کیا کشمیری عوام کو وہی کچھ سوچنا ہے بولنا ہے پڑھنا ہے اور لکھنا ہے جو ان قابض قوتوں کا لکھا ہوا ہو۔ اپنی تاریخ کی حفاظت ہر قوم کی حق ہے ان سے کوئی یہ حق چھین نہیں سکتا
نہ اپنی سرزمین سے کوئی دستبردار ہوسکتا ہے
♦
جب ریاستیں عوام کو حقوق دینے میں ناکام ہوجاتی ہیں یا منصوبہ بندی کے ساتھ حقوق دینے سے انکار کرتی ہیں تو اپنے اس انکار کو درست ثابت کرنے کے لیے ایسے قوانین بناتیں ہیں جن کو وہ قانون کی حکمرانی سے تعبیر کرکے اختلاف کرنے والوں، سوچنے بولنے اور لکھنے والوں کو قتل کرتی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے پر پابندی لگاتی ہیں ان کو قید کر دیتی ہیں اور سب سے زیادہ خوف ان کو کتابوں سے آتا ہے وہ ان لفظوں سے ڈرتے ہیں جو حوصلے سے کوئی ادا کرتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں نئے قوانین بنائے جارہے ہیں اور حیران کن حد تک پاکستان کی پارلیمنٹ اس کی منظوری بھی دے دیتی ہے۔
اپنے ہی تیار کردہ مجاہدوں کی دہشت گردی کو روکنے کیلئے پاکستان کی انتظامیہ نے سب سے پہلے دہشت گردی کے خاتمہ کا قانون (اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ) بناکر دہشت گردی سے نبٹنے کا اعلان کیا یہ تو معلوم نہیں کہ دہشت گردی کو کتنا کم کیا گیا لیکن اس ایکٹ کے متن سے ایک اور قانون تحفظ پاکستان ایک ایکٹ ( پاکستان پروٹیکشن ایکٹ) کا جنم ہوا۔
اس قانون کے تحت کتنے دہشت گرد مارے گئے پکڑے گئے یا ان کو سزائیں دی گئی ؟لیکن اس قانون کے ذریعے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں سیاسی کارکنوں، قوم پرست تنظیموں اور ترقی پسند نظریات رکھنے والے لوگوں کو یا تو گولی مار دی گئی یا پھر ان پر غداری کے مقدمات چلا کر سزائیں سنائی گئیں۔ اس کی صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ گلگت بلتستان میں عوام حقوق کے لئے لڑنے والے رہنما بابا جان کو نہ صرف قید کیا گیا بلکہ ان کو کوئی 60 سال کی سزا بھی سنائی گئی اور کچھ دوسرے مقدمات بھی ان پر چلائے جارہے ہیں جو پاکستان سے غداری کے دفعات کے تحت درج کئے گئے ہیں ۔ مزید یہ کہ ان مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء پر بھی غداری کے مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں وکلاء کی تنظیم گلگت بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت بے شمار دوسرے سیاسی کارکن شامل ہیں۔
ابھی پاکستان کا تحفظ جاری ہی تھا کہ پاکستان فوج کے زیر اہتمام آرمی پبلک اسکول میں فوجیوں کے معصوم بچوں پر گولیاں برسادی گئیں بس پھر کیا تھا کہ ایک اور قانون کی سخت ضرورت محسوس کی گئی فوجی سربراہ اپنی سپاہ کو لیکر بہت مشتعل ہوئے راتوں رات ایک نیا قانون پاکستان نیشنل ایکشن پلان نافذ کردیا گیا جس کا بظاہر مقصد ان مذہبی انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنا تھا جو پاکستان کے متقدر حلقوں نے خود تراشے تھے جن کا استعمال وہ افغانستان اور کشمیر میں بڑی خوبصورتی سے کرچکے تھے ۔
لیکن اس کے تحت پاکستان کی جیلوں میں بند سزائے موت کے وہ قیدی بھی پھانسی پر لٹکادیئے گئے جو ان کی اپنی تعریف کردہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے تھے یوں سمجھیے کہ پھانسیوں کی ایک بہار آگئی۔ پھانسیوں کی اس بہار میں نیلم آزاد کشمیر کے ایک نوجوان کی متنازعہ پھانسی بھی شامل ہے (باوجود اس کے وہ نوجوان ایک 5 سال کے بچے کے قتل میں ملوث تھا لیکن جب اس نے یہ جرم کیا تھا اس وقت اس کی اپنی عمر 18 سال سے کم تھی)۔
اس ایکشن پلان کے تحت جن مذہبی انتہا پسندوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں ان کے جنازوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ شامل ہوکر ان کو تعظیم دے رہے ہیں ان کے تابوتوں کو کندھا دینا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اسی ایکشن پلان کے ذریعے عدلیہ کے تمام اختیارات بھی پاکستان آرمی کو دیئے گئے تیز ترین انصاف فراہم کرنے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرکے فوجی آفیسرز کو ججز کی کرسی پر بٹھا دیا گیا جہاں مقدمات چلتے ہیں ۔کون مدعی ہے کون وکیل اور کون منصف انصاف کا کٹہرہ کہاں لگتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں بس انصاف ہو رہا ہے۔
