کینیڈ ا کے نئے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوکی مسلمان حلقوں میں بڑے پیمانے پر ستائش ہو رہی ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے حوالے سے جسٹن ٹروڈو اور سابق وزیر اعظم سٹیفن ہارپر کی اپروچ اور پالیسی میں فرق ہے۔جسٹن ٹروڈو اپنے انتخاب کے بعد بار بار دو ٹوک انداز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ داعش اور القاعدہ جسے اسلامی جنگجو گروپ مسلمانوں کے نمائندے یا ترجمان نہیں ہیں۔اگرچہ اس موضوع پر صدر اوبامہ بھی بار ہا اپنے واضح اور دو ٹوک خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ چند دہشت پسند گروپوں کی کاروائیوں کا ذمہ دار کروڑوں مسلمانوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
مگر جسٹن ٹروڈو کی بات دوسری ہے۔وہ اس موضوع پر دل سے بولتے ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت اپنے جذبات کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ایک ایسے وقت میں جب مغرب میں دائیں بازو کی ایک سخت گیر سوچ سر اٹھا رہی ہے۔اور حیرت انگیز طور پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ امریکہ جیسی سپر پاور کے صدرات جیسے عہدوں کے قریب پہنچ سکتے ہیں، جسٹن ٹروڈو جیسے لوگوں کی موجودگی کو غنیمت بلکہ اثاثۃ تصور کیا جانا چاہیے۔
مغرب میں آباد مسلمان جو دائیں بازو کے نسل پرست سیاست کاروں کی باتوں سے خوفزدہ تھے، ان کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ مگر محض جسٹن ٹروڈو جیسے اکادکا لوگوں کے انتخاب سے ان مسلمانوں کے سارے خوف اور اندیشے دور نہیں ہو سکتے۔اس کے برعکس اس مسئلے کے کسی مستقل حل کے لیے انہیں خودہی جدوجہد کرنی ہو گی۔اس جدوجہد کا پہلا مرحلہ مسلمانوں میں موجود ایک خاص مائند سیٹ میں تبدیلی ہے۔یہ مائنڈ سیٹ صرف مسلمان دنیا میں آباد مسلمانوں کا ہی نہیں، یہ خود مغرب میں آباد مسلمانوں کا مألہ بھی ہے ۔
مغرب میں آباد اس مائنڈ سیٹ کے حامل کچھ مسلمان داعش اور القاعدہ جیسے گروپوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اور کچھ ان کو عظیم مجاہد اور اللہ کے چنے ہوئے لوگ تصور کرتے ہیں۔ان میں وہ مسلمان شامل ہیں جو حال ہی میں انکے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے مختلف مغربی ممالک چھوڑ کر شام اور عراق گئے۔ روس ، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور کنیڈا وغیرہ سے خواتین سمیت کچھ لوگوں کی اس جہاد میں شرکت کے لیے ہجرت اس مائنڈ سیٹ کا ہی شاخسانہ ہے۔
ان میں سے بیشتر لوگ مغربی ممالک میں ہی پیدا اوربڑے ہوئے۔ ان کا اپنے سے ہزاروں میل دور خون خرابے میں مصروف جنگجو گروپوں سے متاثر ہونا
محض اتفاق نہیں ہے۔ اس کی گوناگوں وجوہات ہیں۔ان میں نفسیاتی، سماجی اور معاشی مسائل بھی ہیں۔اس پر ماہرین نفسیات غور کر رہے ہیں اور ان کی آراء
بھی سامنےآرہی ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے کہ ان سب لوگوں کے تعلق کے تانے بانے کہیں نہ کہیں جاکر کسی نہ کسی ایسے ادارے اور فرد سے جڑتے ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان دشمنی، اسلامی جنگوں اور جہاد جیسے معاملات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
یہ لوگ نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے ہمہ وقت یہ منترا دہراتے رہتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔اور مغرب نے ان پر سب جنگیں مسلط کیں ہیں،اور وہ جس خون خرابے میں مصروف ہیں وہ دراصل مغرب کے خلاف ایک جہاد، مزاحمتی اور دفاعی جنگ ہے جس میں شرکت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ظاہر ہے وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مذہب بھی امن یا جنگ کا مذہب نہیں ہوتا۔البتہ امن و جنگ کے سوال پر مختلف مذاہب کا اپنا ایک موقف ہوتا ہے۔
عیسائی مذہب بنیادی طور پر ایک پر امن مذہب ہے۔ لیکن امن و جنگ کے سوال پر عیسائیوں کے کردار کا تعین مذہب نے نہیں بلکہ اس کے پیروکاروں اور پیشواوں نے کیا۔یسوع مسیح نے تو تھپڑ کے جواب میں دوسرا گال آگے کرنے کی بات کی تھی۔ پھر اس کے پیروکاروں نے کروسیڈ کا جواز کہاں سے ڈھونڈ نکالا تھا ؟اور اس حقیقت سے انکار کی بھلا کیا گنجائش ہے کہ اسلامی تاریخ، خون خرابے، جنگ و جدل اور قتل غارت گری کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اس خون خرابے کا آغاز حضرت محمد ؐکی رحلت کے فوراًبعد شروع ہو گیا تھا۔خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے قتل، حضرت عائشہ اورر حضرت علی کے درمیان جنگ جس میں خود صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔یہ سلسلہ بنو امیہ اور بنو عباس کے درمیان خون خرابے سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔اسلام خواہ مذہب امن کا ہو یا جنگ کا لیکن تاریخ میں اس کے کردار کا تعین اس کے پیروکاروں نے کیا۔ان لڑائیوں میں خواہ وہ کسی بھی طرف رہے ہوں لیکن بنیادی طور پر دونوں طرف مسلمان تھے اور بیشتر اوقات مسلمانوں کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھوں میں تھی۔
یہ سلسلہ آج ذرامختلف اور بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔اور اس وقت تک آگے بڑھتا رہے گا جب تک اصل مسئلے کو سمجھنے کی بجائے یہ بحث جاری رہے گی کہ اسلام امن کا مذہب ہے یا جنگ کا۔لیکن ستم طریفی کی بات یہ ہے کہ اب یہ مسلہ دنیا کے ایجنڈے پر پہلے نمبر آتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے دنیا کا ہر قابل ذکر فورم اس پر سوچنے اور گفتگو کرنے پر مجبور ہے۔
اس کی وجہ سے دنیا کی توجہ اصل مسائل سے ہٹتی جا رہی ہے۔دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت، طبقاتی تضادات، قومی سوالات اور ماحولیات جیسے اہم مسائل سے توجہ ہٹتی جا رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ مٹھی بھر جنونی لوگوں نے اس طرح دنیا کو اپنے جنون کے آگے لگا دیا ہے۔ یہ روشن خیال، ترقی پسند اور روادار قوتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج اور لمحہ فکریہ ہے۔
♠
One Comment