ وسعت حاصل کرتے ہوئے پورے بلوچستان میں پھیلا ہوا ہے اور موجودہ تحریک کو عوامی حمایت ماضی کے تحریکوں سے کئی گنا زیادہ نصیب ہوئی ہے ۔
بلوچستان میں جاری یہ تحریک جیسے جیسے طوالت اختیار کرتی جارہی ہے ریاستی بربریت میں بھی ویسے ویسے شدت پیدا ہوتی جارہی ہے اور اب بلوچستان میں ریاست پاکستان ایک وسیع پیمانے کی نسل کشی پر عمل پیرا ہے اور انسانی حقوق عملاً معطل ہوچکے ہیں۔ پاکستانی فوج صرف گذشتہ ایک دہائی کے دوران 20 ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکنان اور عام شہریوں کو اغواء کرچکی ہے جن میں سے دو ہزار سے زائد کی مسخ شدہ تشدد زدہ لاشیں ویرانوں میں مل چکی ہیں، جن میں سے 169 کی لاشیں صرف ایک اجتماعی قبر سے خضدار کے علاقے توتک سے ملی ہیں ۔
اسکے علاوہ پاکستان اب بلوچستان میں بلوچ آبادیوں پر جیٹ طیاروں ، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور دور مار توپوں کا آزادانہ استعمال کررہا ہے جس سے روزانہ بلوچستان کے کسی نہ کسی علاقے سے عام شہریوں کے ہلاکت کی خبریں آتی ہیں۔ یہ سلسلہ بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے لیکر جنوبی علاقے بارکھان تک جاری ہے ۔
بلوچ نسل کشی کے اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 8 نومبر کو پاکستانی فوج نے بلوچستان کے علاقے بولان میں ایک انتہائی وسیع پیمانے کا آپریشن شروع کردیا ۔ اطلاعات کے مطابق آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے بولان کے مختلف علاقوں ڈگاری ، سنجاول،سہر کمب، بزگر ، کلچ ،لکڑ اور بر بڑی کو گھیرے میں لیکر 74 سے زائد افراد کو گھروں سے اغواء کرکے لاپتہ کردیا ۔ اس دوران پاکستانی فوج نے کھڑی فصلوں کو آگ لگا کر جلا کر خاکستر کردیا اور قریب ہی واقع ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل جنگل پر بھی آتش گیر مادہ چھڑک کر اسے مکمل طور پر نذرِ آتش کردیا ۔
اس دوران 100 سے زائد گھروں سے تمام قیمتی مال و اسباب لوٹنے کے بعد ان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں درجنوں کی تعداد میں خواتین و بچے زخمی حالت میں کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر بھی مجبور ہیں۔
اس آپریشن کے دوران پاکستانی فوج بربریت کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے کچھ عمر رسیدہ افراد اور بچوں کو اذیت دیکر دھکتی آگ میں پھینک دیا ۔ مسلسل محاصرے کی وجہ سے بولان کے مذکورہ علاقوں میں غذائی اجناس کی کمی ہوگئی ہے اور فوجی تشدد اور گولہ باری کی وجہ سے زخمی افراد علاج معالجے کیلئے بھی شہروں کی جانب نہیں جاسکتے جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں خطر ناک حد تک اضافے کا اندیشہ ہے ۔
لوگوں کے معاشی قتل کی غرض سے اب تک ان علاقوں میں بے شمار مال و مویشی گولیاں مار کر قتل کی گئی ہیں یا پھر انہیں فوجی ٹرکوں میں لاد کر منڈیوں میں بیچا جارہا ہے۔ ان علاقوں میں لوگوں کا گذر بسر گلہ بانی اور زراعت پر ہے ۔ کھڑی فصلوں کے جلانے اور مال و مویشی کے لوٹ و قتل کے بعد اب سینکڑوں کی تعداد میں لوگ معاشی طورپر دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔
بلوچ نسل کشی کو تیز تر کرنے اور بلوچ تحریک کو دبانے کیلئے پاکستان روز نت نئے حربے آزماتا ہے ، لیکن بولان آپریشن کے دوران پاکستان نے تمام انسانی حقوق کے قوانین ، جنگی اصول ، اسلامی و بلوچی روایات کو روند کر آپریشن کے دوران 27 بلوچ خواتین اور 14 سے زائد بچوں کو اغواء کرچکا ہے، جو تاحال 22 دن گذرنے کے باوجود لاپتہ ہیں ۔ بلوچ خواتین کو صرف اغواء نہیں کیا گیا بلکہ ایک 80 سالہ بزرگ بلوچ خاتون بی بی ساھتو پر تشدد کرکے اسے شہید کیا گیا ۔