اسی ایکشن پلان کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی کاروائیاں شروع کی گئی حالانکہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی اور خود پاکستان کے آئین کے مطابق بھی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کا نہ تو حصہ ہیں اور نہ ہی پاکستان کے قوانین ریاست کشمیر کے ان حصوں پر لاگو ہوسکتے ہیں لیکن طاقت کے آگے بے بسوں کی صرف آہیں ہی ہیں۔
اس قانون کے آنے سے پہلے بھی کتابوں پر پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔ ایک فہرست کے مطابق 12 کتابوں پر پابندی لگائی جاچکی ہیں جن میں کرشنا مہتا کی سوانح عمری، یوسف صراف کی کشمیر فائٹ فریڈم، منشی محمد الدین فوق کی لکھی تاریخ، تاریخ کشمیر اور مقبول بٹ پر لکھی گئی کتاب شعور فردا شامل ہیں ۔دلچسپ بات یہ کہ ایک سرکاری آفیسر کو صرف اس لیے نوکری سے نکال دیا گیا کہ اس نے کشمیر کے تاریخی نقشے کو کیوں چھاپا۔
بات اگر یہاں تک ہوتی تو شاید برداشت کرلی جاتی لیکن اس ایکشن پلان کے تحت اپیکس کمیٹی کی میٹنگ جس میں صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر وزیراعظم پاکستان اور فوج کے سپہ سالار بھی شریک تھے، میں اس طرح کی تمام کتابوں کو فوری ضبط کرکے چھاپنے بیچنے اور پڑھنے والوں پر مقدمات کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ پہلی کاروائی میرپور میں بک شاپ کو سربمہر کردیا گیا۔ کتابوں کی دکان کے مالک پبلشر اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں پر اسی ایکشن پلان کے تحت مقدمات قائم کرکے کام کرنے والے کارکن کو گرفتار کرلیا گیا۔
دوسری بڑی کاروائی ہجیرہ پونچھ میں کرکے دکان کو سیل کرکے کتابوں کو ضبط کرلیا ۔آزاد کشمیر کے تمام شہروں میں کتابوں کو قید کرنے کے لئے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ ان ساری کتابوں کو قید کرنے کا حکمِ شاہی صادر ہے جو کشمیر کی تاریخ یا تحریک پر لکھی گئی ہیں ۔
ایک تقسیم شدہ ریاست جموں کشمیر کو پھر ایک متحدہ ریاست تشکیل دینے پر لکھی گئی ہیں۔ کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹرز کو ایک ضابطہ کے تحت پابند کردیا گیا کہ وہ کیا کیا چھاپ سکتے ہیں اور کیا کیا نہیں چھاپ سکتے۔ ایک اخبار میں میرا نٹرویو چھاپنے پر اس اخبار کے چیف ایڈیٹر کو بلاکر سخت تنبیہ کی گئی کہ اس طرح کے انٹرویوز اور مضامین اگر دوبارہ چھاپے گئے تو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
بائیس اکتوبر اور ایکشن پلان
بائیس اکتوبر 2015ء کو پورے آزاد کشمیر میں ترقی پسند اور قوم پرست پارٹیوں نے قبائلیوں کی شکل کے بیرونی حملہ آوروں کے 22 اکتوبر 1947ء کے حملے کے خلاف یوم سیاہ منایا اور پہلی دفعہ پورے آزاد کشمیر میں بڑے پیمانے پر ان حملہ آوروں کی مذمت کی گئی اور اس دن کو ایک محسوس دن قرار دیا گیا۔ اس میں کی جانے والی تقاریر اور نعرے پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان میں لکھی عبارت کے خلاف قرار دیکر راولا کوٹ میں مظاہرین پر ہلہ بول دیا گیا۔
سردار صغیر ایڈوکیٹ سمیت درجنوں کارکنوں پر تشدد کرکے گرفتار کرلیا گیا جبکہ کئی دوسرے مظاہرین زخمی ہوگئے۔ ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمات درج کرکے جیل بھیج دیا گیا جو ہنوز گرفتار ہیں یہ اس ایکشن پلان کی دوسری قسط جاری کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے قوانین کے ذریعے لوگوں کو سوچنے بولنے پڑھنے اور لکھنے سے روکا جاسکتا ہے ؟ کیا کشمیر کے عوام کو جس طرح کے جبر کا سامنا ہے اس جبر سے چھٹکارے کے لیے پہلے سے زیادہ حوصلوں کی ضرورت نہیں ہے؟۔ ایک طرف بنیاد پرستی اور الحاق کے حامی قوتوں کی اپنے عوام سے دشمنی اور دوسری طرف قابض ملکوں کی فوجیں کشمیری عوام سے سب کچھ چھیننے میں مصروف ہیں ان کی تاریخ، تہذیب، ثقافت اور تاریخی ورثہ۔
کیا کشمیری عوام کو وہی کچھ سوچنا ہے بولنا ہے پڑھنا ہے اور لکھنا ہے جو ان قابض قوتوں کا لکھا ہوا ہو۔ اپنی تاریخ کی حفاظت ہر قوم کی حق ہے ان سے کوئی یہ حق چھین نہیں سکتا نہ اپنی سرزمین سے کوئی دستبردار ہوسکتا ہے۔ کتابوں پر پابندی سے سوچیں اور خیالات کو پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔تاریخ نے یہی سبق دیئے ہیں اور نچوڑ بھی یہی ہے علم عالم انسانیت کا ورثہ ہے اس پر پہرہ نہیں بٹھایا جاسکتا۔