ان علاقوں میں میڈیا پر پابندی کی وجہ سے بلوچستان کے ان دور دراز علاقوں سے مکمل تفصیلات موصول نہیں ہوئے ہیں لیکن کئی عینی شاھدین کے مطابق آس پاس کے پہاڑی علاقوں میں آپریشن کی شدت مزید تیز تھی اور وہاں سے بھی کئی بلوچ خواتین کے اغواء ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تاہم اب تک میڈیا میں جن خواتین اور بچوں کے اغواء کے تفصیلات آئیں ہیں وہ درج ذیل ہیں در بی بی زوجہ وشو چلگری مری ،گل پری زوجہ دلوش مری تین بیٹیوں سمیت بخت بی بی زوجہ دلوش مری ایک بیٹے و تین بیٹیوں سمیت بی بی زر بخت زوجہ رحم دل مری چار بیٹوں سمیت بی بی زرمیدو زوجہ گزو مری ،ھتا بی بی زوجہ علی مری دو بیٹوں و دو بیٹیوں سمیت جار بی بی زوجہ کالو مری سترہ سالہ بیٹی بان بی بی اور چھ معصوم بچوں سمیت بی بی وائری زوجہ علی مری گل بی بی زوجہ تنگو مری دو بچوں سمیت جان بی بی زوجہ لال محمد مری، بی بی حانی زوجہ علی بخش مری 1 بیٹی سمیت بی بی نور بانو زوجہ ملا نظر محمد دو بچوں سمیت ۔
بلوچستان میں اس وقت میڈیا اور عالمی اداروں برائے انسانی حقوق کا داخلہ ممنوع ہے ۔ پاکستانی میڈیا مکمل فوج کے کنٹرول میں ہے جس کی وجہ سے وہ بلوچستان میں بڑے سے بڑے قتل عام پر خاموشی کا پردہ ڈال کر اسے دنیا کے نظروں سے اوجھل کرنے کی بھرپور کوشش کرکے بلوچ نسل کشی میں فوج کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔عالمی میڈیا پر بلوچستان میں پابندی کی وجہ سے عالمی میڈیا بلوچستان کے بابت پاکستانی میڈیا کے خبروں کا محتاج ہے اور ساتھ میں بلوچستان میں ایسا کوئی بھی غیر جانبدار عالمی ادارہ موجود نہیں جو بلوچستان کے حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لائے ۔اس لیے بلوچستان میں آج حالات جس حد تک کشیدہ ہیں اور پاکستانی فوج جس بڑے پیمانے کی نسل کشی میں ملوث ہے اس سے دنیا بے خبر ہے ۔
ا سی میڈیا بلیک آوٹ کے مدنظر بلوچستان کے سب سے بڑے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے نہ صرف علاقے کے موجود صورتحال اور حقیقی معلومات دنیا کے سامنے رکھی بلکہ انہوں نے عالمی میڈیا سے اپیل بھی کی کہ ان معلومات کے سچائی اور بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کا جائزہ لینے کیلئے خود ان علاقوں کا دورہ کریں اور اگر بلوچستان میں حالات اس حد تک گھمبیرنہ ہوئے اور یہ معلومات درست نہ ہوں تو وہ بلوچ لبریشن آرمی کا بائیکاٹ کردیں ۔
ٓاٹھائیس سے زائد بلوچ خواتین کے اغواء کے اس واقعے کے بعد بلوچستا ن بھر میں شدید غم وغصے کا فضاء پیدا ہوگیا اور تمام بلوچ قوم پرست تنظیموں نے اسکے خلاف بیانات جاری کیئے ۔ اس مسئلے کو عالمی سطح تک اجاگر کرنے کیلئے بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس نے سماجی رابطے کے ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر
#SaveBalochWomen
کے نام سے مہم چلائے ۔ اسی مد میں بلوچ سیاسی کارکنوں نے مورخہ 17 نومبر کو جرمنی کے شہر ڈیوزلڈورف اور 22 نومبر کو برطانیہ کے شہر لندن میں بی بی سی کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔
بلوچستان میں ان مغوی بلوچ خواتین کے لواحقین نے مورخہ 18 نومبر کو پریس کانفرنس کرکے ایک طرف میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلے کو عالمی منظر نامے پر اجاگر کرنے میں اپنا فرض پورا کریں اور دوسری طرف اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں سے بلوچستان میں جاری نسل کشی اور بلوچ خواتین کے اغواء کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی درخواست کی ۔
اسی طرح مورخہ 25 نومبر کو انسانی حقوق کی تنظیم بلوچ ہیومن رائٹس ڈیفنس نے خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرکے بلوچ خواتین پر ہونے والے اس ریاستی تشدد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔
آج بلوچ خواتین کے اس اغواء کے واقعے کو 22 دن گذر گئے ہیں اور اس دوران مسلسل احتجاج کیا جاتا رہا ہے لیکن نہ پا کستانی ریاست نے اب تک ان خواتین کو رہا کیا ہے اور نہ ہی کسی بھی عالمی ادارے یا حقوقِ نسواں کے کسی ادارے اور میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے ۔جس کی وجہ سے یہ مسئلہ روز برو ز سنگین ہوتا جارہا ہے۔
One Comment